اگر کہیں کسی تفصیل پر شک پڑتا ہے تو الیکشن کمیشن اس کی سکروٹنی کرتا ہے، 2019- 20 میں ہمیں 17 لاکھ کے تحائف ملے، وکیل عمرا ن خان

آپ نے جو تحائف خریدے، رقم توشہ خانہ کو ادا کی، وہ رقم کہاں سے آئی، ممبرالیکشن کمیشن

اسلام آباد (ویب نیوز)

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی نااہلی کے لئے دائرتوشہ خانہ ریفرنس  میں فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ۔فیصلہ آنے والے دنوں میں سنایا جائے گا۔ چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں نثار احمد درانی، شاہ محمد جتوئی، بابر حسن بھروانہ اور جسٹس (ر)اکرام اللہ خان پر مشتمل پانچ رکنی نے پاکستان مسلم لیگ (ن)کے رکن قومی اسمبلی علی گوہر خان بلوچ اور حکمران اتحاد کے پانچ دیگر اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے توشہ خانہ کے تحائف انتخابی گوشواروں میں چھپانے پر سابق وزیر اعظم عمران خان کی آرٹیکل 63 کے تحت نااہلی کے لئے دائر ریفرنس پر سماعت کی۔ ریفرنس اراکین قومی اسمبلی نے اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے توسط سے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔ دوران سماعت عمران خان کے وکیل بیرسٹر سینیٹر سید علی ظفر کا کہنا تھا کہ سپیکر قومی اسمبلی نے آرٹیکل 63دو کے تحت جو ریفرنس بھجوایا ہے وہ غیر قانونی ہے، انہیں ریفرنس بھجوانے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں اور کسی عدالت سے ڈیکلیئریشن سپیکر قومی اسمبلی کو نہیں گیا کہ عمران خان نااہل ہیں اور سپیکر نے بغیر ڈیکلیئریشن کے ہی ریفرنس بنا کر الیکشن کمیشن کو بھیج دیا، الیکشن کمیشن یہ کیس نہیں سن سکتا۔ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آرٹیکل62ون ایف اور63دو کے تحت نااہل کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر قانون کے مطابق اثاثہ ظاہر نہیں کیا جاتا توپھر 120دن کے اندر الیکشن کمیشن اس پر سماعت کرسکتا ہے لیکن اب یہ کیس بہت زیادہ پرانا ہو چکا ہے اور یہ ایک سیاسی کیس ہے۔ ہم نے تمام اثاثے اور ٹیکس ریٹرن اپنے جواب کے ساتھ لگادیئے ہیں۔ سپیکر کہہ رہے ہیں کہ عمران خان صادق اور امین نہیں ہیں۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ ہر مس ڈیکلیئریشن ناہلی نہیں بنتی۔ ان کا کہنا تھا کہ سپیکر کی جانب سے بھجوایا گیا سوال مسترد ہوتاہے۔ عمران خان کے خلاف الزامات بے بنیاد اور ناجائز ہیں اور بدنیتی پرلگائے گئے ہیں، یہ سیاسی ریفرنس ہے اور سپیکر نے دیکھے بغیر خود ہی ریفرنس بنا کر الیکشن کمیشن کو بھیج دیا ۔ جبکہ (ن)لیگ کے وکیل بیرسٹر خالد اسحاق کا جواب الجواب میں کہنا تھا کہ عمران خان نے تحائف وصول کرنے اور فروخت کرنے کو تسلیم کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ تحائف کس تاریخ اور کتنی مالیت میں فروخت کئے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنے لندن فلیٹ کی رسیدیں دی تھیں لیکن تحائف فروخت کرنے کی رسیدیں فراہم نہیں کیں چنانچہ انہیں نااہل قراردیا جائے۔ خالد اسحاق کا کہنا تھا کہ یہ الیکشن کمیشن کو ایک اکائونٹ دکھاتے ہیں کہ اس میں پانچ کروڑ روپے پڑے ہیں لیکن کوئی رسید نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین نے الیکشن کمیشن کو اختیار دیا ہے اور وہ آرٹیکل62ون ایف اور63دو کے تحت نااہل کرسکتا ہے۔ علی ظفر نے مزید کہا کہ تحائف کی 5 کروڑ 80 لاکھ آمدن پر جو ٹیکس دیا وہ ہم نے ڈکلیئرکیا ہے، 2021 تک کی تفصیلات جواب میں دے دی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر کہیں کسی تفصیل پر شک پڑتا ہے تو الیکشن کمیشن اس کی سکروٹنی کرتا ہے، ہمارے کیس میں الیکشن کمیشن نے کوئی اعتراض نہیں لگایا، 2019- 20 میں ہمیں 17 لاکھ کے تحائف ملے۔ممبر کمیشن نے کہا کہ آپ نے جو تحائف خریدے، رقم توشہ خانہ کو ادا کی، وہ رقم کہاں سے آئی، جس پر وکیل عمران خان نے کہا کہ یہ بات ہم نے آپ کو نہیں دکھانی۔الیکشن کمیشن نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔