جوڈیشل کمپلیکس توڑ پھوڑ کیس ، پرویزالٰہی کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد ،14روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا

 پراسیکیوٹر راجہ نوید نے پرویز الٰہی کے مزید 10 روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کر دی

س سے قبل پرویز الٰہی کا 2 روز کا جسمانی ریمانڈ ڈیوٹی جج نے دیا تھا،وکیل صفائی سردار عبدالرزاق

 پرویز الٰہی کے جسمانی ریمانڈ کی دستاویزات جمع کروا دیں،جج  ابوالحسنات ذوالقرنین کی ہدایت

پرویز الٰہی کے خلاف سیاسی کیس بنایا گیا، اسے ڈسچارج کیا جائے ،وکیل صفائی

 ایک دانے جتنا بھی دہشت گردی کا ثبوت پرویز الٰہی کے خلاف نہیں، کس بنیاد پر جسمانی ریمانڈ چاہیے؟ ،وکیل بابراعوان

وکلا نے پرویز الٰہی کی درخواستِ ضمانت بھی دائر کر دی جس پر عدالت نے فریقین کو 11 ستمبر کے لیے نوٹس جاری کر دیئے

اسلام آباد (ویب  نیوز)

انسدادِ دہشت گردی کی عدالت اسلام آباد نے جوڈیشل کمپلیکس توڑ پھوڑ کیس کی سماعت کے دوران پراسیکیوشن کی سابق وزیرِ اعلی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے 14 روز کے جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف جوڈیشل کمپلیکس حملہ کیس کی سماعت جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کی۔اے ٹی سی جج ابوالحسنات ذوالقرنین رخصت کے بعد  واپس آئے ہیں، اس موقع پر پرویز الہی کے وکیل علی بخاری نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کے آنے سے پھر سے رونق لگ گئی، آپ کی طبیعت کیسی ہے؟۔جج ابوالحسنات نے جواب دیا کہ طبیعت بہت بہتر ہے، آپ تشریف رکھیں۔سماعت کے دوران پراسیکیوٹر راجہ نوید نے پرویز الٰہی کے مزید 10 روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کر دی۔وکیلِ صفائی سردار عبدالرازق نے کہا کہ اس سے قبل پرویز الٰہی کا 2 روز کا جسمانی ریمانڈ ڈیوٹی جج نے دیا تھا۔جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ہدایت کی کہ پرویز الٰہی کے جسمانی ریمانڈ کی دستاویزات جمع کروا دیں۔وکیلِ صفائی سردار عبدالرازق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پرویز الٰہی  کا نام جوڈیشل کمپلیکس توڑ پھوڑ کیس میں 2 روز قبل نامزد ہوا ہے،ان کے خلاف متعدد سیاسی کیسز بنائے گئے ہیں، پرویز الٰہی کو لاہور سے اغوا کر کے اسلام آباد لایا گیا اور گرفتار کیا گیا، پرویز الٰہی اپریل 2023 میں پی ٹی آئی کا حصہ بنے، وہ پہلے پی ٹی آئی کا حصہ نہیں تھے، جوڈیشل کمپلیکس توڑ پھوڑ کیس کا مقدمہ مارچ میں درج ہوا، ہائی کورٹ نے کہا کہ پرویز الٰہی کے خلاف سیاسی کیس بنایا گیا، اسے ڈسچارج کیا جائے، مگر پرویز الٰہی کو ڈسچارج کرنے کی بجائے انہیں گوجرانوالہ میں درج مقدمے میں نامزد کر دیا گیا، گوجرانوالہ کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے بھی کہا کہ کیس کچھ نہیں، انہیں ڈسچارج کیا جاتا ہے، نیب نے بھی پرویز الٰہی کو اڈیالہ جیل سے گرفتار کیا، لاہور ہائی کورٹ نے اس بات کو سمجھا کہ پرویز الٰہی کے بنیادی حقوق کو پامال کیا جا رہا، عدالتی فیصلے نہ مانے جائیں تو عدالت کا اختیار ہے کہ فیصلوں کے تحفظ کے لئے ڈائریکشن دے، عدالتی فیصلہ نہ ماننے پر ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ کوئی ادارہ پرویز الٰہی کو گرفتار نہ کرے، ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ڈی آئی جی آپریشنز لاہور پرویز الٰہی کو رہائش گاہ پر پہنچائیں مگر اسلام آباد پولیس نے گاڑی سے اغوا کر کے پرویز الٰہی کو گرفتار کیا، اسلام آباد پولیس کے پاس کوئی وارنٹ نہیں تھا، بعد میں ڈپٹی کمشنر کا فیصلہ نکالا گیا، لاہور ہائی کورٹ نے ڈی سی اور آئی جی اسلام آباد کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کیا، کچھ ثبوت ہو تو جسمانی ریمانڈ مانگیں، 6 ماہ بعد پرویز الٰہی کو مقدمے میں نامزد کیا گیا۔وکیلِ صفائی سردار عبدالرازق نے پرویز الٰہی کو کیس سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کر دی اور کہا کہ پرویز الٰہی اپنے سیاسی نظریے پر قائم ہیں، تبدیل نہیں کر رہے، جوڈیشل کمپلیکس توڑ پھوڑ کیس میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر و دیگر کی ضمانت کنفرم ہو چکی ہے۔وکیلِ صفائی بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں کسی عام نہیں بلکہ ذہین جج کے سامنے کھڑا ہوں، مارچ سے آج کی تاریخ تک پرویز الٰہی کے خلاف کیا ثبوت ہے؟ پرویز الٰہی نے کیا کر دیا؟ کس ثبوت کی بنیاد پر انہیں دہشت گرد بنایا گیا؟ ایک دانے جتنا بھی دہشت گردی کا ثبوت پرویز الٰہی کے خلاف نہیں، ثبوت دکھائیں؟ کس بنیاد پر جسمانی ریمانڈ چاہیے؟ کیس میں نامزد ملزمان کو ڈسچارج نہیں کیا، جو نامزد نہیں ان کو ڈسچارج کیا گیا۔وکیلِ صفائی بابر اعوان نے بھی پرویز الٰہی کو کیس سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل کمپلیکس توڑ پھوڑ کیس میں ڈسچارج ملزمان کا فیصلہ اعلی عدلیہ میں چیلنج نہیں کیا گیا، پراسیکیوشن صرف پولیس ریکارڈ پر چلتی ہے، شکر ہے انگریز ایسا قانون بنا کر چلا گیا ورنہ ہم معلوم نہیں کیا کر دیتے، تقریبا 20 افراد کو جیل لے کر گئے اور ان سے بیان لیا، پرویز الٰہی مشہور شخصیت ہیں، ایسے آدمی نہیں جن کو کوئی جانتا نہ ہو۔اس موقع پر جج ابوالحسنات نے شعر پڑھا کہ

قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے … ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب یا لاہور ہائی کورٹ کے معاملات اسلام آباد پولیس کے ساتھ جوڑنا ٹھیک نہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر پرویز الٰہی  پر کوئی مقدمہ ہوا تو دیکھا جا سکتا ہے، پرویز الٰہی پر مالی سپورٹ اور معاونت کرنے کا الزام ہے، پرویز الٰہی کے خلاف مدعی کے باقاعدہ بیان پر مبنی ثبوت موجود ہے۔جج ابوالحسنات نے تفتیشی افسر سے سوال کیا کہ 2 دن میں پرویز الٰہی سے کیا تفتیش کی؟۔تفتیشی افسر نے کہا کہ پرویز الٰہی کا فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ کروانا ہے۔جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے پرویز الٰہی کے مزید 10 روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کر دی اور انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔وکیل بابر اعوان نے استدعا کی کہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیجنے کا بھی تحریر کر دیں۔جس پر جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پرویز الٰہی کو 14 روز کے جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیجا جاتا ہے۔وکیل بابر اعوان نے جج ابوالحسنات سے کہا کہ آپ ہر کیس میں بے لوث دکھائی دیتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے پرویز الٰہی سے جیل میں فیملی کی ملاقات کرانے اور کھانا دینے کی درخواست دائر کر دی۔جج ابوالحسنات نے کہا کہ پرویز الٰہی کی فیملی سے ملاقات کرائیں، پرویز الٰہی صاحب سامنے آئیں۔پرویز الٰہی نے کہا کہ بہت مہربانی، بہت شکریہ، پنجاب کی کوئی جیل رہ نہیں گئی جہاں مجھے بھیجا نہ گیا ہو، مجھے دل میں اسٹنٹ بھی لگے ہوئے ہیں، وزیرِ اعلیٰ پنجاب میرا رشتے دار ہے لیکن میرے سخت خلاف ہے۔جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بھی ڈرو۔وکلا نے پرویز الٰہی کی درخواستِ ضمانت بھی دائر کر دی جس پر عدالت نے فریقین کو 11 ستمبر کے لیے نوٹس جاری کر دیئے۔

#/S