•   پبلک اکائونٹس کمیٹی نے سرکاری جہازوں و ہیلی کاپٹرز کے استعمال کی تمام تر تفصیلات کابینہ ڈویژن، عملہ ڈویژن، ایف آئی اے اور نیب سے طلب کرلیں
  • پی اے سی کا تمام 1800نادہندگان کی اس معاملے میں فہرست نہ پیش کرنے پر بھی برہمی کا اظہار، ایف آئی اے  اور نیب کو تمام ڈیٹا اکٹھا کرنے کی ہدایت
  • پی اے سی کی سی این جی اور کھاد بنانے والی انڈسٹری سے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی مدد میں 452 ارب روپے کی ریکوری نہ ہونے پر ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی  پی کے ایم ڈیز کی سخت سرزنش کی ہے اور سیکرٹری پٹرولیم کو ریکوریز میں ناکامی کے ذمہ داران افسران کے تعین کی ہدایت کردی

اسلام آباد (ویب نیوز)

پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے وفاق اور چاروں صوبوں میں سرکاری جہازوں و ہیلی کاپٹرز کے استعمال کی تمام تر تفصیلات کابینہ ڈویژن، عملہ ڈویژن، ایف آئی اے اور نیب سے طلب کرلیں، پی اے سی نے واضح کیا ہے کہ کسی جماعت کا کوئی سربراہ کسی صوبے میں اپنی حکومت کے جہاز اور ہیلی کاپٹر کو استعمال نہیں کرسکتا، پی اے سی نے تمام 1800نادہندگان کی اس معاملے میں فہرست نہ پیش کرنے پر بھی برہمی کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ ایف آئی اے  اور نیب کو تمام ڈیٹا اکٹھا کرنے کی ہدایت کردی گئی، ارکان نے کہا ہے کہ سیاسی مقاصد کیلئے  سرکاری جہاز و ہیلی کاپٹر کے استعمال کے سلسلے میں اسے سرکاری کام قرار دے دیا جاتا ہے۔ پی اے سی نے سی این جی اور کھاد بنانے والی انڈسٹری سے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی مدد میں 452 ارب روپے کی ریکوری نہ ہونے پر ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی  پی کے ایم ڈیز کی سخت سرزنش کی ہے اور سیکرٹری پٹرولیم کو ریکوریز میں ناکامی کے ذمہ داران افسران کے تعین کی ہدایت کردی ۔ کمیٹی نے  جی آئی ڈی سی کی مد میں تمام 400 سے زائد نادہندگان کی تفصیلات طلب کرلیں ۔پی اے سی کا اجلاس  منگل کو چیئرمین نور عالم خان کی صدارت میں ہوا۔  ارکان نے کہاکہ یہ ملک قرضے لے کر چلایا جارہا ہے سیلاب متاثرین کیلئے سرکاری جہاز  اور ہیلی کاپٹر نہیں ہیں جبکہ  یہاں سیاسی جماعتوں کے سربراہان سرکاری جہاز سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ نور عالم خان نے سیکرٹری کابینہ ڈویژن، عملہ ڈویژن، نیب  ،ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ وفاق اور صوبوں میں کوئی بھی غیر مجاز شخص  جہاز یا ہیلی کاپٹر استعمال کرے اس کی فوری  اطلاع پی اے سی کو دی جائے ۔ 1800نادہندگان کی  تمام تفصیلات  پی اے سی میں پیش کی جائیں ۔ محسن عزیز نے کہاکہ سرکاری جہاز کے نجی استعمال کیلئے لاک بک میں سرکاری  استعمال لکھ دیا جاتا ہے۔ اجلاس کی کارروائی کے دوران چیئرمین  پی اے سی نے ہدایت کی کہ وفاق اور صوبوں میں سرکاری جہاز اور ہیلی کا پٹرز کے استعمال  کی تمام تر تفصیلات پیش کی جائیں جس صوبے میں بھی اس کا غلط استعمال ہوا ہے ذمہ داروں سے  یا ذمہ داران سے ریکوریز کی جائیں گی یہ معاملہ کسی خاص صوبے کیلئے نہیں ہے۔ اجلاس کے دوران سیکرٹری پٹرولیم  حسابات کی جانچ پڑتال کے حوالے سے  تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ افسران لائن لاسز پر قابو پانے کی حکمت عملی سے بھی آگاہ نہ کرسکے ۔ پی اے سی ارکان نے کہاہے کہ جس علاقے سے گیس نکل رہی ہے مقامی آبادی کو نظر انداز کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ سیکرٹری پٹرولیم نے بتایا کہ جی آئی ڈی سی  کے نادہندگان سے  وصولیوں کیلئے  وزیراعظم نے وزیر قانون کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی ہے۔ سیکرٹری پٹرولیم نے بتایا کہ ایس این جی پی ایل موسم سرما میں فرنچائز ایریا میں ایل پی جی گیس کے سلنڈرز فراہم کرے گی۔ سیکرٹری پٹرولیم نے بتایا کہ جی آئی ڈی سی کی مد میں67ارب روپے کے واجبات ایسے ہیں جن پر کوئی مقدمات نہیں ہیں  مگر دونوں کمپنیاں  کوئی پیشرفت نہ کرسکیں ۔ ایس ایس جی پی ایل نے  ساڑھے سات ارب روپے ، ایس این جی پی ایل نے 60ارب روپے وصول کرنے ہیں۔ ایم ڈیز نے بتایا کہ گیس کنکنشنز منقطع کردئیے گئے ہیں۔ نور عالم خان اور دیگر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ان کے ڈیپازٹ کیوں نہیں ضبط کیے گئے۔ سی این جیز نے وسیع پیمانے پر پیسے کمائے اور جی آئی ڈی سی نہ دے سکے فوری طورپر ریونیو ایکٹ کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ یہ ہی طریقہ کار کھاد بنانے والی کمپنیوں کے حوالے سے کیا جائے۔ پی اے سی نے ہدایت کی ہے کہ67 ارب روپے کی غیر متنازع واجبات کو وصولی میں ناکامی پر متعلقہ افسران کیخلاف کارروائی کی جائے۔ واجبات کی وصولی میں پیشرفت کرتے ہوئے  7 روز میں رپورٹ پیش کی جائے۔ ایم ڈی  ایس این جی پی ایل کو اس بات پر جھاڑ پلا دی گئی کہ کارروائی صرف گیس منقطع کرنے کی حد تک کی گئی۔ نور عالم خان نے کہاکہ ملی بھگت کی وجہ سے ریکوریاں نہیں ہوتیں اگر افسران کیخلاف کارروائی ہوتی تو ریکوریز میں بھی یقیناً پیشرفت ہو جاتی۔ یہاں ایم ڈی اجلاس کو غیر سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔