- سپریم کورٹ پروسیجر بل ، فل کورٹ بنانے،جسٹس مظاہر کو بینچ سے الگ کرنے کی استدعا مسترد، پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب
- عدالتی اصلاحات بل قانون کا حصہ بن چکا ہے،وکیل پی ٹی آئی طارق رحیم
- گزشتہ حکمنامہ عبوری نوعیت کا تھا، جمہوریت آئین کے اہم خدوخال میں سے ہے، چیف جسٹس
- آزاد عدلیہ اور وفاق بھی آئین کے اہم خدوخال میں سے ہیں، دیکھنا ہے کہ عدلیہ کا جزو تبدیل ہوسکتا ہے؟
- عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے یہ مقدمہ منفرد نوعیت کا ہے،چیف جسٹس عمرعطا بندیال کے ریمارکس
- وکیل پاکستان بار کونسل کی جسٹس مظاہر نقوی کو بنچ سے الگ کرنے کی استدعا
- اگر اس مقدمے میں فل کورٹ تشکیل دیا جائے، بنچ میں 7 سینئر ترین ججز شامل ہوں تو کوئی اعتراض نہیں کرسکے گا،حسن رضا پاشا
- 7 سینئر ججز اور فل کورٹ بنانا چیف جسٹس کا اختیار ہے،چیف جسٹس کے ریمارکس
- اکثر ججز کے خلاف شکایات آ تی رہتی ہیں، سیاسی معاملات نے عدالت کا ماحول آلودہ کردیا ،چیف جسٹس عمرعطا بندیال
- چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کی حکم امتناع واپس لینے اور فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا فی الوقت مسترد کردی
- پہلے سمجھا تو دیں کے قانون کیا ہے اور کیوں بنا؟چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے استفسار
- عدالت بنچ بڑھانے پر غور کرے:اٹارنی جنرل، بنچ کی تعداد کم بھی کی جا سکتی ہے:چیف جسٹس
- عدالت نے فریقین سے تحریری جواب اور قائمہ کمیٹی میں ہونے والی بحث کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا ،سماعت 8مئی تک ملتوی
اسلام آباد (ویب نیوز)
عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پرسماعت کیلئے فل کورٹ بنانے اور جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ سے علیحدہ کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میںجسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اظہر حسن رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل 8 رکنی لارجر بنچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیخلاف مختلف تین آئینی درخواستوں پر سماعت کی، بنچ میں ۔مسلم لیگ (ن)کی جانب سے بیرسٹر صلاح الدین اور پیپلز پارٹی نے فاروق ایچ نائیک کو وکیل مقرر کیا ہے جبکہ پاکستان بار کونسل کی جانب سے حسن رضا پاشا عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر پاکستان تحریک انصاف کے وکیل طارق رحیم نے کہا کہ عدالتی اصلاحات بل قانون کا حصہ بن چکا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ گزشتہ حکمنامہ عبوری نوعیت کا تھا، جمہوریت آئین کے اہم خدوخال میں سے ہے، آزاد عدلیہ اور وفاق بھی آئین کے اہم خدوخال میں سے ہیں، دیکھنا ہے کہ عدلیہ کا جزو تبدیل ہوسکتا ہے؟۔انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدلیہ کہ آزادی بنیادی حق ہے، عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے یہ مقدمہ منفرد نوعیت کا ہے، مقدمے پر فریقین کے سنجیدہ بحث کی توقع ہے، لارجر بنچ کو بہترین معاونت فراہم کرنی ہو گی، پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا قانون ہے، ریاست کے تیسرے ستون کے بارے میں یہ قانون ہے۔دوران سماعت سپریم کورٹ نے تمام فریقین سے تحریری جواب اور سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر بل پر پارلیمانی کارووائی کا ریکارڈ طلب کر لیا، علاوہ ازیں قائمہ کمیٹی میں ہونے والی بحث کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا گیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ قانون سازی کے اختیار سے متعلق وفاقی فہرست کی کچھ حدود و قیود بھی ہیں، فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے سیکشن 55 کا بھی جائزہ لیں، یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی کہ آزاد عدلیہ آئین کا بنیادی جزو ہے، الزام ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئین کے بنیادی جزو کی قانون سازی کے ذریعے خلاف ورزی کی گئی۔دریں اثنا سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں اور وکلا تنظیموں سے 8 مئی تک جواب طلب کرلیا، دوران سماعت پاکستان بار کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو بنچ سے الگ کرنے کی استدعا کردی۔حسن رضا پاشا نے پاکستان بار کونسل کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بار نے ہمیشہ آئین اور عدلیہ کیلئے لڑائی لڑی ہے، مناسب ہو گا اگر اس مقدمے میں فل کورٹ تشکیل دیا جائے، بنچ میں 7 سینئر ترین ججز شامل ہوں تو کوئی اعتراض نہیں کرسکے گا، بنچ کے ایک رکن کے خلاف 6 ریفرنس دائر کئے ہوئے ہیں۔س پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 7 سینئر ججز اور فل کورٹ بنانا چیف جسٹس کا اختیار ہے، افتخار چوہدری کیس میں عدالت میں قرار دیا ریفرنس صرف صدر مملکت دائر کرسکتے ہیں، کسی جج کے خلاف ریفرنس اس کو کام کرنے سے نہیں روک سکتا، سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے آنے تک جج کو کام کرنے سے نہیں روکا جاسکتا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بھی عدالت نے یہی فیصلہ دیا تھا۔انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ شکایات ججز کے خلاف آتی رہتی ہیں، مجھ سمیت سپریم کورٹ کے اکثر ججز کے خلاف شکایات تی رہتی ہیں، سیاسی معاملات نے عدالت کا ماحول آلودہ کردیا ہے، سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں، انتخابات کے مقدمے میں بھی کچھ ججز کو نکال کر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا، سپریم کورٹ کے ججز کا فیصلہ عدالت کا فیصلہ ہوتا ہے، ہر ادارہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کا پابند ہے۔حسن رضا پاشا کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پاشا صاحب آپ نفیس آدمی ہیں، اپنے اردگرد سے معلوم کرائیں آپ کے لوگ کس کو فل کورٹ کہتے ہیں۔حسن رضا پاشا نے کہا کہ وکلا کے تحفظات سے عدالت کو آگاہ کیا ہے، تاہم چیف جسٹس نے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا فی الوقت مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ بار نے ادارے کا تحفظ کرنا ہے، ججز نے آنا ہے اور چلے جانا ہے۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کی جانب سے حکم امنتاع واپس لینے کی استدعا بھی مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پہلے سمجھا تو دیں کے قانون کیا ہے اور کیوں بنا؟۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت بنچ بڑھانے پر غور کرے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بنچ کی تعداد کم بھی کی جا سکتی ہے۔ بعدازاں سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت (پیر) 8 مئی تک ملتوی کردی۔