عوامی نیشنل پارٹی کے تحت آل پارٹیز کانفرنس نے عدلیہ سے آئینی دائرہ اختیار میں رہنے کا مطالبہ کردیا

عدلیہ خود کو آئین کی تشریح تک محدود رکھے، ایک دن انتخابات ہونے چاہیئے، مشترکہ اعلامیہ

تمام سیاسی جماعتیں باہمی مذاکرات کے ذریعے انتخابات کی تاریخ کا تعین کریں، سیاسی فیصلوں کی جگہ سیاسی جماعتیں اور پارلیمان ہے

عدالت کا کام آئین کی تشریح ہے، قانون سازی و آئین سازی پارلیمان کا اختیار ہے

خیبرپختونخوا میں نافذ  ایکشن ان ایڈ آف سول پاور جیسا مارشل لاء  قانون کو فوری منسوخ کیا جائے

  دہشت گردوں کی آباد کاری اور جیلوں سے رہائی کی وجہ سے دہشت گردی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا، اے پی سی

متفقہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ کرنے ذمہ داروں کا محاسبہ کیا جائے

عوام نے ماضی کے تمام فوجی آپریشنوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے، آپریشنوں کے ذمہ داران کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے

عوام کی تائید و حمایت سے دہشت گردوں کے خلاف ٹارگیٹڈ اور موثر کارروائی کی جائے..اے پی سی کا مشترکہ اعلامیہ جاری کردی گیا

اسلام آباد (ویب  نیوز)

عوامی نیشنل پارٹی کے تحت آل پارٹیز کانفرنس نے مطالبہ کیا ہے کہ عدلیہ آئینی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے خود کو آئین کی تشریح تک محدود رکھے ،ایک دن انتخابات کا مطالبہ کردیا، تمام سیاسی جماعتیں باہمی مذاکرات کے ذریعے انتخابات کی تاریخ کا تعین کریں، سیاسی فیصلوں کی جگہ سیاسی جماعتیں اور پارلیمان ہے،عدالت کا کام آئین کی تشریح ہے، قانون سازی و آئین سازی پارلیمان کا اختیار ہے، اے پی سی کے مطابق دہشت گردوں کی آباد کاری اور جیلوں سے رہائی کی وجہ سے دہشت گردی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا، متفقہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ کرنے  ذمہ داروں کا محاسبہ کیا جائے،عوام نے ماضی کے تمام فوجی آپریشنوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے، آپریشنوں کے ذمہ داران کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، عوام کی تائید و حمایت سے دہشت گردوں کے خلاف ٹارگیٹڈ اور موثر کارروائی کی جائے۔ اے پی سی کا مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا۔  اے پی سی بدھ کو پارٹی رہنما امیر حیدر ہوتی کی صدارت میں ہوئی ۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ سیاسی، عدالتی اور اقتصادی بحران نے غیر یقینی صورتحال پیدا کردی ہے۔ سیاست اگر ختم ہوگی تو آئینی اور پارلیمانی بالادستی کو خطرات لاحق ہونگے۔پارلیمانی بالادستی کو ہر صورت میں یقینی بنایا جائے۔ سیاسی فیصلوں کی جگہ سیاسی جماعتیں اور پارلیمان ہے۔ سیاسی فیصلے عدالتوں میں لے جائے جائیں گے تو عدالتی بحران جنم لے گا۔ جسکا ہم آج مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اعلامیہ میں واضح کیا گیا ہے کہ عدالت کا کام آئین کی تشریح ہے، قانون سازی و آئین سازی پارلیمان کا اختیار ہے۔ انتخابات کی تاریخ پر اختلاف کو حل کرنے کیلئے تمام آئینی ، قانونی اور سیاسی پہلووں کو مد نظر رکھنا ہوگا۔انتخابات جب بھی ہوں، وہ ایک ہی دن ہوں، تب ہی انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں باہمی مذاکرات کے ذریعے انتخابات کی تاریخ کا تعین کریں۔  اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پورے ملک میں منصفانہ مردم شماری کا انعقاد ممکن بنایا جائے۔ مردم شماری کے حوالے سے پورے ملک باالخصوص پختونخوا کے نئے اضلاع، بلوچستان کے کوئٹہ اور دیگر پشتون علاقوں اور سندھ کے کراچی اور دیگر شہری علاقوں میں حالیہ مردم شماری پر تحفظات کو دور کیا جائے اور نئی منصفانہ حلقہ بندیوں کو یقینی بنایا جائے۔ کل جماعتی کانفرنس نے کہا ہے کہ   پختونخوا اور ملک کے دوسرے حصوں میں دہشت گردی کی نئی لہر نے انتہائی خطرناک شکل اختیار کر لی ہے۔ ماضی میں اسٹیبلیشمنٹ اور حکمرانوں کے غلط فیصلوں اور پالیسیوں کی وجہ سے دہشت گردی شروع ہوئی اور ایک متفقہ نیشنل ایکشن پلان بنا۔ لیکن بدقستمی سے اسکو عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔ غیر آئینی مذاکرات ، دہشت گردوں کی آباد کاری، بتھوں کی صورت میں انکی فنڈنگ اور جیلوں سے رہائی کی وجہ سے دہشت گردی کی ایک نئی لہرے جنم لیا۔ دہشت گردی کے حوالے سے جو متفقہ نیشنل ایکشن پلان بنا تھا اس پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا ؟ اسکے ذمہ داروں کا محاسبہ کیا جائے ۔عوام نے ماضی کے تمام فوجی آپریشنوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے کیونکہ ان آپریشنوں کی وجہ سے دہشت گردوں کی بجائے عوام کو شدید جانی و مالی نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔ عوام دشمن آپریشنوں کے ذمہ داران کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ سول آرمڈ فورسز  پولیس، لیویز وغیرہ  کو جدید خطوط پر منظم و مسلح کرکے عوام کی تائید و حمایت سے دہشت گردوں کے خلاف ٹارگیٹڈ اور موثر کارروائی کی جائے۔ خیبرپختونخوا میں نافذ  ایکشن ان ایڈ آف سول پاور جیسے عوام دشمن اور مارشل لائی  قانون کا فوری خاتمہ کیا جائے۔ عدالتی بحران اور سپریم کورٹ کی تقسیم انتہائی قابل افسوس ہے۔ فل کورٹ کا نہ بننا، – تشریح کے بجائے آئین لکھنا اور چار تین  کا فیصلہ نہ ماننا اس بحران کی بنیاد ہے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ  عدلیہ آئینی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے خود کو آئین کی تشریح تک محدود رکھے۔ معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی معیشت تباہ ہوکر رہ گئی ہے۔ معاشی بدحالی، مہنگائی اور بے روزگاری نے عام آدمی کی زندگی بہت مشکل میں ڈال دی ہے- بجلی، گیس، پٹرول اور آٹے کے بحران نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ایک نیا میثاق معیشت تشکیل دیا جائے۔ صوبائی خودمختاری کے خلاف کسی بھی سازش کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اٹھارویں آئینی ترمیم پر اسکی اصل روح کے مطابق عملدرآمد کیا جائے۔ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کو یقینی بنایا جائے اور فوری طور پر نیشنل فنانس کمیشن کا اجرا کیا جائے۔ ساتھ ساتھ بجلی کے خالص منافع اور گیس و پٹرول کا سرچارج و رائلٹی  اور ان جیسے دوسرے صوبائی آئینی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ ملک میں طلبہ یونینز کو فوری طور پر بحال کیا جائے۔ نوجوان نسل کو جدید عصری تقاضوں کے مطابق اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ انیسویں آئینی ترمیم پر نظر ثانی کی جائے۔ تمام لاپتہ افراد فوری طور پر عدالتوں میں پیش کئے جائیں۔ جبری گمشدگی کے غیر انسانی اور غیر آئینی عمل کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ زرعی اراضی کی اصلاحات کا قانون بحال کیا جائے اور شہری اراضی باالخصوص ریئل اسٹیٹ کی سکیمیوں کیلئے بھی حد مقرر کی جائے۔

#/S