نیب قانون میں ترامیم کیخلاف کیس ، گزشتہ 23 سال کے ہائی پروفائل کرپشن کیسز کا ریکارڈ سپریم کورٹ طلب

نیب قانون میں تبدیلی سے بے نامی دار کی تعریف انتہائی مشکل بنا دی گئی،وکیل خواجہ حارث

کس آئینی شق کو بنیاد بنا کر نیب قانون کو کالعدم قرار دیں،جسٹس منصور علی شاہ..

معاشی پالیسیاں ایسی ہونی چاہئیں کہ بنیادی حقوق متاثر نہ ہوں،وکیل خواجہ حارث

 معاشی پالیسیوں کو دیکھنا سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے،چیف جسٹس عمرعطابندیال

 میں معاشی پالیسی کے الفاظ واپس لیتا ہوں،وکیل خواجہ حارث

عدالت نے سماعت آج (بدھ تک) ملتوی کردی

اسلام آباد(ویب  نیوز)

سپریم کورٹ نے نیب قانون میں ترامیم کے خلاف مقدمے میں گزشتہ 23 سال کے ہائی پروفائل کرپشن کیسز کا ریکارڈ طلب کرلیا۔منگل کو نیب قانون میں حالیہ ترامیم کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی، جس میں پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب قانون میں تبدیلی سے بے نامی دار کی تعریف انتہائی مشکل بنا دی گئی ۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ کس آئینی شق کو بنیاد بنا کر نیب قانون کو کالعدم قرار دیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ یہ معاملہ اہم سیاسی رہنمائوں کے کرپشن میں ملوث ہونے کا ہے۔ جہاں عوامی پیسے کا تعلق ہو، وہ معاملہ بنیادی حقوق کے زمرے میں آتا ہے۔ جعلی بینک اکائونٹس کیسز میں بھی بے نامی کا معاملہ تھا۔ معاشی پالیسیاں ایسی ہونی چاہئیں کہ بنیادی حقوق متاثر نہ ہوں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ معاشی پالیسیوں کو دیکھنا سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے۔ اگر کسی سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو قانون میں مکمل شفاف ٹرائل کا طریقہ کار موجود ہے۔چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ معیشت پالیسی کا معاملہ ہوتا ہے جس میں عدالت مداخلت نہیں کر سکتی۔ عوام کے اثاثوں کی حفاظت ریاست کی ذمے داری ہے۔ بے تحاشا قرض لینے کی وجہ سے ملک بری طرح متاثر ہوا ہے۔ قرضوں کا غلط استعمال ہونے سے ملک کا یہ حال ہوا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ زیادہ تر غیر ضروری اخراجات ایلیٹ کلاس کی عیاشی پر ہوئے۔ ملک میں 70 سے 80 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عدالت حکومت کو قرض لینے سے نہیں روک سکتی۔ معیشت کے حوالے سے فیصلے کرنا ماہرین ہی کا کام ہے۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں معاشی پالیسی کے الفاظ واپس لیتا ہوں۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ہمیں پہلے یہ بتائیں کہ نیب ترامیم کے ذریعے کس بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے؟۔ فرض کریں پارلیمنٹ نے ایک حد مقرر کردی  کہ اتنی کرپشن ہوگی تو نیب دیکھے گا۔ سوال یہ ہے کہ ایک عام شہری کے حقوق کیسے متاثر ہوئے ہیں؟۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے جواب دیا کہ نیب قانون سے زیر التوا مقدمات والوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا کوئی ایسی عدالتی نظیر موجود ہے جہاں شہری کی درخواست پر عدالت نے سابقہ قانون کو بحال کیا ہو؟۔ شہری کی درخواست پر عدالت پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون کیسے کالعدم قرار دے سکتی ہے؟۔ وکیل نے جواب دیا کہ پبلک منی کے معاملے پر عدالت قانون سازی کالعدم قرار دے سکتی ہے۔عوام کا پیسہ کرپشن کی نذر ہونا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔بعد ازاں عدالت نے ریکارڈ طلب کیا کہ اب تک کتنے ایسے کرپشن کے کیسز ہیں، جن میں سپریم کورٹ تک سزائیں برقرار رکھی گئیں؟ اب تک نیب قانون کے تحت کتنے ریفرنسز مکمل ہوئے؟،نیب قانون میں تبدیلی کے بعد کتنی تحقیقات مکمل ہوئیں؟۔عدالت نے نیب سے 1999 سے لے کر جون 2022 تک تمام ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت آج (بدھ تک) ملتوی کردی۔