سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں صرف ایک خاندان کو ٹارگٹ کرنے پر اہم سوالات اٹھا دئیے
جماعت اسلامی پاکستان کے وکیل کی جانب سے436 پانامہ کیسز کے لیے جوڈیشل کمیشن کی استدعا
عدالت نے جماعت اسلامی کے وکیل کوچار سوالات پر مطمئن کرنے کیلئے ایک ماہ کی مہلت دیدی
سات سال میں کسی ادارے کے سامنے شکایت نہیں کی، سارے کام اب یہاں سپریم کورٹ ہی کرے؟،جسٹس طارق مسعود
سپریم کورٹ نے نوازشریف کے خلاف پاناما مقدمہ میں وہ بھی کیا جو لکھا نہیں، عدالت نے درخواست سے فالتو کام کرتے ہوئے نااہلی بھی کی
آرٹیکل 184-3کے تحت اب نظریہ بھی مختلف ہو گیا، اب سوال یہ ہے کہ کیا درخواست آرٹیکل184-3کے تحت قابل سماعت بھی ہے یا نہیں، ریمارکس
اسلام آباد(ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما کیس میں صرف ایک خاندان کو ٹارگٹ کرنے پراہم سوالات اٹھا دئیے ۔ دو رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے نوازشریف کے خلاف پاناما مقدمہ میں وہ بھی کیا جو لکھا نہیں سپریم کورٹ نے درخواست سے فالتو کام کرتے ہوئے نااہلی بھی کی ،آرٹیکل 184-3کے تحت اب نظریہ بھی مختلف ہو گیا، اب سوال یہ ہے کہ کیا درخواست آرٹیکل184-3کے تحت قابل سماعت بھی ہے یا نہیں ۔عدالت نے جماعت اسلامی کے وکیل اشتیاق احمد راجہ کو چار سوالات پر مطمئن کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کو بتایا جائے کہ انہوں نے اصل کیس سے یہ درخواست کیوں الگ کروائی؟ پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے متعلقہ اداروں سے رجوع کیوں نہیں کیا ؟جب قانون اور اداریموجود ہیں تو ان کو کیسے نظر انداز کیا جائے؟ 436لوگوں کو سنے بغیر فیصلہ کیسے سنایاجاسکتا ہے؟جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس امین الدین نے جماعت اسلامی کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی تو امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق، نائب امیر جماعت اسلامی میاں اسلم، انجمن تاجران پاکستان کے سربراہ کاشف چوہدری اپنے وکلا اشتیاق احمد راجہ اور سید رفاقت علی شاہ کے ہمراہ پیش ہوئے، جسٹس سردار طارق مسعود نے سوال کیا ہے کہ436پاکستانیوں کے کیس میں سب کے کیس کو الگ کرکے ایک فیملی کے کیس کو چلایا گیا ؟ میں کہنا نہیں چاہتا لیکن یہ تو کچھ اور ہی معاملہ لگتا ہے۔جماعت اسلامی نے سات سال میں کسی ادارے کے سامنے شکایت نہیں کی، سارے کام اب یہاں سپریم کورٹ ہی کرے؟ 436 بندوں کو نوٹس دئیے بغیر ان کے خلاف کارروائی کا حکم کیسے دیں؟ عدالت نے کیس کی مزیدسماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔ دوران سماعت جماعت اسلامی پاکستان کے وکیل کی جانب سے436 پانامہ کیسز کے لیے جوڈیشل کمیشن کی استدعا کردی۔ اس پر بینچ کے سربراہ جسٹس سردار طارق مسعود نے وکیل سے سوال کیا کہ آپ کو سات سال بعد یاد آیا کہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے؟ اُس وقت کیا مقصد صرف ایک ہی فیملی کے خلاف پاناما کیس چلانا تھا ؟جسٹس سردار طارق مسعود نے جماعت اسلامی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُس وقت جب سپریم کورٹ آف پاکستان صرف ایک فیملی کے خلاف کاروائی کررہی تھی توآپ اس کو کیسے جسٹیفائی کرتے ہیں،اس وقت جماعت اسلامی نے خود 436افراد کے خلاف تحقیقات کا اپنا کیس ڈی لسٹ کروادیا تھا اور الگ کروادیا تھا اوراب آپ کہتے ہیں کہ سب لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے،مجھے لگتا ہے اس میں معاملہ کچھ اورتھا۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ 2017 میں بھی پانامہ کا معاملہ تھا یہ بھی پانامہ کا معاملہ ہے اس وقت عدالت کے سامنے کیوں نہ کہا یہ سب لوگوں کا معاملہ ہے ساتھ سنا جائے؟آپ کو 7سال بعد یاد آیا کہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے؟اس وقت کیا مقصد صرف ایک ہی فیملی کے خلاف پاناما کیس چلانا تھا؟ وہ بھی پانامہ کا معاملہ تھا، یہ بھی پانامہ کا معاملہ ہے۔ اس وقت عدلت کے سامنے کیوں نہیں کہا یہ سب لوگوں کا معاملہ ہے؟ اُس وقت بینچ نے آپ کو اتنا بڑا ریلیف دے دیا تھا۔ آپ نے اُس بینچ کے سامنے کیوں نہیں کہا اس کو ساتھ سنیں۔ آپ نے 7سال میں کسی ادارے کو درخواست دی کہ تحقیقات کی جائیں؟ آپ نے اپنی ذمہ داری کہاں پوری کی؟ سارے کام اب یہاں سپریم کورٹ ہی کرے گی؟ جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ آرٹیکل 184-3کے حوالے سے متعلق اس وقت مختلف آراء موجود ہیں، سٹیٹ بینک آف پاکستان، ایف بی آر، ایف آئی اے، نیب اور ایس ای سی پی موجود ہیں۔جسٹس سردار طارق مسعود نے جماعت اسلامی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان تمام اداروں کی موجودگی میں آپ نے کسی ادارے کو درخواست نہیں دی اور آپ براہ راست سپریم کورٹ میں کیسے آگئے اور سپریم کورٹ نے بھی اس کے اوپر آرڈر کیسے پاس کردیا کہ آپ کو براہ راست ریلیف دے دیا گیا ۔اس وقت جب تمام لوگوں کے خلاف کارروائی ہورہی تھی توآپ نے اپنی درخواست میں کیوں نہیں کہا تمام لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے ، صرف ایک فیملی کو نشانہ بنایا گیا۔ اس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ جب سپریم کورٹ نے ہماری درخواست پر کارروائی شروع کی تو اس کے بعد عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی درخواست کو ٹیک اپ کرلیا تھا جس کے بعد ہماراکیس الگ کردیا گیا تھا۔ اس پر عدالت نے کہا کہ آرڈر میں بڑا واضح لکھا ہے کہ آپ کی اپنی درخواست تھی کہ دیگر تمام لوگوں کے جو کیسز ہیں ان کو الگ کردیا جائے اور صرف ایک فیملی کے خلاف پانامہ کیس چلایا جائے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ اداروں کی موجودگی میں سپریم کورٹ کیسے تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے، کیسے جے آئی ٹی بناسکتی ہے، اورکیسے 184-3میں اتنا بڑا ریلیف دے سکتی ہے جو اُس وقت مانگا گیا اور پانامہ پیپرز کیس میں سپریم کورٹ نے احکامات جاری کئے ۔جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ یہ تمام تر صورتحال ہے اس میں معاملہ کچھ اورلگتا ہے، کیونکہ ادارے موجود ہیں، پانامہ پیپرز میں اگرکسی کا نام آیا ہے تو پہلے یہ بھی دیکھنا ہے کہ کوئی جرم بھی ہوا ہے یا نہیںہوا، براہ راست سپریم کورٹ کیسے تحقیقات کاحکم دے سکتی ہے، اگر ہر معاملہ سپریم کورٹ نے ہی طے کرنا ہے تو پھران اداروں کا کیا فائدہ جو اتنے بڑے، بڑے ادارے کام کررہے ہیں۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ اس معاملہ پر سپریم کورٹ یا یہ بینچ کوئی سوموٹو کارروائی نہیں کرے گا بلکہ آپ کی درخواست کو صرف اورصرف قانون کے مطابق دیکھا جارہا ہے، آپ ان سوالات کے جواب دیں کہ اُس وقت صرف ایک خاندان کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے دیگر 436لوگوں کے کیسز کو کیوں الگ کروایا ۔عدالتی سوالات پر جماعت اسلامی کے وکیل نے تیاری کیلئے مہلت طلب کرلی تو عدالت نے مہلت دیدی عدالت نے آئندہ سماعت پر قانونی سوالات پر معاونت طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ایک ماہ تک کے لئے ملتوی کردی۔ ZS
#/S