قانون کے مطابق تو تحقیقاتی افسران کوپولیس کے دیگر کاموں سے الگ ہونا چاہیے،تحقیقاتی افسران کا الگ کیڈر ہونا چاہیے تاکہ وہ مکمل آزاد ہوں

پولیس افسران کے تبادلے ایم پی اے کے کہنے پر نہیں ہونے چاہئیں، قانون کے مطابق 3 سال سے پہلے سی پی او یا ڈی پی او کو ہٹایا نہیں جا سکتا

کے پی میں بھی قتل و غارت میں اضافہ ،صوبائی حکومت نے نوٹس کے باوجود پولیس تبادلوں کی رپورٹ جمع نہیں کرائی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال

عدالت نے پولیس افسران کے قانون میں درج وقت سے پہلے تبادلوں سے روک دیئے،پنجاب اور کے پی حکومت کو پولیس آرڈر 2002 پر عملدرآمد کا حکم

سپریم کورٹ نے پنجاب، پختونخوا، سندھ اور بلوچستان  پولیس سے 10 سال میں تبدیل کیے گئے افسران کی فہرست طلب کرلی

اسلام آباد (ویب نیوز)

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے پولیس میں تبادلوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ عمران خان حملے کا مقدمہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے درج نہیں ہوا تھا۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پولیس افسران کے سیاسی بنیادوں پر تبادلوں کے خلاف کیس کی سماعت کی، جس میں عدالت نے پولیس افسران کے قانون میں درج وقت سے پہلے تبادلوں سے روکتے ہوئے پنجاب اور کے پی حکومت کو پولیس آرڈر 2002 پر عملدرآمد کا حکم دیدیا۔عدالت نے حکم دیا کہ مقررہ وقت سے پہلے تبادلہ ناگزیر ہو تو وجوہات تحریر کی جائیں۔ کسی بھی افسر کو سینئر پولیس افسر کی مشاورت کے بغیر نہ ہٹایا جائے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ سندھ اور بلوچستان میں بھی کیوں نہ گڈ گورننس کا یہی فارمولا اپنایا جائے؟۔سپریم کورٹ نے پنجاب، پختونخوا، سندھ اور بلوچستان  پولیس سے 10 سال میں تبدیل کیے گئے افسران کی فہرست طلب کرلی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا پنجاب حکومت خود قانون پر عمل کرے گی یا عدالت حکم دے؟۔ صوبائی حکومت سے ہدایات لے کر آگاہ کریں۔ جرائم اور عدم تحفظ کی وجہ سے عوام متاثر ہو رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس افسران کے تبادلے ایم پی اے کے کہنے پر نہیں ہونے چاہئیں۔ قانون کے مطابق 3 سال سے پہلے سی پی او یا ڈی پی او کو ہٹایا نہیں جا سکتا۔ ڈی پی او اور سی پی او تعینات کرنا آئی جی کا اختیار ہے۔ کیا تمام تعیناتیاں آئی جی کرتے ہیں؟۔ قانون کے مطابق افسران کو قبل از وقت ہٹانے پر پابندی نہیں لیکن طریقہ کار پر عمل کیا جائے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اریمارکس دیے کہ تاثر ہے کہ پولیس کو حکومتیں سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ قانون کے مطابق تو تحقیقاتی افسران کوپولیس کے دیگر کاموں سے الگ ہونا چاہیے۔ تحقیقاتی افسران کا الگ کیڈر ہونا چاہیے تاکہ وہ مکمل آزاد ہوں۔ پولیس میں تفتیشی مہارت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ ناقص شواہد پیش کیے جاتے سے جن سے ملزمان کو فائدہ پہنچتا ہے۔ پولیس ملزمان کو فائدہ دے گی تو مظلوم کہاں جائے گا؟۔دوران سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ پولیس افسران کے تبادلے مشاورت ہی سے ہو رہے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سیاسی مداخلت کی وجہ ہی سے عمران خان حملے کا مقدمہ درج نہیں ہو رہا تھا۔ سپریم کورٹ کو اندراج مقدمہ کا حکم دینا پڑا کیونکہ کئی دن گزر چکے تھے۔ پنجاب حکومت خود قانون پر عمل کرے تو عدالتی حکم کی ضرورت نہیں پڑے گی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ کے پی میں بھی قتل و غارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں وکلا کے قتل کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں۔ کے پی حکومت نے نوٹس کے باوجود پولیس تبادلوں کی رپورٹ جمع نہیں کرائی۔ عوام کے متاثر ہونے کی وجہ سے عدالت نے پولیس ٹرانسفر پوسٹنگ کا نوٹس لیا ہے۔ پولیس کی بے ربط ٹرانسفر پوسٹنگ سے سارا نظام متاثر ہوتا ہے۔بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت جنوری کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔