سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل ابھی بنا نہیں تھا کہ 13 اپریل کو سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ نے حکم امتناع دیا

چہ مگوئیوں سے بچنے کے لیے میں اس بات کا قائل ہوں ساری بات کھلی عدالت میں ہونی چاہیے، اب تو نوٹ بھی ویب سائٹ سے ہٹائے جاتے ہیں

وفاقی حکومت نے میری سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا، انکوائری کمیشن کو 19 مئی کو 5 رکنی بینچ نے کام کرنے سے روک دیا

تعجب ہوا کہ کل رات 8 بجے کاز لسٹ میں میرا نام آیا،مجھے جو درخواست رات گئے موصول ہوئی اس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی بھی تھی

  کاز لسٹ میں آخر میں آنے والی درخواست سب سے پہلے مقرر کر دی گئی، میں اس بینچ کو بینچ تصور نہیں کرتا

میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ کیا جائے، ریمارکس

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ اس لئے نہیں آیا کہ اٹارنی جنرل نے وقت لیا تھا، ہم نے جو بھی کیا اپنے حلف کے مطابق کیا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال

اسلام آباد (ویب نیوز)

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت کرنے والا 9رکنی لارجربینچ جسٹس فائز عیسی اور جسٹس طارق مسعود کے اعتراضات لگا کر خود کو الگ کرنے کے بعد ٹوٹ گیا، جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ بینچ سے اٹھ رہا ہوں، کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ ہونے تک اس عدالت کو نہیں مانتا۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی، 9 رکنی لارجر بینچ میں نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی بھی شامل ہیں۔ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بینچ کا حصہ ہیں۔ کیس کی سماعت پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ تعجب ہوا کہ کل رات 8 بجے کاز لسٹ میں میرا نام آیا، اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئیں میں نے کچھ کہنا ہے، عدالت کو اختیار سماعت آئین کا آرٹیکل 175/2 دیتا ہے، میں اپنی قومی زبان اردو میں بات کروں گا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر کوئی بات نہیں کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل ابھی بنا نہیں تھا کہ 13 اپریل کو سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ نے حکم امتناع دیا، سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی سماعت جولائی تک ملتوی کی، سپریم کورٹ رولز پڑھیں کیا کہتے ہیں، آئین سپریم کورٹ کو سماعت کا اختیار دیتا ہے، جج کا حلف کہتا ہے کہ آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کروں گا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایک قانون ہے، میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل میں بینچ کا حصہ نہیں، کچھ نہیں کہوں گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ میں نے 6 ممبر بینچ پر نوٹ تحریر کیا جسے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنے کے بعد ہٹا دیا گیا، چیف جسٹس نے 16 مئی کو پوچھا کہ کیا میں چیمبر ورک کرنا چاہتا ہوں یا نہیں، بتاتا ہوں کہ میں نے چیمبر ورک کو ترجیح کیوں دی، ایک قانون بنا دیا گیا بینچز کی تشکیل سے متعلق، کسی پر انگلی نہیں اٹھا رہا لیکن میرے پاس آپشن تھا کہ حلف کی پاسداری کروں یا عدالتی حکم پر بینچ میں بیٹھوں، میری دانست میں قانون کو مسترد کیا جا سکتا ہے معطل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ مجھ سے جب چیمبر ورک کے بارے میں دریافت کیا گیا تو میں نے 5 صفحات پر مشتمل نوٹ لکھا، چہ مگوئیوں سے بچنے کے لیے میں اس بات کا قائل ہوں کہ ساری بات کھلی عدالت میں ہونی چاہیے، اب تو نوٹ بھی ویب سائٹ سے ہٹائے جاتے ہیں اس لیے اپنا جواب یہیں پڑھ رہا ہوں، میں نے چیف جسٹس کو لکھا نوٹ اپنے تمام ساتھیوں کو بھی بھیجا، میں نے نوٹ میں کہا کہ میرے ساتھیوں نے قانون معطل کر کے مجھے عجیب کشمکش میں ڈال دیا ہے، وفاقی حکومت نے میری سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا، انکوائری کمیشن کو 19 مئی کو 5 رکنی بینچ نے کام کرنے سے روک دیا؟ میں نے انکوائری کمیشن میں نوٹس ہونے پر جواب بھی جمع کرایا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ مجھے جو درخواست رات گئے موصول ہوئی اس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کی بھی درخواست تھی، آج کاز لسٹ میں آخر میں آنے والی درخواست سب سے پہلے مقرر کر دی گئی، میں اس بینچ کو بینچ تصور نہیں کرتا، میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ کیا جائے، میرا موقف یہ ہے کہ جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجربل کو ٹھکانے نہ لگایا جائے تب تک میں کسی بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کے بعد جسٹس سردار طارق نے بھی بینچ پر اعتراض اٹھادیا۔ دونوں ججز کے اعتراض کے بعد 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا۔ بینچ کی تحلیل کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم کوئی راستہ نکالتے ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ اس لئے نہیں آیا کہ اٹارنی جنرل نے وقت لیا تھا، ہم نے جو بھی کیا اپنے حلف کے مطابق کیا۔سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، اعتزاز احسن، کرامت علی اور چئیرمین پاکستان تحریک انصاف نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ درخواست گزاروں نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔