بلے کا نشان: الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، مداخلت نہیں کر سکتے، سپریم کورٹ

اسلام آباد: (ویب  نیوز)

سپریم کورٹ میں بلے کا نشان بحال کرنے کے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، کسی آئینی ادارے کا کام خود نہیں کریں گے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ پیر تک سماعت ملتوی کرنے کیلئے پشاور ہائی کورٹ کا حکم معطل کرنا پڑے گا، ہم تو ہفتے اور اتوار کو بھی سماعت کیلئے تیار ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کیس کی  براہ راست سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ میں شامل تھے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان اور قانونی ٹیم کمرہ عدالت میں موجود ہیں، پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، وکیل حامد خان، وکیل شعیب شاہین، چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی نیاز اللہ نیازی بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں، اس کے علاوہ علی ظفر لاہور رجسٹری سے ویڈیو لنک پر موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پشاور ہائیکورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ گیا ہے؟ جس پر پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے عدالت کو جواب دیا کہ تفصیلی فیصلہ ابھی نہیں آیا۔

بعدازاں مخدوم علی خان نے بلے کا نشان واپس کرنے کا فیصلہ پڑھ کر سنایا، جس کے بعد تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ ہمیں کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیس کی فائل میں نے بھی نہیں پڑھی، انہوں نے حامد خان سے سوال کیا کہ آپ مقدمہ کیلئے کب تیار ہونگے؟ جس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے جواب دیا کہ پیر کو سماعت رکھ لیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کل امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ ہونے ہیں۔ پیر تک سماعت ملتوی کرنے کیلئے ہائیکورٹ کا حکم معطل کرنا پڑے گا: چیف جسٹس

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ پیر تک سماعت ملتوی کرنے کیلئے پشاور ہائی کورٹ کا حکم معطل کرنا پڑے گا، ہم تو ہفتے اور اتوار کو بھی سماعت کیلئے تیار ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ تحریک انصاف کے گزشتہ پارٹی انتخابات 2017 میں ہوئے تھے، پارٹی آئین کے مطابق تحریک انصاف 2022 میں پارٹی انتخابات کرانے کی پابند تھی، الیکشن کمیشن نے پارٹی آئین کے مطابق انتخابات نہ کرانے پر پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کیا۔

جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے آئین میں الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا طریقہ کار کہاں درج ہے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ پہلے جمال انصاری بعد میں نیاز اللہ نیازی پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر بنے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پارٹی آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کے باقی ارکان کون تھے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ چیف الیکشن کمشنر کے علاوہ کوئی اور ممبر تعینات نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے تحریک انصاف کے وکیل حامد خان سے سوال کیا یہ بات درست ہے؟ جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کی یہ بات درست نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن ارکان کی تقرری کی دستاویزات کہاں ہیں؟۔  تحریک انصاف کے وکیل نے جواب دیا کہ کیس کی تیاری کیلئے وقت اسی لئے مانگا تھا، الیکشن کمیشن کی اپیل قابل سماعت اور حق دعویٰ نہ ہونے پر بھی دلائل دوں گا، مناسب ہوگا پہلے حق دعویٰ اور قابل سماعت ہونے کا نکتہ سن لیں۔

‏پی ٹی آئی وکیل حامد خان کا الیکشن کمیشن کی اپیل پر اعتراض .الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کیلئے پی ٹی آئی کے الیکشن کمیشن کی تشکیل قانونی طور پر درست نہیں تھی۔

چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل سے استفسار کیا کہ کیا یہ حقیقت درست ہے؟ جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ یہ بات درست نہیں الیکشن کمیشن کی اپیل قابل سماعت نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اپیل کے قابل سماعت ہونے کا اعتراض ہے تو حامد خان پہلے آپ دلائل دیں۔ ‏پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے الیکشن کمیشن کی اپیل پر اعتراض کر دیا۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہیں کر سکتا، متاثرہ فریق نے اپیل کرنا ہوتی ہے الیکشن کمیشن نے نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن اپنے حکم کا دفاع نہ کرے، تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ کیا کوئی جج بھی اپنے فیصلے ک ے خلاف اپیل دائر کرسکتا ہے؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو ریگولیٹ کرنا اور شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، جس پر حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ کوئی ادارہ اپنے فیصلے کے دفاع میں اپیل نہیں کر سکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کسٹم کلیکٹر بھی اپنے فیصلے کیخلاف ہائی کورٹ میں اپیلیں کرتے ہیں، قابل سماعت ہونے کا سوال تو پھر پی ٹی آئی کی ہائی کورٹ اپیل پر بھی آئے گا، الیکشن کمیشن اپیل نہ کرے تو اس کے فیصلے بے معنی ہوجائیں گے۔

جس پر تحریک انصاف کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ متاثرہ فریق اپیل کر سکتا ہے الیکشن کمیشن نہیں، کیا ڈسٹرکٹ جج خود اپنا فیصلہ کالعدم ہونے کی خلاف اپیل کر سکتا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈسٹرکٹ جج عدلیہ کے ماتحت ہوتا ہے الیکشن کمیشن الگ آئینی ادارہ ہے، کیا الیکشن کمیشن اپنے خلاف فیصلہ آنے پر سرنڈر کر دے؟

وکیل حامد خان نے کہا کہ عدالت نے مسابقتی کمیشن اور وفاقی محتسب کے کیسز میں اداروں کو اپنے فیصلوں کیخلاف اپیلوں سے روکا تھا۔

آپ کی بات مان لی تو یہ آئینی ادارے کو ختم کرنےوالی بات ہوگی: جسٹس فائز عیسیٰ
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آئینی اداروں پر ان فیصلوں کا اطلاق ہو سکتا ہے؟ قانون اور آئین کے تحت قائم ادارے ایک جیسے نہیں ہو سکتے، آئین کے تحت بنا الیکشن کمیشن آئین کے مطابق ہی اختیارات استعمال کرے گا، کوئی ایسا فیصلہ دکھائیں جہاں آئینی اداروں کو اپیلوں سے روکا گیا۔

جس پر تحریک انصاف کے وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کا انحصار آئین نہیں الیکشن ایکٹ پر ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی بات مان لی تو یہ آئینی ادارے کو ختم کرنے والی بات ہوگی۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی آئینی ادارے کا کام خود نہیں کرینگے، الیکشن کمیشن کے وکیل کو کیس کے حقائق سے آگاہ کرنے دیں، انہوں نے سوال کیا کہ پارٹی الیکشن کمیشن کی تقرری کی دستاویز کہاں ہے؟

جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ عدالت باضابطہ نوٹس جاری کرتی تو آج دستاویزات بھی لے آتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی خود ہائی کورٹ گئی تھی انہیں تو اپیل دائر ہونے پر حیران نہیں ہونا چاہیے تھا، الیکشن کمیشن سے کارروائی کا مکمل ریکارڈ منگوا لیتے ہیں۔

جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی آٸی کے پارٹی الیکشن کیخلاف 14 شکایات ملی ہیں

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ درخواستیں کس نے داٸر کیں؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ درخواستیں دینے والے تحریک انصاف کے لوگ تھے۔

اس دوران اکبر ایس بابر کے وکیل روسٹرم پر آ گئے، انہوں نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ ہماری درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ، اکبر ایس بابر فاونڈر ممبر پی ٹی آئی ہے، وہ پارٹی میں مختلف عہدوں پر تعینات رہے۔

کیا آپ نے اکبر ایس بابر کو پارٹی سے نکال دیا؟: چیف جسٹس

جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پھر وہ پی ٹی آئی کے ممبر کیوں نہیں؟ چیف جسٹس نے حامد علی خان سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے اکبر ایس بابر کو پارٹی سے نکال دیا؟

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فاؤنڈر ممبر تو میرے حساب سے کبھی ختم نہیں ہوتا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا انہوں نے کسی اور جماعت میں شمولیت اختیار کی؟

جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ یہ تو ایک اور بحث ہے کہ کون فاؤنڈنگ ممبر ہے کون نہیں، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ حامد خان صاحب کیا آپ تحریک انصاف کے فاؤنڈنگ ممبر نہیں ؟

تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ جی میں پارٹی کا فاؤنڈنگ ممبر ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ابھی سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہے، اجلاس کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع کریں گے، سپریم کورٹ نے سماعت ڈیڑھ بجے تک ملتوی کر دی۔

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آئے، انہوں نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن نے انٹراپارٹی انتخابات کیس میں 64 صفحات پر مشتمل فیصلہ دیا، الیکشن کمیشن کے پولیٹیکل فنانس ونگ نے بھی انٹراپارٹی انتخابات پر سوالات اٹھائے تھے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف کے انتخابات قانون کے مطابق نہیں تھے، پی ٹی آئی کے انتخابات خفیہ اور پیش کی گئی دستاویزات حقائق کے مطابق نہیں تھے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک انصاف نے آئین تو بہت اچھا بنایا ہے، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کیس یہی ہے کہ انتخابات پارٹی آئین کے مطابق نہیں ہوئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سوال پوچھا کہ پی ٹی آئی کا الیکشن کون کون لڑ سکتا ہے؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ پارٹی انتخابات صرف ممبران ہی لڑ سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل کون ہیں؟ جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ پہلے اسد عمر تھے اب عمر ایوب سیکرٹری جنرل ہیں۔

چیف فائز عیسیٰ نے دوبارہ سوال پوچھا کہ کیا اسد عمر نے پی ٹی آئی چھوڑ دی ہے؟ جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسد عمر تحریک انصاف چھوڑ چکے ہیں، اسد عمر سیکرٹری جنرل کیسے بنے الیکشن کمیشن ریکارڈ پر کچھ نہیں ہے۔

چھوٹے سے گمنام گاؤں میں انتخابات کیوں کرائے؟ جسٹس مسرت ہلالی
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کے انتخابات کہاں ہوئے تھے؟ کسی ہوٹل میں ہوئے یا کسی دفتر یا گھر میں؟ جس پر تحریک انصاف کے وکلا نے جواب دیا کہ چمکنی کے گراؤنڈ میں ہوئے تھے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا کوئی نوٹیفکیشن ہے جس میں بتایا گیا ہو کہ پارٹی الیکشن کس جگہ ہوں گے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے سوال پوچھا کہ چھوٹے سے گمنام گاؤں میں انتخابات کیوں کرائے؟

چیف جسٹس نے ایک بار پھر سوال کیا کہ ریکارڈ پر تو کچھ نہیں ہے کہ پشاور میں جس جگہ پارٹی الیکشن ہوا، پارٹی ارکان کو کیسے معلوم ہوا کہ ووٹ ڈالنے کہاں جانا ہے؟ پی ٹی آئی وکلاء جواب نہیں دینا چاہتے تو کیس کو آگے بڑھاتے ہیں، پارٹی ممبران کو تو معلوم ہونا چاہیے کہ ووٹ ڈالنے کہاں جانا ہے۔

ویڈیوز باہر جا کر چلا لیں ہم دستاویزات پر کیس چلاتے ہیں: چیف جسٹس

چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی نیاز اللہ نیازی نے مؤقف اپنایا کہ واٹس ایپ پر لوگوں کو بتایا تھا اور لوگ پہنچے بھی تھے، ویڈیو موجود ہے عدالت میں چلا لیں، جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ویڈیوز باہر جا کر چلا لیں ہم دستاویزات پر کیس چلاتے ہیں۔

عدالت نے نیاز اللہ نیازی کو دلائل دینے سے روک دیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ آپ وکیل نہیں فریق ہیں، حامد خان سینئر وکیل ہیں ان سے اجازت لے کر بات کریں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ 2 دسمبر سے پہلے پی ٹی آئی کے انتخابات کب ہوئے تھے؟

جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی کے گزشتہ انتخابات 8 جون 2022 کو ہوئے تھے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے جون 2022 میں ہونے والے انتخابات کالعدم قرار دیئے تھے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کا یہ حکم چیلنج ہوا تھا؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں فیصلہ چیلنج ہوا تھا جو لارجر بنچ کو ریفر کیا گیا لیکن فیصلہ نہ ہوسکا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق کیس زیرالتواء ہونے کے دوران ہی دوبارہ پارٹی انتخابات ہوگئے تھے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال پوچھا کہ کیا دونوں پارٹی انتخابات میں وہی عہدیداران منتخب ہوئے تھے؟

تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ اس حوالے سے ہدایات اور ریکارڈ لے کر ہی آگاہ کر سکوں گا، الیکشن کمیشن نے 20 دن میں پارٹی الیکشن کرانے کا کہا تھا اس لئے دوبارہ کرائے۔

پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر علی خان نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی کو پارٹی عہدے کیلئے نااہل کرنے کیلئے کیس چلایا، پارٹی انتخابات اور چیئرمین پی ٹی آئی نااہلی کیسز ایک ساتھ چلانے کی درخواست کی تھی۔

جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیس لاہور ہائی کورٹ میں زیر التواء تھا تو پشاور ہائی کورٹ نے کیسے سن لیا؟

بیرسٹر گوہر نے جواب دیا کہ پارٹی انتخابات کی حد تک لاہور ہائیکورٹ والا کیس غیرموثر ہوچکا ہے، انٹراپارٹی انتخابات پشاور میں ہوئے تھے اس لئے پٹیشن بھی وہیں کئے گئے۔

من پسند عدالتوں سے رجوع کرنے سے سسٹم خراب ہوتا ہے: چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بیرسٹر گوہر سے سوال کیا کہ آپ کس حیثیت میں دلائل دے رہے ہیں؟ جس پر بیرسٹر گوہر نے جواب دیا کہ ’میں عدالت کی معاونت کر رہا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان سینئر وکیل ہیں انہیں بات کرنے دیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن آپ کو نشان نہیں دینا چاہتا، لیکن اگر آپ کا بنتا ہے تو ہم چاہتے ہیں کہ آپ کو انتخابی نشان ملے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی کو لاہور ہائی کورٹ کیوں پسند نہیں آئی؟ جس پر تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے کہا کہ پشاور کے علاوہ کہیں بھی سکیورٹی نہیں مل رہی تھی۔

جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ سکیورٹی کیلئے عدالت سے رجوع کیا جا سکتا تھا، من پسند عدالتوں سے رجوع کرنے سے سسٹم خراب ہوتا ہے، جس پر تحریک انصاف کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا مقدمہ عدالت میں زیر التواء ہے، ہر طرف گرفتاریوں کی وجہ سے پشاور میں سکیورٹی ملنے پر وہاں انتخابات کرائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کا ایک کیس لاہور دوسرا پشاور میں کیسے چل سکتا ہے، کیا پشاور ہائی کورٹ میں دائرہ اختیار کا نکتہ اٹھایا تھا؟

جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ میں دائرہ اختیار سمیت دو ہائی کورٹس والا نکتہ بھی اٹھایا تھا۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ پی ٹی آئی کی ایک درخواست خارج کر چکی ہے، عدالت میں مقدمہ زیرالتواء ہونے کی وجہ سے لاہور ہائی کورٹ نے درخواست خارج کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پھر تو لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ رکاوٹ نہیں بنے گا، کیا لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کا فیصلہ پی ٹی آئی نے چیلنج کیا؟

مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ لاہور ہائیکورٹ میں انٹراکورٹ اپیل دائر کی گئی تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق تو انٹراکورٹ اپیل واپس لے لی گئی تھی۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ جن درخواستوں کا ذکر ہو رہا ہے وہ امیدواروں نے اپنے طور پر دائر کی تھیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ درخواست گزار عمر آفتاب صدر پی ٹی آئی شیخوپورہ ہیں۔

کیا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ پی ٹی آئی نے چیلنج کیا ہے؟ جسٹس فائز عیسیٰ

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ درخواست میں کی گئی استدعا پارٹی کی جانب سے تھی، پشاور اور لاہور ہائی کورٹ میں تضاد تو آ گیا ہے، کیا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ پی ٹی آئی نے چیلنج کیا ہے؟

وکیل حامد خان نے کہا کہ پی ٹی آئی بطور جماعت فریق ہی نہیں تھی تو چیلنج کیسے کرتی؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کا فیصلہ ہو، دوسری ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ کا تو فوقیت کسے ملے گی؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ڈویژن بنچ کے فیصلے کو فوقیت دی جائے گی۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز الیکشن کمیشن نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، اپیل میں مؤقف اپنایا گیا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون کے خلاف ہے۔

واضح رہے کہ پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیخلاف فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ تحریک انصاف کو بلے کاانتخابی نشان جاری کیا جائے۔

پی ٹی آئی نے پارٹی الیکشن درست ثابت کر دیئے تو ریلیف، ورنہ نتائج بھگتنا ہونگے: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر پی ٹی آئی نے ثابت کر دیا کہ ان کے پارٹی الیکشن درست ہیں تو ریلیف دینا لازم ہے، الیکشن کمیشن کو بھی انہیں انتخابی نشان دینا لازم ہوگا، اگر پی ٹی آئی ثابت کرنے میں ناکام رہی تو پھر انہیں نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔