قطر 20 نومبر سے 18 دسمبر تک ٹورنامنٹ کے دوران تقریبا سو دس لاکھ شائقین کی میزبانی کرنے جا رہا ہے غیر ملکی رپورٹ
دوحہ (ویب نیوز)
پاکستان ،فرانس، اردن، ترکی، برطانیہ اور امریکہ سمیت 13 ممالک کی سکیورٹی ایجنسیاں قطر فیفا ورلڈ کپ کے انعقاد میں حکومت قطر کی مدد کریں گی۔ اس مقصد کے لیے پاکستان نے اکتوبر میں ہی 4500 سے زیادہ فوجی قطر بھیج دیے تھے۔ ترکی کے تین ہزار فورسز اہلکاروں کی نفری فیفا ورلڈ کپ کے موقع پر موجودگی کا امکان ہے ۔ مغربی نشریاتی ادارے کے مطابق قطر میں ہونے والے فٹبال ورلڈ کپ کے دوران تقریبا سوا دس لاکھ بیرونی شائقین کی آمد متوقع ہے۔ دوحہ نے حفاظت کی ضمانت کے لیے غیر ملکی مسلح افواج کے ساتھ ہی سکیورٹی کنٹریکٹرز کی امداد بھی حاصل کی ہے۔اسلام آباد نے قطر میں ہونے والے فیفا ورلڈ کپ میں سکیورٹی فراہم کرنے کے مقصد سے اپنے ہزاروں فوجی دوحہ بھیجے ہیں۔ قطر 20 نومبر سے 18 دسمبر تک ٹورنامنٹ کے دوران تقریبا سو دس لاکھ شائقین کی میزبانی کرنے جا رہا ہے۔فرانس، اردن، ترکی، برطانیہ اور امریکہ سمیت 13 ممالک کی پولیس فورس اور سکیورٹی ایجنسیاں ورلڈ کپ کے مقابلوں کو محفوظ رکھنے کے لیے قطر کی مدد کر رہی ہیں۔ لیکن پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے، جس نے اکتوبر میں ہی 4500 سے زیادہ فوجی قطر بھیج دیے تھے۔پاکستان کے ایک سینیئر سکیورٹی اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ، ”تعیناتی قطری حکومت کی خصوصی درخواست پر کی گئی ہے اور دوحہ کے حکام نے قطر کے ساتھ پاکستانی فوج کے تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوئے فوج کی اتنی بڑی تعداد کا مطالبہ کیا تھا۔پاکستان کے بعد ترکی ورلڈ کپ کے لیے سب سے زیادہ غیر ملکی سکیورٹی عملہ تعینات کرنے والا ملک ہے۔ ترک وزیر داخلہ سلیمان سویلو نے ستمبر میں روزنامہ صباح اخبار کو بتایا تھا کہ اس ٹورنامنٹ کے دوران فسادات سے نمٹنے والی خصوصی ترک پولیس کی تقریبا تین ہزار پر مشتمل نفری کے موجود ہونے کا امکان ہے۔ انہوں نے مزید بتایا تھا کہ انقرہ نے مقابلے سے قبل ہی بہت سے قطری سکیورٹی اہلکاروں کو تربیت بھی فراہم کی ہے۔قطر یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر اور ‘اٹلانٹک کونسل’ میں مشرق وسطی کی سیکورٹی کے محقق علی باقر نے بتایا، ”عام طور پر ممالک سیکورٹی کنٹریکٹرز کو مخصوص مشنوں کو انجام دینے میں اپنی مدد کے لیے بھرتی کرتے ہیں۔ در اصل قطر کی آبادی کم ہے اس لیے ان کے لیے یہ عمل مزید اہم اور ضروری ہو گیا ہے۔کسی بھی دیگر عرب ملک کی طرح خلیجی خطے کی ریاست قطر بھی غیر ملکی ملازمین پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، یہاں تک کہ سکیورٹی جیسے اہم کاموں کے لیے بھی اسے غیر ملکی افرادی قوت پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔متحدہ عرب امارات، بحرین، سعودی عرب، عمان، قطر اور کویت پر مشتمل خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک میں تقریبا تین کروڑ غیر ملکی مہاجر مزدر رہتے ہیں۔ یہ تعداد خطے کی تقریبا ایک تہائی آبادی پر مشتمل ہے۔قطر میں تو صورتحال انتہائی خراب ہے، جہاں تقریبا 20 لاکھ تارکین وطن مزدور کام کرتے ہیں جبکہ ملک کے شہریوں کی کل تعداد چار لاکھ کے آس پاس ہے۔ ان مزدروں کے کام کرنے کے حالات اور ان کے حقوق کے حوالے سے بھی کافی آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔سن 2010 میں ورلڈ کپ کی میزبانی کے حقوق جیتنے والا یہ چھوٹا خلیجی ملک گزشتہ 12 سالوں سے اس ٹورنامنٹ کی میزبانی کے لیے درکار رسد کے وسائل حاصل کرنے کے لیے کام کرتا رہا ہے۔سن 2014 میں قطر نے لازمی فوجی سروس متعارف کروائی تھی، جس کے تحت 18 سے 35 سال کے درمیان کے تمام مردوں کو چار ماہ کے لیے مسلح افواج میں خدمات انجام دینا لازمی قرار دیا گیا ہے۔علی باقر کا کہنا تھا،”اس مشن کو حاصل کرنے کے لیے بعض دوست ممالک دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اہل تھے۔” ان کے مطابق پاکستان نے ہمیشہ خلیجی ممالک کو ان کی سیکورٹی ضروریات کے ساتھ ساتھ افرادی قوت فراہم کرنے میں کافی مدد کی ہے۔ مغربی نشریاتی ادارے کے مطابق اسلام آباد نے بھی کئی بار عرب خلیجی ممالک کے لیے اپنے فوجی بھیجے ہیں، جو اہم واقعات اور تنازعات میں اہم کردار بھی ادا کرتے رہے ہیں۔مثال کے طور پر سن 1990 اور1991 کی خلیجی جنگ کے دوران پاکستانی افسران نے کویتی فوج میں اہم تکنیکی اور مشاورتی کردار ادا کیا تھا۔سن 1979 میں بھی پاکستان کی خصوصی افواج نے مکہ کے اندر بدامنی کو ختم کرنے میں سعودی حکومت کی مدد کی تھی، جہاں مسلح فسادیوں نے حکمران خاندان کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی اور اسلام کے مقدس ترین مقام مسجد الحرام پر قبضہ کر لیا تھا۔دوحہ اور اسلام آباد نے سن 2021 سے اپنے تعاون میں کافی اضافہ کیا، جب جی سی سی کی باقی ریاستوں نے 2017 میں قطر پر عائد کی گئی ناکہ بندیوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ پھر جب اگست میں دوحہ نے پاکستان میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی، تب پاکستانی فوج نے اعلان کیا کہ وہ ورلڈ کپ کے ٹورنامنٹ کے دوران قطر کی مدد کے لیے اپنی فوج بھیجے گی۔تاہم، پاکستانی حکام نے عوام کے ساتھ فوج کی تعیناتی کے بارے میں تفصیلات شیئر نہیں کیں۔ اسلام آباد میں فٹ بال کے شوقین اسامہ ملک نے بتایا، ”زیادہ تر پاکستانی عوام کو شاید اس تعیناتی کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے کیونکہ یہ ایسی چیز نہیں ہے جس پر مقامی میڈیا میں بہت زیادہ بات چیت کی گئی ہو۔ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں بھی کچھ معلومات نہیں ہیں کہ آخر اس کے بدلے میں پاکستان کو کیا مل رہا ہے۔ایشیئن فٹ بال کنفیڈریشن (اے ایف سی) کا واحد رکن پاکستان ہی ایسا ملک ہے، جس نے ورلڈ کپ کے لیے کبھی کوالیفائی نہیں کیا۔ لہذا اسامہ ملک ہمیشہ کی طرح اپنی پسندیدہ ٹیم فرانس کو سپورٹ کرتے ہوئے ورلڈ کپ کے گیمز دیکھ رہے ہوں گے۔البتہ اس بار ایک نمایاں فرق یہ ہو گا کہ وہ بیشتر میچ دیکھنے کے قابل ہوں گے، کیونکہ وقت کا فرق صرف ایک گھنٹے کا ہی ہو گا۔ان کا کہنا ہے، ”سردیوں میں ورلڈ کپ کے میچوں کو کمبل اوڑھ کر یا کسی کیفے میں دوستوں کے ساتھ ہاٹ چاکلیٹ پیتے ہوئے دیکھنا کافی دلچسپ ہو گا۔”