سپریم کورٹ نے پاناما جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم10کھولنے سے متعلق براڈ شیٹ کمپنی کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی

براڈشیٹ والیم 10کا مطالبہ نہیں کرسکتی، نیب اور براڈشیٹ کے درمیان رقم کا کوئی لین دین باقی نہیں، کیس میں والیم 10کا کوئی تعلق نہیں، چیف جسٹس

عدالت کی براڈ شیٹ کے وکیل سردارمحمد لطیف خان کھوسہ کو بار ، بار شریف فیملی کے خلاف بیان دینے اور کمرہ عدالت میں اونچی آواز میں بات کرنے پر سخت سرزنش

عدالت نے لطیف کھوسہ کوسیاسی تقریر کرنے اور اپنے آپ کو پاکستانی عوام کا وکیل کہنے سے بھی روک دیا

اس درخواست میں جو دستاویزات مانگی گئی ہیں وہ اس عدالت کی تحویل میں ہیں، معاملہ مرچکا ہے یا زندہ ہے یہ قانون کے مطابق ہی دیکھا جاسکتا ہے

والیم 10کے بارے میں کوئی چیز ہے تواس حوالہ سے الگ درخواست دائر کریں اس کیس میں والیم 10کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ چیف جسٹس کا حکم

اسلام آباد(ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم10کھولنے سے متعلق براڈ شیٹ کمپنی کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔ چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا ہے کہ براڈشیٹ والیم 10کا مطالبہ نہیں کرسکتی، نیب اور براڈشیٹ کے درمیان رقم کا کوئی لین دین باقی نہیں، اس کیس میں والیم 10کا کوئی تعلق نہیں ہے۔جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ عالمی ثالثی کے لیے والیم 10کھولنے کا کہا گیا تھا تاہم ثالثی کا عمل مکمل ہوچکا ہے اب یہ درخواست غیر موثر ہوچکی ہے۔عدالت نے براڈ شیٹ کے وکیل سردارمحمد لطیف خان کھوسہ کو بار ، بار شریف فیملی کے خلاف بیان دینے اور کمرہ عدالت میں اونچی آواز میں بات کرنے پر سخت سرزنش کی اورانہیں سیاسی تقریر کرنے سے روک دیا۔عدالت نے لطیف کھوسہ کو پاکستانی عوام کا وکیل کہنے سے بھی روک دیا اورقراردیا کہ وہ کیس میں براڈ شیت کی نمائندگی کررہے ہیں۔ عدالت نے قراردیا کہ براڈشیٹ پاکستان کے عوام کی نمائندگی نہیں کرتی۔ جبکہ چیف جسٹس عمر عطابندیال نے اپنے حکم میں لکھوایا کہ اس درخواست میں جو دستاویزات مانگی گئی ہیں وہ اس عدالت کی تحویل میں ہیں، معاملہ مرچکا ہے یا زندہ ہے یہ قانون کے مطابق ہی دیکھا جاسکتا ہے۔والیم 10کے بارے میں کوئی چیز ہے تواس حوالہ سے الگ درخواست دائر کریں اس کیس میں والیم 10کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ریلیکس رہیں ورنہ ہم آپ کو ٹھنڈا پانی پیش کریں گے۔ براڈ شیٹ کمپنی کی پاناما جے آئی ٹی کے والیم 10 تک رسائی سے متعلق درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اورجسٹس شاہد وحید پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر جسٹس شاہد وحید نے درخواست گزار کے وکیل سے پوچھا کہ آربیٹریشن پروسیجر کا کیا اسٹیسٹس ہے؟ براڈ شیٹ کمپنی کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل میں کہا کہ پاناما جے آئی ٹی والیم 10 میں ایسا کیا ہے کہ اسے خفیہ رکھا جائے؟ آرٹیکل 19 اے کے تحت عوام کا حق ہے کہ وہ دیکھیں کیسے ملک کو لوٹا گیا۔جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے پاناما فیصلے میں والیم 10کے بارے میں کوئی آبزوریشن دی تھی؟ ہم اس طرف نہیں جائیں گے کیونکہ پاناما کیس میں ملک کے منتخب وزیراعظم کو ہٹایا گیا،وزیر اعظم کی نااہلی اس وجہ سے نہیں ہوئی تھی، آپ کو والیم 10 ثالثی کورٹ میں کارروائی کے لیے چاہیے تھا، وہاں معاملہ نمٹ چکا اب تو آپ کی درخواست غیر موثر ہو گئی ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل  چوہدری عامر رحمان نے کہا کہ براڈ شیٹ کو نیب نے جنوری2020میں 28 ملین ڈالر ادا کر دیے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آربیٹریشن مکمل ہو چکی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا اس معاملے پر آپ 184 تین کے تحت ہی درخواست لا سکتے ہیں مگر آپ مسٹر اسٹورٹ کے کندھے پر رکھ کر مفاد عامہ کی بات نہ کریں۔جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ پاناما فیصلے پر دوبارہ نظر ثانی کرانا چاہتے ہیں؟ وکیل لطیف کھوسہ بولے نہیں میں پاناما فیصلے میں جانا نہیں چاہتا۔جسٹس اطہرمن اللہ نے لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سپریم کورٹ کے فیصلے پر شک کااظہار کررہے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ براڈشیٹ پاکستان کے عوام کی نمائندگی نہیں کرتی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا سیاسی باتیں کرنے کے بجائے قانونی نکات تک ہی محدود رہیں، آپ یہاں پاکستانی عوام کی نہیں براڈ شیٹ کمپنی کی نمائندگی کیلئے آئے ہیں اس لیے بہتر ہو گا آپ پاکستانی عوام کی نمائندگی میں بات نہ کریں، کیا پانامہ کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے پاناما جے آئی ٹی والیم 10کا ذکر بھی کیا یا پھر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی پاناما بنچ نے کسی کی حمایت کی تھی؟کیا پانچ رکنی بینچ نے والیم 10کے حوالہ سے کوئی فیصلہ دیا تھا۔ وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ والیم 10اس وقت سیل کردیا گیا تھا، میں صرف چاہتا ہوں کہ عوام کے سامنے حقائق آئیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے سردار لطیف کھوسہ کی جانب سے بار بار شریف فیملی کا نام لینے اور اونچی آواز میں بات کرنے پر سخت برہمی کااظہار کیا اورانہیں کہا کہ یہ کمرہ عدالت ہے یہاں سیاسی تقریر نہ کریں، اس کیس میں آپ کا کوئی قانونی حق نہیں، یہ درخواست پہلے ہی غیر مئوثر ہو چکی ہے۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ جوجائیدادیں شریف فیملی نے بیرون ملک بنائی تھیں ان کا سرغ براڈ شیٹ نے لگانا تھا اوراس رقم کا 20کمپنی جبکہ 80فیصد پاکستانی عوام کو ملنا تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آپ کی درخواست کا رقم کے لینے دینے کے حوالہ سے کوئی لینا دینا نہیں، اگروالیم 10کھولنا ہوتا تو پانچ رکنی بینچ اس حوالہ سے کچھ لکھتا ۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ انگریزی کا لفظ ہے ریلکس،ریلیکس رہیں ورنہ ہم آپ کو ٹھنڈا پانی پیش کریں گے۔ کھوسہ صاحب آپ خاطر جمع رکھیں جو بحث عدالت میں ہو رہی ہے یہ کیس سے ہٹ کر ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے سرکاری افسران کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں ایک شماریات کا ماہر ریٹائرمنٹ کے بعد بیرون ملک گیا اور تدریسی عمل جاری رکھا اور 102سال کی عمر میں اسے نوبل انعام ملا، پاکستان میں بہترین دماغ اس وقت خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ بہترین دماغ اس وقت سپریم کورٹ میں بھی موجود ہیں جن کی ذمہ داری ہے کو آئین کے مطابق چلانا ہے، ملک سے زیادہ کسی چیز سے پیار نہیں کرتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کے ساتھ تو سب کو ہی محبت ہے۔بعد ازاں عدالت نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔