لاہور ہائی کورٹ ، وزیر اعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف حکم امتناع میں آج (جمعرات)تک توسیع

  وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس 24گھنٹے 186اراکین کی حمایت ہونی چاہیے ،لاہورہائیکورٹ

 گورنر ، وزیر اعلیٰ کو اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتے ہیں ، اراکین اسمبلی نے ہی فیصلہ کرنا ہے کہ کون وزیر اعلیٰ رہ سکتا ہے،جسٹس عابد عزیز شیخ

درخواست سرے سے ہی قابل سماعت  نہیں ہے، عدالت اسے ناقابل سماعت قراردے کر مستردکرے،اٹارنی جنرل

 یہ تحریری طور پر کچھ نہیں لائے،بیرسٹرعلی ظفر

وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے سے توکسی نے نہیں روکا، تحریر کی کیاضرورت ہے،اٹارنی جنرل

 سیاسی کشیدگی جاری ہے ، اتفاق رائے سے عدم اعتما د کے ووٹ کی ہدایت کی تھی لیکن اس پر عمل نہیں ہوا،جسٹس عاصم حفیظ

گزشتہ سماعت سے آج تک کافی وقت گزر گیا لیکن اعتماد کا ووٹ نہیں لیا گیا،یہ انکی بدنیتی ظاہر کو کرتا ہے،وکیل گورنر پنجاب

ہم اعتماد کا ووٹ لینے کی بجائے قانون کے مطابق فیصلہ چاہتے ہیں،بیرسٹرعلی ظفر

 ہم تواس معاملہ پر متفقہ فیصلہ کر چکے تھے کہ آپ اعتماد کا ووٹ لے لیں تو بات ختم لیکن آپ یہ آفر قبول نہیں کررہے،جسٹس عابد عزیز شیخ

لاہور ( ویب  نیوز)

لاہور ہائی کورٹ نے گورنر پنجاب کی جانب سے اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر وزیر اعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف حکم امتناع میں آج (جمعرات)تک توسیع کردی۔عدالت نے قراردیا ہے کہ اسمبلی تحلیل نہ کرنے کا حکم اگلی سماعت تک قائم رہے گا۔ عدالت دوبارہ آج (جمعرات)کے روز صبح9بجے کیس کی سماعت کرے گی۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عاصم حفیظ نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس 24گھنٹے 186اراکین کی سپورٹ ہونی چاہیے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ ان کے پاس اکثریت نہ ہو اور وہ ایوان چلائیں ۔جبکہ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا ہے کہ گورنر ، وزیر اعلیٰ کو اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتے ہیں ، اراکین اسمبلی نے ہی فیصلہ کرنا ہے کہ کون وزیر اعلیٰ رہ سکتا ہے۔ اگر وزیر اعلیٰ پنجاب اعتماد کا ووٹ لیں تو گورنر پنجاب اپنا نوٹیفکیشن واپس لینے کو تیار ہیں۔ اسمبلی کو خود ہی طے کرنا ہے کہ وزیر اعلیٰ کو اعتماد حاصل ہے کہ نہیں۔ عدالتی فیصلے کو گزرے 20دن ہو گئے ابھی تک اعتمادکے ووٹ کیوں نہیں سوچا جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالہیٰ کے وکیل سینیٹر بیرسٹر سیدعلی ظفر نے گورنر پنجاب انجینئر میاں محمد بلیغ الرحمان کے وکیل کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کی پیشکش مسترد کرتے ہوئے عدالت سے معاملہ کا میرٹ پر فیصلہ کرنے کی استدعا کی ہے ۔ اس پر عدالت نے بیرسٹر علی ظفر کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے دلائل دیں، ہم درخواست کا میرٹ پر فیصلہ کردیتے ہیں۔گورنر پنجاب کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کواعتماد کا ووٹ نہ لینے پر ڈی نوٹیفائی کرنے کے حوالہ سے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں جسٹس چوہدری محمد اقبال، جسٹس طارق سلیم شیخ، جسٹس مزمل اخترشبیر اور جسٹس عاصم حفیظ پرمشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان، (ن)لیگ کے اراکین پنجاب رانا مشہود احمد خان، خلیل طاہر سندھ اوردیگر (ن)لیگی رہنما بھی عدالت میںموجود تھے۔جبکہ اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان ایڈووکیٹ اورایڈووکیٹ جنرل آف پنجاب احمد اویس ایڈووکیٹ کے علاوہ گورنر پنجاب کے وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس عابدعزیز شیخ کا کہنا تھا کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر کیس کو سنیں گے۔جبکہ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان ایڈوکیٹ نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کر دیا۔اٹانی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ درخواست سرے سے ہی قابل سماعت  نہیں ہے، عدالت اسے ناقابل سماعت قراردے کر مستردکرے۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ گورنر کو کوئی فیصلہ کرتے ہوے وجوہات دینا ضروری نہیں ۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ گورنر کے کہنے پر وزیر اعلیٰ کا اعتماد کا ووٹ لینا ضروری ہے، یہ گورنرکا اختیار ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کو اعتماد کاووٹ لینے کا کہیں۔ اس پر بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ یہ تحریری طور پر کچھ نہیں لائے۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے سے توکسی نے نہیں روکا، تحریر کی کیاضرورت ہے۔ جسٹس عاصم حفیظ کا کہنا تھا کہ سیاسی کشیدگی جاری ہے ،ہم نے اتفاق رائے سے عدم اعتما د کے ووٹ کی ہدایت کی تھی لیکن اس پر عمل نہیں ہوا،آئین پاکستان کے تحت اعتماد کے ووٹ کے لئے کم ازکم تین روز ضروری ہیں۔ بیرسٹر سید علی ظفر کا کہنا تھا کہ کل سے اپنے دلائل کا آغاز کر دوں گا ۔اس پر عدالت نے قراردیا کہ کل سے نہیں ابھی دلائل شروع کریں۔ گورنر پنجاب کے وکیل کا دوران سماعت کہنا تھا کہ گزشتہ سماعت سے آج تک کافی وقت گزر گیا ہے لیکن اعتماد کا ووٹ نہیں لیا گیا،یہ انکی بدنیتی ظاہر کو کرتا ہے،عدالت نے اعتماد کا ووٹ لینے کا وقت مقرر فرما دے۔ جسٹس عاصم حفیظ کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کو یہ لائن کراس کرنا پڑے گی ۔جسٹس عابد عزیز شیخ کا کہنا تھا کہ گورنر کے وکیل نے آفر دی ہے کہ اعتماد کا ووٹ لیں ۔عدالت نے پرویز الٰہی کے وکیل سے استفسار یا کہ آپ بتائیں اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے کتنے دن کا وقت آپ کے لئے مناسب ہوگا ۔جسٹس عابد عزیز شیخ کا کہناتھا کہ گورنرپنجاب کے وکیل نے کیا آفر دی تھی۔اس پر گورنر پنجاب کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہم نے آفر دی تھی کہ دو سے تین دنوں میں اعتماد کا ووٹ لیںمگر انہوں نے ہماری آفر نظر انداز کردی۔وکلاء کے دلائل سننے کے بعد جسٹس عابد عزیز شیخ کا کہنا تھا کہ کہ اگر اتفاق رائے نہیں ہے توہم کیس کا فیصلہ میرٹ پر کریں گے۔ بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ہم اعتماد کا ووٹ لینے کی بجائے قانون کے مطابق فیصلہ چاہتے ہیں۔بیرسٹر علی ظفرکا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ گورنر پنجاب نے غیر آئینی طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کیا اس درخواست پر پہلے فیصلہ ہو جائے۔ جسٹس عابد عزیز شیخ کا کہنا تھا کہ ہم تواس معاملہ پر متفقہ فیصلہ کر چکے تھے کہ آپ اعتماد کا ووٹ لے لیں تو بات ختم لیکن آپ یہ آفر قبول نہیں کررہے توپھر ہم اس درخواست کا میرٹ پر فیصلہ کریںگے۔ عدالت کا کہناتھا کہ اگر آج بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کے وکیل گورنر کی جانب سے دی گئی آفر کو قبول کرتے ہیں تو پھر ہم مناسب وقت کا تعین کرلیتے ہیں  جس کے بعد گورنر پنجاب کے حکم پر وزیر اعلیٰ پنجاب اعتماد کا ووٹ لے۔بیرسٹر علی ظفر کی جانب سے کیس کا فیصلہ میرٹ پر کرنے کی استدعا کے بعد عدالتی حکم پر بیرسٹر علی ظفر نے میرٹ پر دلائل کاآغاز کردیا۔ بیرسٹر سید علی ظفر کا کہنا تھا کہ گورنر نے اعتماد کے ووٹ کیلیے مناسب وجوہات نہیں دیں،اگر اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے آئینی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے تو ہمیں اعتماد ک ووٹ لینے میں کوئی عار نہیں تھی ،اگر چھانگا مانگا کی صورتحال بنانی ہے تو پھر اس پر ہمیں اعتراض ہے۔بیرسٹر علی ظفرکا کہنا تھا کہ پارلیمانی جمہوریت میں پارلیمانی پارٹی اپنے قائد کی ہدایات پر عمل کرتی ہے، لیکن جب وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہواتھا تواس وقت دپٹی اسپیکر نے پارٹی سربراہ کی ہدایات پر انحصار کرتے ہوئے فیصلہ کیا تھااور پاکستان مسلم لیگ (ق)کے10ووٹ مسترد کردیئے گئے تھے۔لاہور ہائی کورٹ نے گورنر پنجاب کی جانب سے اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر وزیر اعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف حکم امتناع میں آج (جمعرات)تک توسیع کردی۔عدالت نے قراردیا ہے کہ اسمبلی تحلیل نہ کرنے کا حکم اگلی سماعت تک قائم رہے گا۔ عدالت دوبارہ آج (جمعرات)کے روز صبح9بجے کیس کی سماعت کرے گی اور بیرسٹرعلی ظفر دلائل جاری رکھیں گے ۔  ZS

#/S