اقلیتوں پر ریاستی سرپرستی میں ہونے والے مظالم اور تشدد نے نریندر مودی کے ہندوستان کو ٹکڑے ٹکڑے ہونیکی دہلیز تک پہنچادیا ،امریکی ادارے کی رپورٹ
اسلام آباد(ویب نیوز)اقلیتوں پر ریاستی سرپرستی میں ہونے والے ظلم و ستم اور تشدد نے نریندر مودی کے آج کے ہندوستان کو ٹکڑے ٹکڑے ہونیکی دہلیز تک پہنچادیا ہے۔بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم اور تشدد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جسے حکمران جماعت بی جے پی کے رہنماں کی طرف سے اکسایا جارہا ہے، امتیازی قانون سازی کی گئی اور ہندوستانی عدلیہ نے بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔اس بات کا اظہار امریکہ میں قائم کیٹو انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو ڈوگ بینڈو نے ایک مضمون میں کیا گیا ہے ۔مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ 2019 میں مودی کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد سے،بھارتی حکومت نے متنازعہ پالیسیوں کو آگے بڑھایا جو واضح طور پر مسلمانوں کے حقوق کو نظر انداز کرتی ہیں۔ ان پالیسیوں کا مقصد ان لاکھوں مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنا ہے جو ملک کی سب سے بڑی اقلیتی آبادی ہیں ۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دور میں مذہبی ظلم و ستم میں ڈرامائی طور پر تیزی آئی ہے۔ یہ سب کچھ ہندو بالادستی کو فروغ دینے والی نیم فوجی ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا کیا دھرا ہے۔ڈوگ بینڈو نے مزید کہا ہے کہ حقیقت میں بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑے پیمانے پر بے دریغ تشدد جاری ہے جسے اکثر ریاست کی حوصلہ افزائی پشت پناہی حاصل ہے۔ سب سے زیادہ آبادی والی اقلیت مسلمانوں کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ عیسائی، ایک چھوٹا اور زیادہ کمزور گروہ ہے، اس کے ساتھ بھی وحشیانہ طور پر برا سلوک کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مودی نے مذہبی منافرت پر مبنی پالیسیاں جاری کر کے سیاسی کامیابی حاصل کی اور ہندو قوم پرستی کو ہوا دے کر ہندوستانی سیاست پر اپنے کنٹرول کو مضبوط کیا۔اپنی تازہ ترین سالانہ رپورٹ میں، یونائیٹڈ سٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم (یو ایس سی آئی آر ایف) نے بھارت میں مذہبی آزادی میں نمایاں کمی دیکھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی حکومت نے اپنی پالیسیوں کی ترویج اور نفاذ میں اضافہ کیا ۔ ہندو قوم پرست ایجنڈے کو فروغ دینے والی پالیسیاں مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، دلتوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔حکومت نے ملک کی مذہبی اقلیتوں کے خلاف موجودہ اور نئے قوانین اور تبدیلیوں کے ذریعے قومی اور ریاستی دونوں سطحوں پر ہندو ریاست کے اپنے نظریاتی وژن کو منظم کرنا جاری رکھا ہوا ہے ۔ انسانی رائٹس واچ کے ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا میناکشی گنگولی نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ سال، ہندوستانی حکام نے مودی کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے والے کارکن گروپوں اور میڈیا کے خلاف اپنے کریک ڈان کو تیز اور وسیع کیا،ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیر قیادت حکومت نے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو دبانے کے لیے بدسلوکی اور امتیازی پالیسیوں کا استعمال کیا۔غیر ہندوں کے خلاف تبدیلی مذہب کے خلاف قوانین کے مسلسل نفاذ سمیت حکومتی کارروائی نے ملک گیر مہموں کے لیے استثنی کا کلچر پیدا کیا ہے، بشمول مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف جن پر ہندوئوں کو مذہب کی تبدیلی کی طرف راغب کیئے جانے کی سرگرمیوں کا الزام ہے۔ پچھلے سال کے آخر تک، صرف ریاست اتر پردیش میں 50 سے زیادہ پادریوں کو تبدیلی مذہب مخالف قوانین کے تحت قید کیا گیا تھا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2021 میں، چھتیس گڑھ میں اقلیتوں پر 75 پرتشدد حملے ہوئے۔گائے کی حفاظت کی آڑ میں ملک بھر میں پرتشدد حملے کیے جا رہے ہیں۔ بنیاد پرست ہندو ، جو اکثر سوشل میڈیا پر منظم ہوتے ہیں، نے گائے کا گوشت کھانے، گائے کو ذبح کرنے، یا مویشیوں کو ذبح کرنے کے لیے لے جانے کے شبے میں مذہبی اقلیتوں پر حملہ کیا جن میں مسلمان، عیسائی اور دلت شامل ہیں۔ 2022 ورلڈ فریڈم پریس انڈیکس کے مطابق، آزادی صحافت کے معاملے میں ہندوستان 180 ممالک میں سے صرف 150 ویں نمبر پر ہے۔وہاں مذہبی ظلم و ستم کی رپورٹنگ انتہائی خطرناک ہوچکی ہے۔ہریانہ، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، کیرالہ اور گجرات میں کچھ ہندو گروپوں کی طرف سے مسلمانوں کے کاروبار کے معاشی بائیکاٹ کی عوامی کالیں کی گئیں۔نفرت انگیز جرائم بشمول دلتوں اور نچلی ذات والوں کے خلاف تشدد کا ارتکاب معافی کے ساتھ کیا گیا۔ 2021 میں درج فہرست ذاتوں کے افراد کے خلاف 50,000 سے زیادہ مشتبہ جرائم اور نچلی ذات والے لوگوں کے خلاف 9,000 سے زیادہ جرائم رپورٹ ہوئے