راجوری میں جھڑپ کے بعد ضلع میں موبائل اور انٹرنیٹ کی سروس کو معطل، خصوصی کمانڈو دستوں کی تعیناتی
راجوری واقعے سے کشمیر کے حالات سے متعلق بھارتی حکومت کے نئے بیانیے کو چیلنج کا سامنا ہے۔ بی بی سی
مقامی ہندو آبادیوں کو مسلح کیا جارہا ہے راجوری اور پونچھ کے جڑواں اضلاع میں عام لوگ نئے حالات سے خوفزدہ
جموں( ویب نیوز) مقبوضہ کشمیر
راجوری میں جھڑپ کے بعد ضلع میں موبائل اور انٹرنیٹ کی سروس کو معطل کر دیا گیا ہے جبکہ جموں میں خصوصی کمانڈو دستوں کو تعینات کیا گیا ہے۔ بھارت کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے بھیاعلی فوجی قیادت کے ہمراہ راجوری کا دورہ کیا اور جموں میں اعلی سطح کے سیکورٹی جائزہ اجلاس کی قیادت کی۔فوجی ترجمان کے مطابق سنیچر کے روز کیسرگلی جنگلوں میں چھپے عسکریت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن کے دوران جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے اور ابھی تک ایک کو ہلاک کیا گیا ہے۔ تاہم فوج نے اس کی شناخت ظاہر نہیں کی ہے۔ترجمان کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے دوران ہی شمالی کمان کے کمانڈر لیفٹنٹ جنرل منوج دویدی نے راجوری کا دورہ کیا جہاں انھیں اس وسیع آپریشن کے سبھی پہلووں کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ یاد رہے وسیع پیمانہ پر سرچ آپریشن کے دوران جمعہ کے روز ہوئے حملے میں پانچ بھارتی فوجی مارے گئے تھے ۔ بی بی سی کے مطابق مبصرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو ہفتوں کے دوران دو بڑے حملوں میں مجموعی طور پر 10 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد جموں اور کشمیر کے حالات سے متعلق بھارتی حکومت کے نئے بیانیے کو چیلنج کا سامنا ہے۔مسلح تشدد کا گراف ایسے وقت بڑھا ہے جب انڈیا نے نہ صرف شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی میزبانی کی ہے بلکہ جی 20 کے سربراہ کی حیثیت سے ملک میں اس گروپ کے متعدد اجلاس منعقد کروا رہا ہے۔جی 20 دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کی تنظیم ہے۔ عالمی جی ڈی پی میں ان 20 ممالک کا حصہ 80 فیصد ہے۔ جموں کشمیر میں بھی بعض اجلاس طے ہیں۔ ایسے میں ان حملوں سے سرکاری حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔واضح رہے گذشتہ ہفتے انڈیا کی خفیہ ایجنسی را کے سابق چیف نے بھی ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف سخت ترین پالیسی کے ساتھ کشمیر میں سیاسی اور جمہوری عمل کو بحال کرنا اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور وسیع سکیورٹی کے لیے ناگزیر ہے۔تازہ صورت حال میںیل او سی کے قریب انڈیا کے زیر انتظام جموں خطے میں واقع راجوری اور پونچھ کے جڑواں اضلاع میں عام لوگ نئے حالات سے خوفزدہ ہیں۔مینڈھرپونچھ سیکٹر کے ایک رہائشی عبدالسلام نے بی بی سی کو بتایا کہ ایل او سی پر سیزفائر کی وجہ سے ہم لوگ خوش تھے۔ بچے سکول بھی جاتے تھے اور ہم کھیتی باڑی بھی کرتے تھے۔ لیکن یہ واقعات ہمارے لیے زندگی مشکل بنا سکتے ہیں۔ کوئی حملہ کرتا ہے اور غائب ہوجاتا ہے لیکن تھانوں میں طلبی تو ہماری ہوتی ہے۔ ہم بہت پریشان ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سال کے اوائل میں نامعلوم مسلح افراد نے راجوری کے ڈانگری علاقے میں سات ہندو شہریوں کو گھروں میں گھس کر قتل کر دیا تھا جس کے بعد مقامی ہندو آبادیوں کو مسلح کرنے کی پالیسی کو دوبارہ اپنایا گیا۔راجوری کے رہنے والے سیاسی کارکن فاروق انقلابی کا کہنا ہے کہ ایک ہی فرقے کے لوگوں کو مسلح کیا گیا تو مسلمان غیر محفوظ محسوس کریں گے۔