سینیٹ قائمہ کمیٹی تجارت کا اجلاس،کاپی رائٹ ترمیمی بل 2023 کے علاوہ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے برآمدات کو فروغ دینے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات دیگر امور کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا
وفاقی وزرا پارلیمانی کمیٹیوں کو اہمیت دیں، متعلقہ وزیر اپنی شرکت یقینی بنائیں ورنہ اس معاملے کو چیئرمین سینیٹ کے سامنے اٹھائیں گے،چیرمین کمیٹی
چیرمین کمیٹی کی ملک کی ایکسپورٹ کے حوالے سے رپورٹ تیار کر کے آئندہ اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت
اسلام آباد( ویب نیوز)
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر ذیشان خانزادہ کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر فیصل جاوید کے کاپی رائٹ ترمیمی بل 2023 کے علاوہ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے برآمدات کو فروغ دینے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات، ملکی و بین الاقوامی سطح پر منعقد کیے گئے صنعتی نمائشوں، مختلف ممالک میں تعینات ٹریڈ آفیسرز کی کارکردگی اور تعیناتی سے متعلق دیگر امور کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ ادارے کی جانب سے ورکنگ پیپرز آج صبح فراہم کیے گئے ہیں بغیر سٹڈی کیے کس طرح سوال و جواب کر سکتے ہیں۔ قائمہ کمیٹی کو قانون کے مطابق وقت پر ورکنگ پیپر فراہم کیے جائیں۔انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر تجارت بھی کمیٹی اجلاس میں شرکت نہیں کرتے گزشتہ اجلاس میں واضح درخواست کی تھی کہ متعلقہ وزیر اپنی شرکت یقینی بنائیں ورنہ کمیٹی اجلاس میں احتجاجا واک آوٹ کیا جائے گا انہوں نے کمیٹی سے علامتی طور پر واک آوٹ بھی کیا۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر ذیشان خانزادہ نے کہا کہ وفاقی وزرا پارلیمانی کمیٹیوں کو اہمیت دیں اور متعلقہ وزیر اپنی شرکت یقینی بنائیں ورنہ اس معاملے کو چیئرمین سینیٹ کے سامنے اٹھائیں گے۔ قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر ذیشان خانزادہ نے کہا کہ کمیٹی کا مقصد ملک کے اندر تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے ایسی سفارشات مرتب کرنا ہے جو مجموعی معاشی و اقتصادی صورتحال پر مثبت اثرات مرتب کریں اور ملکی و بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے حصول کے لئے تمام ادارے اپنی توانائیوں کو بروئے کار لائیں اور معاشی سرگرمیوں میں اضافے کیلئے موثر حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ملک میں ایکسپورٹ کی موجود ہ مقدار اور استعداد کیا ہے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر فیصل جاوید کے ایجنڈے کے حوالے سے سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ پاکستان کے فنکار غریب ہیں انکو اپنے فن کی رائلٹی ملنا چاہیے۔سرکاری ٹی وی پی ٹی وی بھی فنکاروں کو انکی رائلٹی فراہم نہیں کر رہا۔حقوق دانش کے ادارے آئی پی او پاکستان کو اس سلسلے میں کافی کام کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ آئی پی او کی ٹیم نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ پاکستان کے لیجنڈ جب بیمار ہوتے ہیں تو ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ان کو ان کے فن کی رائلٹی ملنی چاہیے۔ پی ٹی وی پر پرانے ڈرامے تو چل رہے ہوتے ہیں مگر ان فنکاروں کو رائلٹی نہیں ملتی۔ 1980 کی دہائی میں رائلٹی دی جاتی تھی۔ فنکاروں کو ان کے حقوق کی آگاہی فراہم کرنی چاہیے۔ چیئرمین آئی پی او نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ فنکاروں کے تحفظ کیلئے قانون بنایا جا رہا ہے۔اس قانون پر مختلف شراکت داروں سے رائے طلب کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد ایسا بل تیار کرنا ہے جس سے ملک کے فنکاروں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو سکے۔قائمہ کمیٹی کو ڈرافٹ بل تیار کر کے جلد فراہم کر دیا جائے گا اور سینیٹر فیصل جاوید سے شیئر بھی کیا جائے گا اور انہیں بریف بھی کیا جائے گا۔ جس پر چیئرمین کمیٹی ذیشان خانزاہ نے ہدایت کی کہ ملک کے فنکاروں کو ان کے حق کی فراہمی کے لئے بل کو زیادہ سے زیادہ سے موثر اور جلد سے جلد ڈرافٹ کر کے کمیٹی کو فراہم کیاجائے تاکہ کمیٹی اس کا تفصیل جائزہ لے کر فیصلہ کرے چیف ایگزیکٹو ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی زبیر موتی والا نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ پہلے برآمدات صرف امریکہ اور یورپ میں بڑھانے پر زور تھا۔اب ٹی ڈیپ پالیسیوں میں نمایاں تبدیلیاں عمل میں لائی گئی ہیں اور پاکستان کی پروڈکشن کی پروموشن پر بہت زیادہ فوکس کیا گیا ہے۔ پاکستان کی برآمدات کو افریقہ میں بڑھانے کیلئے کوشاں ہیں۔ٹی ڈیپ کا مقصد برآمدات بڑھانے ہے۔نمائشوں میں 50 فیصد بڑی صنعتوں، 30 فیصد چھوٹی صنعتوں اور 10 فیصد ایکسپورٹرز کو ترجیح دی جاتی ہے۔ سیکرٹری وزارت تجارت نے کمیٹی کو تبایا کہ ٹی ڈیپ کی بورڈ ممبران صرف مخصوص شعبوں کے برآمد کنندگان ہی بن سکتے ہیں۔ایکسپورٹ بڑھانے کے لئے بھر پور اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ جرمنی کے لئے پرائیوٹ سیکٹر کے ایکسپورٹرز کو ہم نے سپورٹ کیا تھا اورایک ایکسپورٹر کو ویزہ نہیں مل سکا تھا۔دوبئی میں ایک شاندار نمائش کا انعقاد کیا گیاجس میں ہمارے ایکسپورٹرز کو اعزازی خطوط لکھے گئے۔صدر کینیڈا پاکستان چیمبر بشری رحمان نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ اس سال اگست میں شمالی امریکہ میں پاکستان کی سنگل کنٹری نمائش منعقد کی جا رہی ہے۔اس نمائش میں 57 پاکستانی کمپنیاں شرکت کریں گی۔ میں نے خود پاکستان کا پانچ مرتبہ دورہ کیا اور مختلف 12 شہروں کے چیمبرز اور متعلقہ انتظامیہ کے لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ نمائش کیلئے وزارت تجارت اور ٹی ڈیپ کی
طرف سے زیادہ تعاون کی ضرورت ہے۔پاکستان میں آئی ٹی انڈسٹری کے فروغ کیلئے وسیع مواقعے موجود ہیں۔آئی ایم ایف سے نکلنے کیلئے ضروری ہے کہ برآمدات کو بڑھایا جائے اس سے ملک کے بے شمار مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ٹی ڈیپ برآمد کنندگان کو ٹریول سبسڈی فراہم کر دے تو کافی کمپنیاں شرکت کر سکیں گی۔وزارت تجارت ان کاروباری افراد کو ویزہ حاصل کرنے میں مدد کرے۔ نمائش پرساڑھے چار لاکھ کینیڈین ڈالر خرچ ہوگا اگر کسی بھی قسم کی سبسڈی مل جائے تو بہت فائدہ ہوگا۔ ٹریڈ کونسلرز کا شمالی امریکہ میں کام کرنا کافی مشکل ہے کیونکہ مارکیٹ کو سمجھانا ہوتا ہے جو آسان نہیں ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر ذیشان خانزادہ نے کہا کہ نمائش کی کامیابی کے لئے قانون کے مطابق بھر پو رمدد کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایک فوکل پرسن تعینات کیا جائے جو کینیڈین سفارتخانے کے ساتھ ان کے معاملات کو ڈیل کرے۔ جس پر سیکرٹری وزارت نے کہا کہ جہاں تک ممکن ہو گا پالیسی کے تحت مدد کریں گے۔ پالیسی اور فنڈنگ کے حوالے سے کچھ ایشوز ہیں۔ متعلقہ سفیر اور کونسلر سے ان کی میٹنگ کا انتظام کرائیں گے اور پالیسی کے مطابق ان کی مدد بھی کی جائے گی۔ زبیر موتی والا نے کہا کہ ویزا ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے۔اسی وجہ سے جرمنی میں ہونے والی نمائش میں ایک پاکستانی ایکسپورٹر شرکت نہیں کر سکا۔اس معاملے کو سوشل میڈیا پر اچھالا گیا حالانکہ یہ حقیقت نہیں تھی۔صرف ایک ایکسپورٹر ویزا نہ ملنے کے باعث نہ جا سکا۔ٹی ڈیپ ایکسپورٹرز کی مدد کرتا ہے اور کرے گا۔ڈالرز کے باعث بھی ٹی ڈیپ مسائل کا شکار ہے۔ ملک سے آم کی برآمدات بڑھانے کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔کوشش کر رہے ہیں کہ کجھور میں ویلیو ایڈیشن کر کے برآمد کی جائے۔پاکستان سے کجھور کی برآمدات کو کئی گنا بڑھایا جا سکتا ہے۔پنک نمک کی برآمد کو بھی بڑھا رہے ہیں۔جس پر سیکرٹری وزارت تجارت نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے کجھور کی فصل بہت متاثر ہوئی ہے ملک سے سالانہ تین لاکھ ٹن کجھور ایکسپورٹ ہوتی تھی مگر اس سال اس کا پانچ فیصد بھی نہیں ہو سکی۔انہوں نے کہا کہ یورپی یونین میں بھارت کو باسمتی کی خصوصی مارکیٹ نہیں ملی۔آسٹریلیا نے بھی بھارت کی درخواست مسترد کر دی ہے جبکہ امریکہ میں ابھی قانونی کاروائی جاری ہے۔پاکستانی چاول کو برانڈ کر کے برآمد کیا جا رہا ہے۔اس وقت پاکستانی باسمتی چاول کی یورپ کو برآمد بھارت سے زیادہ ہے۔ پاکستانی برانڈ بہت اچھے ہیں اوران کی بیرون ممالک مانگ بڑھ رہی ہے اور کئی ممالک میں پاکستانی ایکسپورٹ آئٹم نے انڈیا کو مات دے دی ہے۔چیف ایگزیکٹو ٹی ڈیپ نے کمیٹی کو بتایا کہ سندھڑی آم، کینو، پنک نمک کو جی آئی کے تحت رجسٹرڈ کر لیا گیا ہے۔پاکستان کی سی فوڈ پروڈکٹس کی برآمدات کو بڑھانے کیلئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ٹی ڈیپ افریقہ اور وسطی ایشیا میں برآمدات بڑھانے کیلئے کوشش کر رہی ہے۔ٹی ڈیپ میں 26 گھنٹے یومیہ کی ڈیوٹی دینا پڑ رہی ہے۔حلال فوڈ مارکیٹ کیلئے کام کر رہے ہیں۔پاکستان میں اس وقت کاروباری لاگت بہت بڑھ گئی ہے اس کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔موجودہ برآمدات میں ویلیو ایڈیشن کیلئے اقدامات ناگزیرہیں۔ انہوں نے کہا کہ تھر کوئلہ سے بجلی پیداوار شروع کروانے میں نے کلیدی کردار ادا کیا۔حکومتی ادارے صرف نجی شعبے کی مدد کریں برآمدات بڑھ جائیں گی۔سبزیوں پھل آئی ٹی سی فوڈ اور افرادی قوت کی برآمدات سے ملک کو قلیل مدت میں بحران سے نکلا جا سکتاہے۔ لاہور میں ایک ایکسپو کا انعقاد کیا گیا جس میں افریقی ممالک سمیت 19 ممالک کی کمپنیوں نے شرکت کی۔ ہم بلیو اکانومی کی طرف جا رہے ہیں۔ سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ ملک میں فشری سیکٹر میں 450 ملین ڈالر کی ایکسپورٹ کی استعداد موجود ہے۔ہماری مچھلیاں اسمگلنگ ہو رہی ہیں۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر ذیشان خانزادہ نے کہا کہ ملک کی ترقی اور موجودہ معاشی حالات کی بہتری کے لئے ہماری پالیسیوں میں تسلسل ناگریز ہے۔ پہلی بار بزنس کمیونٹی کے لوگوں کی اس طرح کے اداروں میں شمولیت خوش آئندہ ہے اس سے نمایاں بہتری دیکھنے میں آئے گی۔ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے اور زراعت میں بے پناہ پوٹینشل ہے۔ قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا جائے کہ زرعی شعبے میں ہماری ایکسپورٹ کیا ہیں اور ہماری استعداد کیا ہیں۔ مشرقی و سطی ممالک ہماری زرعی ایشیا میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔قائمہ کمیٹی کو مختلف ممالک میں ایکسپورٹ بڑھانے کے حوالے سے بھی آگاہ کیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ہماری ویب سائٹ پر ایکسپورٹ سے متعلقہ تمام معلومات موجود ہیں۔قائمہ کمیٹی نے ان کی تشہیر کرنے پر زور دیا۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ ٹی ڈیپ میں ہر پروڈکٹ کا ایک پروڈکٹ آفسیر موجود ہے جو اس پیدا وار کے حوالے سے معلومات سمیت تمام امور کو دیکھتے ہیں۔ ڈیجیٹل گیلری بھی بنائی گئی۔ریسرچ پبلیکیشن پر بھی کام کیا گیا ہے۔ ملک میں 16 ہزار ایکسپورٹرز کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ ایس آر او ز کو آسان زبان میں ایکسپورٹرز کی آسانی کے لئے ویب سائٹ موجود ہے۔ مارکیٹ رسائی پر بھی موثر انداز میں کام کیا جارہا ہے۔ ایکسپورٹ کی تعداد بڑھانے کیلئے ضلعی سطح تک کا م کر رہے ہیں۔ مقامی انتظامیہ کو بھی اس حوالے سے معلومات فراہم کر رہے ہیں تاکہ ان کی کپیسٹی کو بڑھایا جا سکے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ گزشتہ چار سالوں کے دوران 197 بین الاقوامی ٹریڈ فیئرز اور 10 مقامی ٹریڈ فیئرز کا انعقادکیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے ٹریڈ فیئرز میں دونوں ایوانوں کی کمیٹیوں کے ممبران کو دعوت دینے کی ہدایت کر دی تاکہ ایکسپورٹ کے حوالے سے معاملات میں ان کو بھی آگاہی حاصل ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی ایکسپورٹ کے حوالے سے استعداد ہماری موجودہ صورتحال اور مختلف ممالک کے ساتھ موازنہ رپورٹ تیار کر کے آئندہ اجلاس میں کمیٹی کو فراہم کی جائے۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر ز دنیش کمار، محمد عبدالقادر اور فیصل جاوید کے علاوہ وزارت تجارت اور متعلقہ محکموں کے اعلی حکام نے شرکت کی۔
#/S