دہشت گردی کی دفعہ لگتی ہے، اس کیس میں چالان رپورٹ تیار ہو گئی ہے،پراسیکیوٹررضوان عباسی
دہشتگردی کی دفعات کیلئے کچھ بنیادی عناصر ضروری ہوتے ہیں، عمران خان پر درج مقدمے میں وہ تمام عناصر موجود نہیں،وکیل عمران خان
اگر آپ تقاریر پر ایسے پرچے درج کرائیں گے تو ایک فلڈ گیٹ کھل جائے گا، چیف جسٹس اطہر من اللہ
عمران خان کی پوری تقریر میں تھریٹ یا نقصان پہنچانے کی بات کی گئی؟ کیا آئی جی یا ڈی آئی جی نے کوئی کمپلینٹ فائل کی ہے ؟
یہ الفاظ سابق وزیراعظم اور ہو سکتا ہے مستقبل کے بھی وزیر اعظم ہوں ان کی جانب سے استعمال کئے گئے، پولیس اور ججز کے حوالے سے بھی تھریٹ کیا گیا،پراسیکیوٹر
دہشت گردی کے مقدمہ اندراج کا غلط استعمال تو ہوتا رہا ہے ، جب آپ کہتے ہیں تقریر کے علاوہ تفتیش میں کچھ نہیں آیا تو ڈیزائن تو ختم ہو گیا،چیف جسٹس
اگر ایس ایچ او کسی کو کہے کہ میں تمہیں دیکھ لوں گا تو اس کے سنجیدہ اثرات اور نتائج ہو سکتے ہیں، بالکل اسی طرح سابق وزیر اعظم کے اس اشتعال انگیز بیان کے بھی اثرات ہیں،پراسیکیوٹر
اسلام آباد (ویب نیوز)
اسلام آباد ہائیکورٹ نے خاتون جج کو دھمکیاں دینے کے کیس میں عمران خان کیخلاف دہشتگردی کی دفعات خارج کردیں۔ پیر کو ہائی کورٹ میں جج دھمکی کیس میں عمران خان کی دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔عدالت نے جے آئی ٹی سے جواب طلب کیا کہ دہشت گردی کا مقدمہ بنتا ہے یا نہیں۔ جے آئی ٹی نے عمران خان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درست قرار دے دیا۔اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے عدالت کو آگاہ کردیا کہ دہشت گردی کی دفعہ لگتی ہے، اس کیس میں چالان رپورٹ تیار ہو گئی ہے۔عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیئے کہ دہشتگردی کی دفعات کیلئے کچھ بنیادی عناصر ضروری ہوتے ہیں، عمران خان پر درج مقدمے میں وہ تمام عناصر موجود نہیں، دہشتگردی کا مقدمہ خوف اور دہشت کی فضا پیدا کرنے پر ہی بن سکتا ہے، محض ایسی فضا پیدا ہونے کے امکان پر مقدمہ نہیں بن سکتا، درخواست اگر آتی تو ان کی طرف سے آتی جن کے لیے کہا گیا تھا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پراسیکیوٹر سے کہا کہ اگر آپ تقاریر پر ایسے پرچے درج کرائیں گے تو ایک فلڈ گیٹ کھل جائے گا، عمران خان کی پوری تقریر میں تھریٹ یا نقصان پہنچانے کی بات کی گئی؟ کیا آئی جی یا ڈی آئی جی نے کوئی کمپلینٹ فائل کی ہے ؟۔پرا سیکیوٹر نے کہا کہ یہ الفاظ سابق وزیراعظم اور ہو سکتا ہے مستقبل کے بھی وزیر اعظم ہوں ان کی جانب سے استعمال کئے گئے، پولیس اور ججز کے حوالے سے بھی تھریٹ کیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ بادی النظر میں اس کیس میں ان دفعات میں سے ایک دفعہ بھی نہیں لگتی ، دہشت گردی کے مقدمہ اندراج کا غلط استعمال تو ہوتا رہا ہے ، جب آپ کہتے ہیں تقریر کے علاوہ تفتیش میں کچھ نہیں آیا تو ڈیزائن تو ختم ہو گیا، آپ نے خود تسلیم کیا ہے کہ تقریر کے علاوہ ان کے خلاف کچھ نہیں۔پراسیکیوٹر نے دلائل دیئے کہ یہ نہیں کہا کہ کوئی لیگل ایکشن لیں گے بلکہ کہا کہ ہم ایکشن لیں گے، اگر ایس ایچ او کسی کو کہے کہ میں تمہیں دیکھ لوں گا تو اس کے سنجیدہ اثرات اور نتائج ہو سکتے ہیں، بالکل اسی طرح سابق وزیر اعظم کے اس اشتعال انگیز بیان کے بھی اثرات ہیں، انہی حقائق پر تفتیشی نے آئی جی سے دو بار کہا کہ مجھے کیس سے الگ کیا جائے، عمران خان نے بیان سے یقینا افسران کو خطرے میں ڈالا۔عدالت نے عمران کی دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ عدالت نے دونوں فریق کے دلائل سننے کے بعد درخواست پر فیصلہ محفوظ کیاجسے بعد میں سناتے ہوئے دہشتگردی کی دفعات ختم کر دی گئیں۔