• ترقی محض نیت سے نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے قربانیاں دینا پڑتی ہیں، کوئٹہ میں سپریم کورٹ رجسٹری کی عمارت کی افتتاحی تقریب سے خطاب

کوئٹہ(ویب نیوز)

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطابندیال نے کہا ہے کہ آج کل ہم ملک کے جو حالات دیکھ رہے ہیں بہت ضروری ہے کہ ہم قربانی کے جذبہ کے ساتھ آگے چلیں، سب اکٹھے ہو کر چلیں، ہمارے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جواختلافات ہیں ان کو دور کریں، یہ وقت ایسا ہے کہ یہ سلسلہ آگے بڑھے اور ہم یقین دلاتے ہیں کہ ہم انشاء اللہ تعالیٰ، آئین کے مطابق جو قانون میں وضع ہے اس کے مطابق فیصلے کریں گے ، ابھی تک ہم نے جو بھی فیصلے کئے ہیں خواہ وہ متنازعہ ہیں یا مقبول ہیں ، اس میں ہم نے آئین کے نفاذ کی کوشش کی ہے۔ان خیالات کااظہار چیف جسٹس آف پاکستان نے کوئٹہ میں سپریم کورٹ رجسٹری کی عمارت کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ اپنے وکلاء بھائیوں کو مل کر بڑی خوشی ہوتی ہے کیونکہ میری برادری آپ کے ساتھ ہے، میرے بھائی جو یہاں پر عدلیہ میں ہیں اوربار میں ان میں بہت صلاحیت ہے لیکن مجھے افسوس ہوتا ہے کہ یہاں پر اتنی ترقی نہیں ہوئی جتنا اس خطہ کا حق بنتا ہے، اوراس میں محض ریاست کو ذمہ دار قرارنہیں دے سکتے، اس میں ہم سب کا ایک حصہ ہے جو ہمیں ڈالنا چاہیے تاکہ ہم اس معاشرے میں امن اورسکون لائیں، ترقی کے تمام امور جن میں تعلیم، محنت، سچائی ، دیانتداری ہے یہ سب مل کر ترقی کا راستہ بنتا ہے۔ میں نے یہ بات سب سے پہلے اس لئے کردی کہ جب سے میں آیا ہوں میرے دل میں یہی خیال ہے کہ کیوں اس صوبے میں ترقی نہیں ہورہی، اتنے اچھے لوگ ہیں، اتنے وسائل ہیں، وکلاء خود جانتے ہیں یہ کیا مسئلہ ہے، ان وسائل کے باوجودکیا مسائل ہیں کہ ہم نے ترقی نہیں کی۔ ہم عدلیہ میں بیٹھ کر جس چیز کا عزم رکھتے ہیں وہ یہ یہاں قانون کی بالادستی ہو، جو حقوق آئین اورقانون نے دیئے ہیں ان کا نفاذ ہو، اس کے لئے ہم ہمیشہ کے لئے حاضر ہیں۔ انہوںنے کہا کہ آج سے پہلے یہاں سے دوراسلام آباد میں تھے کبھی کبھارآتے تھے ، اب 30سال بعد ہمیں یہاں اپنا گھر دے دیا ہے اب ہم یہاں آکر کام کریں گے ، عمارتوں کی نہیں فیصلوں کی اہمیت ہوتی ہے۔ قوموں کی تقدیرعدالتی فیصلوں سے نہیں قیادت سے بدلتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ اختلافات کو دور کریں، امن و امان کے قیام سے ترقی کا راستہ بنتا ہے۔انہوںنے کہا کہ وکلاء نے تعاون کرناہے اور وہ مسائل سامنے لانے ہیں جن کے ذریعے بطور عدالت ہم فیصلے کرسکیں ۔ سارے لوگ جن کا دخل ہے خواہ وہ ریاست ہے، کاروباری طبقہ ہے، خواہ وہ ٹیکس دہندگان ہیں ہم ان سب کو بتاسکیں کہ یہ راستہ ہے قانون کا یہ راستہ ہے ترقی اورخوشحالی کا۔ ترقی محض نیت سے نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک چیز جس کوآئین بہت زوردیتا ہے وہ ریاست کی ہستی اور ریاست کا وجود ہے جو ماں کی طرح ہے، ریاست نے اپنے شہریوں کی خدمت کرنی ہے، حفاظت کرنی اور دھیان رکھنا ہے، اس کے لئے اداروں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اداروں کو محفوظ کرنا اوران کو تقویت دیناآئین کی بہت بڑی ترجیح ہے۔ ہمارا بطور عدالت یہ فرض ہے کہ آئین کی ان تمام دفعات کا نفاذ کرتے ہوئے قومی اداروں کا تحفظ کریں، اس میں سویلین ادارے بھی ہیں اوردوسرے ادارے بھی ہیںلیکن بڑی بات یہ ہے کہ ہم سب کا ایک فرض ہے کہ ہم نے عوام الناس کی خدمت کرنی ہے ، آپ کے تمام بنیادی حقوق ریاست سے متعلق ہیں، آپ کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا عدالت کاکام ہے اوراس کے اورپر نفاذ ریاست کاکام ہے، لیکن اس سارے نفاذ اورسارے سلسلہ میں جو ضروری بات ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے، ایک دوسرے کے ساتھ ہمارا تعاون ہو، ایک دوسرے کا لحاظ ہو، ادب ہو، قانون کا لحاظ ہو، عدالت کا احترام ہو، جس ڈسپلن کے ساتھ وکلاء آتے ہیں عوام الناس کو بھی یہ دیکھنا چاہیئے کہ کیا انداز ہے جس میں آپ عدالت میں جاتے ہیں۔  انہوںنے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کو محفوظ رکھا ہے لیکن ہمیں بڑی تکلیف ہوتی ہے جب لوگ ضلعی عدلیہ میں جاکر بدتمیزی کرتے ہیں، یہ قابل قبول نہیں۔ وکلاء نے عوام الناس کو جاکر بتانا ہے کہ کیا طریقہ ہے اگر قانو ن اورعدالت کااحترام نہیں ہو گا تومکمل غیر یقینی کی صورتحال ہو گی ،میں نے اپنے دل کی باتیں کہہ دیں کیونکہ یہ اس وقت میرے دل میں سب سے اوپر کی سطح پر ہیں۔ا نہوںنے کہاکہ رول آف لاء اچھے اورترقی پذیر معاشروں کی ایک نشانی ہے اوریہ ہمارے اسلامی معاشرے کی بہت بڑی نشانی ہے ، رول آف لائ، وکلاء اس سلسلہ میں مثبت کردار اداکریں اور وہ لوگ جو رول آف لاء کے خلاف جارہے ہیں ان کو آپ منع کریں، امر بالمعروف ونہی عن المنکر ،سمجھ لیں کہ یہ معروف عمل ہے اس کو پروان چڑھائیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت وکیلوں کو جج بنا دیا گیا جو کہ خوشی کی بات ہے، 8 اگست 2016 ایک بہت بڑا سانحہ تھا،8 اگست کو وکلا نے بہت بڑی قربانی دی تھی، وکلا کی قربانیوں پر ہمیں ناز ہے۔