اسلام آباد (ویب نیوز)
وزیراعظم قطر کے دو روزہ سرکاری دورے پر دوحہ پہنچ گئے
قطر کے وزیر ٹرانسپورٹ جاسم سیف ال سلیطیی دوحہ کے ہوائی اڈے پر وزیراعظم کا استقبال کیا
پاکستان اور قطر کے درمیان تاریخی دوطرفہ روابط کو اسٹرٹیجک تعلقات میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں، شہباز شریف
دوحہ(ویب نیوز)
وزیراعظم میاں شہباز شریف قطر کے دو روزہ سرکاری دورے پر دوحہ پہنچ گئے ۔ قطر کے وزیر ٹرانسپورٹ جاسم سیف ال سلیطیی نے دوحہ کے ہوائی اڈے پر وزیراعظم شہباز شریف کا استقبال کیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان اور قطر کے درمیان تاریخی دوطرفہ روابط کو اسٹرٹیجک تعلقات میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ایک پیغام میں وزیراعظم نے دورہ قطر کے متعلق آگاہ کیا ہے۔وزیراعظم نے کہا ہے کہ اس دورے سے دونوں ممالک کے درمیان دوستی اور بھائی چارے کے تعلق کی تجدید ہوں گی۔انہوں نے کہا ہے کہ وہ کاروباری برادری سے ملاقاتوں میں انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کے پرکشش مواقع کے بارے میں آگاہ کریں گے جن میں قابل تجدید توانائی، فوڈ سکیورٹی، صنعت و انفراسٹرکچر کی ترقی، سیاحت اورمہمان نوازی کے شعبے شامل ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ مشترکہ چیلنجز متقاضی ہیں کہ تعاون کی نئی راہیں ڈھونڈیں۔وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی کی دعوت پر قطر کے دوروزہ سرکاری دورے پر روانہ ہو گئے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے ہمراہ وفاقی وزراء خواجہ محمد سعد رفیق، سردار ایاز صادق، چوہدری طارق بشیر چیمہ، مریم اورنگزیب ، وزیر اعظم کے مشیر احد خان چیمہ اور معاون خصوصی سید طارق فاطمی اور دیگر اعلیٰ حکام بھی قطر روانہ ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ روانگی سے قبل وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کا ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں کہنا تھا کہ اپنے بھائی شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کی دعوت پر قطر روانہ ہو رہا ہوں۔ اس دورے سے دونوں ممالک کے درمیان دوستی اور بھائی چارے کے تعلق کی تجدید ہوں گی۔ ہم اپنے تاریخی دوطرفہ روابط کو اور بھی زیادہ موثر سٹرٹیجک تعلقات میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔شہبازشریف کا کہنا تھا کہ کاروباری برادری سے ملاقاتوں میں، میں انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کے پرکشش مواقع کے بارے میں آگاہ کروں گا جن میں قابل تجدید توانائی، فوڈ سکیورٹی، صنعت و انفراسٹرکچر کی ترقی، سیاحت اورمہمان نوازی کے شعبے شامل ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس دورے کے تناظر کو سمجھنا اہم ہے۔ کورونا وبا کے بعد دنیا معاشی سست روی سے بحالی کی طرف جا رہی ہے۔ جیوپولیٹیکل کشیدگیوں نے طلب اور رسد کا عمل متاثر اور توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے نے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ مشترکہ چیلنجز متقاضی ہیں کہ تعاون کی نئی راہیں ڈھونڈیں۔