اسلام آباد( ویب  نیوز)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری سے متعلق بیان پر پاکستان تحریک انصاف  کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ کرلیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامرفاروق کی سربراہی میں بینچ نے پی ٹی آئی کی جانب سے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر سماعت کے دوران پی ٹی آئی چیئرمین کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا۔عدالت نے کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ ہائی کورٹ کے تمام ججوں کی مشاورت سے ہوا ہے اور اس سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بینچ میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس بابر ستار شامل ہوں گے۔لارجر بینچ  منگل کوعمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کرے گا۔خیال رہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے دو روز قبل اسلام آباد میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ دینے والی ایڈیشنل جج زیبا چوہدری کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ آپ کے خلاف کارروائی کریں گے۔شہباز گل کی گرفتاری اور جسمانی ریمانڈ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ شہباز گل کو جس طرح اٹھایا اور دو دن جو تشدد کیا، اس طرح رکھا جیسا ملک کا کوئی بڑا غدار پکڑا ہو، آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی کو ہم نے نہیں چھوڑنا، ہم نے آپ کے اوپر کیس کرنا ہے۔انہوں نے کہا تھاکہ مجسٹریٹ زیبا صاحبہ آپ بھی تیار ہوجائیں، آپ کے اوپر بھی ہم ایکشن لیں گے، آپ سب کو شرم آنی چاہیے کہ ایک آدمی کو تشدد کیا، کمزور آدمی ملا اسی کو آپ نے یہ کرنا تھا، فضل الرحمن سے جان جاتی ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ ہم ان کے اوپر کیس کرنے لگے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ گل کے ساتھ انہوں نے جو کیا، انہوں نے قانون کی بالادستی کی دھجیاں اڑا دیں، آج اپنے وکیلوں سے ملاقات کی ہے، آئی جی، ڈی آئی جی اور ریمانڈ دینے والی اس خاتون مجسٹریٹ پر کیس کریں گے۔گزشتہ روز اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں عمران خان کے خلاف اعلی سرکاری افسران کو دھمکیاں دینے کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔مقدمے میں 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلی ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔مجسٹریٹ علی جاوید نے کہا تھا کہ عمران خان نے اپنی تقریر میں آئی جی پولیس اسلام آباد، ڈی آئی جی اور خاتون مجسٹریٹ کو دھمکیاں دیں اور ان پر مقدمہ درج کرنے کا کہا، عمران خان کے ان الفاظ اور تقریر کا مقصد پولیس کے اعلی افسران اور عدلیہ کو دہشت زدہ کرنا تھا تاکہ پولیس افسران اور عدلیہ اپنی قانونی ذمہ داریاں پوری نہ کر سکیں۔ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس انداز میں کی گئی تقریر سے پولیس حکام، عدلیہ اور عوام الناس میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور عوام الناس میں بے چینی، بدامنی اور دہشت پھیلی اور ملک کا امن تباہ ہوا۔