فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر ڈیوٹی مجسٹریٹ اسلام آباد نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا
میری باتیں غلط کوٹ کی گئی،موبائل قبضے میں لیا ، میں سینئر پارلیمنٹیرین ہوں، دہشت گرد نہیں،مقدمہ خارج کیا جائے، فواد چوہدری کی استدعا
اسلام آباد( ویب نیوز)
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے پی ٹی آئی رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا، ڈیوٹی مجسٹریٹ نوید خان نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔ اسلام آباد کی ایف ایٹ کچہری میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کی پیشی کیلئے کمرہ عدالت تبدیل کردیا گیا۔ رش ہونے اورجگہ تنگ ہونے کے باعث کمرہ عدالت تبدیل کیا گیا۔ مجسٹریٹ نوید خان کا کہنا تھاکہ کورٹ روم دوسرے فلورپر ہے، مشکلات ہوں گی، شبیر بھٹی کی عدالت گرائونڈ فلور پر ہے آسانی ہو گی۔ بعدازاں ڈیوٹی مجسٹریٹ نئے کمرہ عدالت پہنچے اور کہا کہ کسی طرح فواد چوہدری کو کمرہ عدالت میں آنے دیں۔ وکیل فیصل چوہدری نے غیرمتعلقہ افرادکوکمرہ عدالت سے باہرجانے کی درخواست کی اور کہا کہ فواد چوہدری کدھرہیں؟ گاڑی کدھر ہے؟ ہم انہیں لے آتے ہیں۔ مجسٹریٹ نے ریمارکس دیے کہ کمرہ عدالت میں جگہ بنے گی تو فواد چوہری کو لے آئیں گے،کم لوگ ہوں گے کورٹ میں تو انہیں لے آئیں گے۔ ڈیوٹی مجسٹریٹ عدالت سے اٹھ کر اپنے چیمبر میں واپس چلے گئے۔ بعدازں سماعت شروع ہونے پر فواد چوہدری کو کمرہ عدالت میں ہتھکڑی لگاکر پیش کیا گیا جس پر پی ٹی آئی کے وکلا نے ان کی ہتھکڑی کھولنے کی استدعا کی۔ دوران سماعت تفتیشی افسر نے فواد چوہدری کے 8 دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ فواد چوہدری نے کہا الیکشن کمیشن کی حالت اس وقت منشی کی ہے۔ اس پر فواد چوہدری نے لقمہ دیا کہ تو الیکشن کمیشن کی حالت منشی کی ہوئی ہے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کرانے کے تمام اختیارات ہیں، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت الیکشن کمیشن کوٹارگٹ کیا جا رہاہے، فواد چوہدری کی تقریر کا مقصد سب کواکسانا تھا، انہوں نے کہا الیکشن کمیشن والوں کے گھروں تک پہنچیں گے، تقریر کا مقصد الیکشن کمیشن کے خلاف نفرت کو فروغ دینا تھا۔ وکیل الیکشن کمیشن کے مطابق فواد چوہدری کے خلاف کافی الیکٹرانک مواد موجود ہے، میں الزامات پڑھ رہا تھاتو وہ ان شااللہ، ماشااللہ کہہ رہے تھے، انہوں نے جو تقریرمیں کہا وہ انہوں نے مانابھی ہے، کیا فواد چوہدری سے متعلق فیصلہ کرنا درست نہیں؟ ان کی تقریر کے پیچھے لوگوں کا پتا کرنا ہے، ان کی تقریر کے پیچھے مہم چل رہی ہے، فواد چوہدری سے ان کے بیان پر پولیس کو ابھی تفتیش کرنی ہے۔ فواد چوہدری نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ مقدمے میں بغاوت کی دفعہ بھی لگا دی گئی ہے، میرے خلاف تو مقدمہ بنتاہی نہیں ہے، ایسے تو جمہوریت ختم ہو جائے گی، کوئی تنقید نہیں کر پائے گا، اگر الیکشن کمیشن پرتنقید نہیں کرسکتے تو مطلب کسی پر تنقید نہیں کرسکتے، مدعی وکیل کا مطلب ہے کہ تنقید کرنا بغاوت ہے، میں تقریر کر ہی نہیں رہا تھا، میں میڈیا ٹاک کررہا تھا، میری باتیں غلط کوٹ کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں تحریک انصاف کا ترجمان ہوں، جو میں بات کروں وہ میری پارٹی کی پالیسی ہوتی ہے، ضروری نہیں کہ جو میں بات کروں وہ میرا ذاتی خیال ہو، الیکشن کمیشن نہ ملک کی اسٹیٹ ہے نہ حکومت ہے، میں نے کہاتھا نفرتیں نہ پھیلائیں کہ لوگ ذاتی سطح پر آجائیں، مجھے لاہور پولیس نے گرفتار کیا، میرا موبائل قبضے میں لیا پھر لاہورپولیس نے مجھے اسلام آباد پولیس کے حوالے کیا۔ ان کا کہنا تھاکہ میں سینئر وکیل، پارلیمنٹیرین اور سابق وفاقی وزیر ہوں، میں دہشت گرد نہیں کہ مجھے سی ٹی ڈی میں رکھاگیا، تفتیشی افسر نے مجھ سے کوئی تفتیش نہیں کی، میری گرفتاری غیرقانونی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افسوس ہے ملکی سیاست میں مخالفین پر کیس بنائے جارہے ہیں، ہم سیاست میں کبھی اوپر تو کبھی نیچے ہوتے ہیں۔ فواد چودھری کی طرف ایڈووکیٹ سید علی بخاری نے بھی وکالت نامہ جمع کراتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کو لاہور سے گرفتار کیا گیا، مقدمہ اسلام آباد میں درج کیا گیا، درخواست گزار بھی اسلام آباد میں تھا، فواد چودھری کو لاہور سے گرفتار کرنے کا تسلیم کیا گیا، اگر مدعی مقدمہ کی بات مان لی جائے تو مقدمہ تو لاہور میں ہونا چاہیے تھا، قانون کے مطابق مقدمہ وہاں ہوتا ہے جہاں جرم کیا جاتا ہے، ایسا نہیں کہ قتل لاہور میں تو مقدمہ کراچی میں کیا جا رہا ہو۔وکیل علی بخاری نے مزید کہا پولیس نے گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں تفتیش کی کیا ہے؟ دہشتگردی کا کیس ہے نہیں، پراسیکیوشن نے آخر کرنا کیا ہے، عدالت ضرور دیکھے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں تفتیش ہوئی کیا ہے، کیا اسلام آباد پولیس نے اسلام آباد انتظامیہ سے اجازت لی؟ بس بندہ اٹھا کر لے آئے۔فواد چودھری کے تیسرے وکیل قصیر امام نے اپنے دلائل میں کہا کہ بطور صدر اسلام آباد بار نہیں بلکہ ان کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہو رہا ہوں، پراسیکیوشن نے استدعا کی ہے ملزم کے گھروں کی تلاشی لینا ہے، پراسیکیوشن نے یہ بھی استدعا کی کہ ملزم کا وائس میچنگ ٹیسٹ بھی کرانا ہے، الیکشن کمیشن کے کسی ممبر نے یہ بیان نہیں دیا کہ انہوں نے خود محسوس کیا ہو، سیکرٹری الیکشن کمیشن بغیر کسی بیان کی موجودگی کے تفتیشی ایجنسی کو تفصیل فراہم کر دی۔ فواد چوہدری نے عدالت سے کیس برخاست کرنے کی استدعا کی۔جبکہ تفتیشی افسر نے ملزم کے 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔