اطلاعات کے مطابق مزید ترمیم کی گئی ہیں، وکیل درخواست گزار خواجہ حارث
محض زیادتی پر قانون کو اڑا نہیں جاسکتا، پارلیمنٹ عوام کی منشا کا عکاس ہے، جسٹس منصور علی شاہ
یہ نہیں دیکھ رہے کہ کس نے نیب ترامیم کیں، صرف بنیادی حقوق کی خلاف ورزی دیکھیں گے، جسٹس اعجاز الاحسن
نیب قانون میں نئی ترامیم پر جواب نہیں دونگا، ابھی نیب قانون میں نئی ترمیم محض مفروضہ ہے،وکیل وفاقی حکومت
عدالت نے سماعت 19 اگست تک ملتوی کردی
اسلام آباد (ویب نیوز)
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال نے نیب ترامیم سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ اچھی طرز حکمرانی اور احتساب بنیادی حقوق میں شامل ہیں، ہماری معیشت اس وقت تباہی کے دہانے پر ہے، عدالت عظمی نے مفاد عامہ کو بھی دیکھنا ہے۔جمعہ کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نیب ترامیم کیخلاف سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پرسماعت کی۔دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیب قوانین میں کیا گزشتہ روز کوئی مزید ترمیم کی گئی ہے جس پر درخواست گزارکے وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ میری اطلاعات کے مطابق مزید ترمیم کی گئی ہیں۔اس دوران جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ خواجہ حارث ان ترامیم سے متعلق مزید تفصیلات عدالت میں جمع کرائیں، شاید پہلے 50 کروڑ والی بات نہیں تھی لیکن اب شامل کی جاچکی ہے؟ کیا یہ ترامیم جو کی گئی ہیں وہ صدر مملکت کے پاس منظوری کے لئے بھیجی گئی ہیں؟۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس کی سماعت میں آپ کو ہم مزید وقت دیں گے، دوسری طرف سے بھی عدالت کو بہتر معاونت ملے گی، عدالت میں تفصیلی تحریری معروضات جمع کرائیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ نیب قانون میں کل ہونے والی ترامیم بھی چیلنج کریں گے، یہ ترامیم آئین کے اہم خد وخال پر قبضے کے مترادف ہیں، موجودہ ترامیم آئینی مینڈیٹ کی خلاف ورزی ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اس معاملے میں اسلامی نکتہ نظر بھی دیکھنا ہوگا، اس معاملے پر نیب پروسیکیوٹر جنرل دلائل دیں تو کیا مناسب نہ ہوگا۔درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عدالت آئینی ترمیم کو بنیادی اصولوں سے متصادم ہونے پر کالعدم کر سکتی ہے۔جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ آزاد عدلیہ آئین کے بنیادی ڈھانچہ میں شامل ہے، نیب ترامیم سے عدلیہ کا کونسا اختیار کم کیا گیا، یہاں مقدمہ قانون میں متعارف ترامیم کا ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا احتساب پارلیمانی جمہوریت کا حصہ ہے، آپ کا موقف ہے کہ نیب ترامیم سے احتساب کے اختیارات کو کم کردیا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس احتساب کے لیے ضروری ہے، چھوٹی چھوٹی ہائوسنگ سوسائٹیز میں لوگ ایک دو پلاٹوں کے کیس میں گرفتار ہوئے، پہلے ہر مقدمہ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں جاتا تھا، سپریم کورٹ نے فیصلہ دے کر انسداد دہشتگردی عدالت سے بوجھ کم کیا۔دوران سماعت جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کوئی منصوبہ ناکام ہونے پر مجاز افسران گرفتار ہوجاتے تھے، اسی طرح سے گرفتاریاں ہوتی رہیں تو کونسا افسر ملک کے لیے کوئی فیصلہ کرے گا، نیب ترامیم کے بعد فیصلہ سازی پر گرفتاری نہیں ہو سکتی، نیب ترامیم سے کوئی جرم بھی ختم نہیں ہوا، ترامیم کسی آئینی شق سے متاثر نظر نہیں آ رہیں، آپ کے مطابق نیب ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچے کے ایک حصے یعنی احتساب کیخلاف ہیں، آئین کا بنیادی ڈھانچے ہونے کے موقف سے متفق نہیں ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اچھا طرز حکمرانی اور احتساب بنیادی حقوق میں شامل ہیں، انتخابات خود احتساب کا ایک ذریعہ ہیں ۔انتخابات ایک سیاسی احتساب ہوتا ہے جہاں ووٹر اپنے نمائندوں کا احتساب کرتا ہے، کیس کا فیصلہ کرنے میں کوئی عجلت نہیں کریں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری معیشت اس وقت تباہی کے دہانے پر ہے، عدالت عظمیٰ نے مفاد عامہ کو بھی دیکھنا ہے۔ ایڈووکیٹ خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ نیب قانون بنا کر زیادتی ہوئی ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ محض زیادتی پر قانون کو اڑا نہیں جاسکتا، پارلیمنٹ عوام کی منشا کا عکاس ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم نہیں ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ درست بات ہے پارلیمنٹ آئین کے تابع ہے، آپ کی دلیل ہے کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے متصادم ترامیم نہیں ہوسکتیں، میں ذاتی طور پر اس دلیل سے متفق نہیں ہوں، یہ بھی بتائیں کہ نیب نے ملکی معیشت میں کیا حصہ ڈالا؟۔وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب قانون میں نئی ترامیم پر جواب نہیں دونگا، ابھی نیب قانون میں نئی ترمیم محض مفروضہ ہے، جب تک نیب قانون میں نئی ترمیم ایکٹ آف پارلیمنٹ نہ بن جائے اسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا، صدر مملکت نے اگر نئی ترمیم پر دستخط نہ کیے تو معاملہ مشترکہ اجلاس میں جائے گا، مشترکہ اجلاس میں نیب قانون میں حالیہ ترمیم منظور ہوتی ہے یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے۔وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے تیسرے چیمبر میں تبدیل کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے، نیب کے کئی کیسز لڑے ہیں، معزز ججز کو معلوم ہے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں کیا ہوتا ہے، کیا یہ سمجھیں کہ 1999 سے پہلے ملک کرپشن میں ڈوبا ہوا تھا اور کوئی ترقی نہیں ہو رہی تھی، آج سرمایہ کار سرمایہ کاری نہیں کر رہے، معیشت مشکل میں ہے۔ مخدوم علی خان نے مزید کہا کہ صدر مملکت نے نیب ترامیم کی منظوری دینے کے بجائے اپنی طرف سے ترامیم کی تجویز کا خط وزیراعظم کو لکھا، صدر مملکت کا وزیراعظم کو لکھا گیا خفیہ خط بھی عمران خان کی درخواست کا حصہ ہے، عمران خان سے پوچھاجائے کہ پہلے ان نیب ترامیم کے حق میں کیوں تھے اور اب مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ اگر عمران خان کی یہ سیاسی حکمت عملی ہے تو اس کے لیے عدالت کے بجائے کسی اور فورم کا استعمال کریں۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سال 2022 میں ہونے والی ترامیم کا اطلاق 1985 سے کیا گیا، ماضی سے اطلاق ہوا تو سزائیں بھی ختم ہوں گی اور جرمانے بھی واپس ہوں گے، اس طرح تو پلی بارگین کی رقم بھی واپس کرنا پڑیں گے، کیا پارلیمان اپنے یا مخصوص افراد کے فائدے کے لیے قانون سازی کر سکتی ہے؟ کیا قانون بنا کر مخصوص افراد کو ایمینسٹی دی جا سکتی ہے، یہ نہیں دیکھ رہے کہ کس نے نیب ترامیم کیں، صرف بنیادی حقوق کی خلاف ورزی دیکھیں گے، عدالت نے سماعت 19 اگست تک ملتوی کردی۔