• چاروں صوبے یہ قانون سازی کرچکے ہیں،اسلام آباد میں نفاذ پر کیوں اعتراض کیا جارہا ہے بعد میں ترامیم کے پیکچ کے تحت ردوبدل ہوسکتا ہے ۔اجلاس میں انکشاف
  •   افغان مہاجرین کے حقوق سے متعلق معاملے کو ایجنڈامیں شامل کرنے پر وزارت انسانی حقوق کا اعتراض مسترد، سیکرٹری کو متعلقہ خط واپس لینے کی ہدایت
  •  انسانی حقوق کا مسئلہ ہر وزارت سے متعلق ہے  ہر ایک کی  انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نوٹس لے سکتے ہیں ،قائمہ کمیٹی

اسلام آباد (ویب نیوز)

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق میں حکومتی اتحادی جے یوآئی کی شدیدمخالفت کے باجودانسدادگھریلوتشدد سے متعلق بل کثرت رائے سے منظورکرلیا گیا ،مسلم لیگ(ن) نے بھی اتحادی جماعت کا ساتھ نہیں دیا ،جب کہ اجلاس میں  وفاقی وزیرقانون و انصاف  سینیٹراعظم نذیرتارڑنے انکشاف کیا ہے کہ انسدادگھریلوتشدد کے بل پر اسلامی نظریاتی کونسل نے ڈیڑھ سال سے سفارشات نہیں دی ہیں، قانون سازی پارلیمان کا مکمل اختیار ہے بل آئین سے متصادم نہیں ہے، چاروں صوبے یہ قانون سازی کرچکے ہیں،اسلام آباد میں نفاذ پر کیوں اعتراض کیا جارہا ہے بعد میں ترامیم کے پیکچ کے تحت ردوبدل ہوسکتا ہے ۔کمیٹی نے افغان مہاجرین کے حقوق سے متعلق معاملے کو ایجنڈامیں شامل کرنے پر وزارت انسانی حقوق کے اعتراض کو مستردکرتے ہوئے سیکرٹری کو متعلقہ خط واپس لینے کی ہدایت کردی، کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہر وزارت سے متعلق ہے  ہر ایک کی  انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نوٹس لے سکتے ہیں ۔قائمہ کمیٹی کا اجلاس پیر کوچیئرپرسن مہرین رازق بھٹوکی صدارت میں ہوا۔گھریلوتشددکی  سزا کے بل اور ملک بھر میں خواجہ سراؤں پر حملوں سے متعلق معاملات کا جائزہ لیا گیا۔ وزیرقانون وانصا ف  سینیٹراعظم نذیرتارڑنے  کہا کہ گھریلوتشددکی  سزا کے بل کے رولز وضع کرنا کا اختیار کابینہ کے پاس ہوگا۔انھوں نے انکشاف کیا کہ ڈیڑہ سال قبل گھریلوتشدد سے متعلق بل پر اسلامی نظریاتی کونسل  سے رائے طلب کی گئی آج تک جواب نہیں دیا۔ چاروں صوبوں میںگھریلوتشدد کی سزا کے قوانین لاگو ہوچکے ہے جب کہ پنجاب میں تو اتنی سخت قانون سازی کی گئی ہے ایک فریق کو ٹریکنگ ڈیوائس لگے گی۔قانون میں بعد میں ترامیم آسکتی ہیں بعض گھروں میں مرد بھی تشددکا سامنا کرسکتے ہیں اس کی نوعیت مختلف ہے ۔پڑوسی بھی کسی گھر میں ہونے والے تشدد کی اطلاع دے سکے گا۔ کسی غیرملکی امدا د کا تعلق اس بل سے نہیں ہے۔عدالت تسلسل سے ہونے والے تشدد کا نوٹس لے سکے گی شوکازنوٹس جاری کیا جائے گا ، معمولی باتوں پر کاروائی کا بل میں تذکرہ نہیں ہے، بل آئین سے متصادم نہیں ہے ۔سابق سینیٹر فرحت اللہ بار نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ بل میں صلح اور ثالثی کی شق نہیں ہے اس سے خاندانی نظام کے درہم برہم ہونے کاخدشہ ہے ۔ مجموعی طور پر یہ بل انسانی حقوق کو سوالیہ بنا دے گا۔وزیرقانون نے کہا کہ  کوئی تلوار نہیں لٹکائی نہیں جارہی ہے ،عدالت سے اندھا حکم نہیں آئے گا ۔قانون سازی پارلیمان کا کلی اختیار ہے اسلامی نظریاتی کونسل مشاورتی فورم ہے مگر اس نے رائے ہی نہیں دی ۔فرحت اللہ بابر نے کہا کہ بل کے تحت  معاملہ عدلیہ میں جانے سے قبل حل کرنے کا دروازہ بند کردیا گیا ہے ۔بلیک اینڈ وائٹ اختیار نہیں ہونا چاہیے۔عجلت میں قانون سازی موزوں نہیں ہے۔جے یو آئی کی رکن عالیہ کامران نے کہا کہ بل قرآن و سنت سے متصادم ہے،اسلام کے خلاف ہے ۔خاندانی نظام بکھر جائے گا ۔ کیا بچوں کو غیر اخلاقی حرکات پر والدین نہیں ڈانٹ سکتے۔ کیا بچے نشہ کررہے ہو ں اور والدین اس حوالے سے سختی نہیں کرسکتے بچے غیر اخلاقی حرکات یا غیر اخلاقی مواد دیکھ رہے  والدین کیوں روک ٹوک نہیں کرسکتے۔  بک  وجہ سے  تو ہر نافرمان بچہ یا بچی اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کو عدالتی کٹہرے میں لے آئے گا خاندان  ٹوٹ  پھوٹ کا شکار ہوجائے گا ۔ذرا سے بات  پر شوہر کو کڑا پہنوادیا جائے گا ۔ کیا کسی غفلت لاپروائی پر شوہر بیوی کو تنبیہ نہیں کرسکتا ۔ گھریلوتشدد کی سزا کا بل ،، شوگر کوٹڈ  ،، قانون سازی ہے اس کی آڑ میں کسی اور مقاصد کا حصول ہوگا اور یورپ کو خوش کیا جائے گا ۔ اسلام آباد کے متعدد اداروں میں منشیات فروخت ہوتی ہے۔  بچے شیشہ پیتے ہیں والدین نے نوٹس لیا تو  انھیں بچوں کی طرف سے اس بل کے تحت قانونی کاروائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور اسے اپنے گھر سے بیدخل کیا جاسکتا ہے روک ٹوک نہ ہوئی تو  بچوں اور بچیوں کو  انسانوں کی صورت میں جنسی درندوں کے حوالے کرنے کے مترادف ہوگا کئی واقعات ہوچکے ہیں جہاں بگڑے بچے بچیاں  جنسی زیادتی  اور قتل کا نشانہ بنے۔وزیرقانون نے کہا بے بنیاد شکایت نہیں کی جاسکے گی۔بل کو عینک لگا کر نہ دیکھیں مثبت انداز میں دیکھیں ۔عالمی کنونشنز بھی پاکستان نے دستخط کئے ہوئے ہیں ۔سب کمیٹی بنادی جائے جو بعد میں بھی ترامیم کا پیکچ لاسکتی ہے اب اس بل کو سینیٹ کی ترامیم کے ساتھ جوں کا توں منظورکرلیں، ورنہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے رجوع کرنا پڑے گا ، ویسے بھی اسلامی نظریاتی کونسل اس بل  پر تاحال خاموش ہے ۔ بعد میں ترامیم کا وعدہ کرتا ہوں ۔اجلاس میں کمیٹی کی چیئرپرسن نے بل پر  رائے شماری کروائی ،پیپلزپارٹی مسلم لیگ(ن) ایم کیو ایم کی اراکین زیب جعفر، شمس النساء ،کشور زہرہ اور قبائلی رکن محسن داوڑ نے حمایت کی، جب کہ  جے یو آئی کی عالیہ کامران نے اختلافی نوٹ تحریر کیا ہے اور ترامیم قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کروادی ہیں جب کہ کمیٹی میں بل کو کثرت رائے کی بنیاد پر منظورکرلیا گیا ۔ اجلاس میں وزارت انسانی حقوق کے سیکرٹری ا ور پولیس حکام نے اعتراف کیا کہ پنجاب میں خواجہ سراؤں پر ہونے والے حملوں میں آج تک کسی ملزم کو سزانہیں مل سکی ہے، زیادہ ترکیسز میں صلح کرلی جاتی ہے ۔پنجاب میں دوسالوں میں خواجہ سراؤں پر حملوں اور دیگر واقعات کے پچاس کیسز رپورٹ ہوئے ۔کمیٹی نے  چاروں صوبوں میں اس قسم کے واقعات کو مکمل ڈیٹا مانگ لیا ہے ۔ کمیٹی نے افغان مہاجرین کے حقوق کا نوٹس لینے پر وزارت انسانی حققوق کے اعتراض کو مستردکردیا  اور واضح کیا کہ انسانی حقوق کا مسئلہ  ہر وزارت سے متعلق ہے ۔ کمیٹی کو وسیع اختیار حاصل ہے سیکرٹری متعلقہ وزارت سے جواب  لے کر یا اس وزارت کے  نمائندے کے ساتھ اجلاس میں  شرکت کرسکتاہے  اعتراض کے خط کو واپس لیا جائے  آئندہ اس قسم کے خلاف ضابطہ اعتراض کو برداشت نہیں کیا جائے ۔وزرات انسانی حقوق کے سیکرٹری نے کمیٹی سے معذرت کرلی ہے۔