- دہشتگردی ایکٹ کے تین مقدمات ، چیئرمین پی ٹی آئی کی 26 جولائی تک ضمانت میں توسیع
- میں نے تفتیشی افسر کو کہا کہ قانون کے مطابق ڈیل کریں، اگر ملزمان سے کچھ نہیں ملا تو آزاد کریں،جج ابوالحسنات
- بہت پلان کے ذریعے چیئرمین پی ٹی آئی کو مقدمات میں نامزد کیا گیا،وکیل سلمان صفدر
- سابق وزیرِ اعظم ہوں یا عام شہری، آئین نے ہر کسی کو حق دیا ہے، پراسیکیوشن والے ایسا کرتے رہے تو انہیں نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا،جج ابوالحسنات
- توشہ خانہ کیس قابل سماعت قرار دینے کے فیصلہ کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
- ٹرائل کورٹ میں آئندہ سماعت کب ہے؟ ،چیف جسٹس عامر فاروق کا استفسار
- ٹرائل کورٹ میں کیس آج (جمعرات )سماعت کیلئے مقرر ہے،وکیل خواجہ حارث
- ٹرائل کورٹ کے جج اپنا مائنڈ ظاہر کرچکے ہیں، اس معاملے کو ٹرائل کورٹ کو بھیجنا ہے تو کسی اور جج کو بھیجا جائے،وکیل خواجہ حارث
اسلام آباد(ویب نیوز)اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج 3 مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی کی 26 جولائی تک ضمانت میں توسیع کر دی۔بدھ کو چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج 3 مقدمات کی اے ٹی سی کے جج ابو الحسنات نے سماعت کی جس کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا پیش ہوئے۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ چیئرمین پی ٹی آئی راستے میں ہیں، سماعت میں تھوڑی دیر کے لیے وقفہ کر دیں۔اے ٹی سی نے چیئرمین پی ٹی آئی کو ساڑھے 9 بجے طلب کر لیا۔انسدادِ دہشت گردی کی عدالت اسلام آباد کے جج ابوالحسنات نے سماعت سے قبل وکیل سلمان صفدر سے مکالمے میں کہا کہ میں نے تفتیشی افسر کو کہا کہ قانون کے مطابق ڈیل کریں، اگر ملزمان سے کچھ نہیں ملا تو آزاد کریں، ایسا رہا تو میں آئی جی کو کال کر کے کارروائی کرائوں گا، ملزم کو گناہ گار ثابت کریں یا چھوڑ دیں، عدالت کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں۔وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ بہت پلان کے ذریعے چیئرمین پی ٹی آئی کو مقدمات میں نامزد کیا گیا، تفتیشی افسر کہہ دیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے کچھ تفتیش میں برآمد نہیں ہوا، دہشت گردی ایکٹ کے 5 مقدمات میں اسی پراسیکیوشن کے سامنے ضمانتیں کنفرم ہوئی ہیں، پولیس ہی مدعی ہے اور پولیس ہی تفتیش کر رہی ہے، ایسے کمزور ثبوتوں کی بنیاد پر تفتیش کو آگے لے کر نہیں چلیں گے، پراسیکیوشن اور پولیس ایک ساتھ نہیں چل سکتی۔جج ابوالحسنات نے کہا کہ سابق وزیرِ اعظم ہوں یا عام شہری، آئین نے ہر کسی کو حق دیا ہے، پراسیکیوشن والے ایسا کرتے رہے تو انہیں نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد پہنچ گئے۔وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف 3 مقدمات درج ہیں، دفعہ 109 لگی ہوئی ہے، کیا چیئرمین پی ٹی آئی نے کوئی بیان دیا؟ چیئرمین پی ٹی آئی کو کچھ معلوم نہیں کہ ان کے خلاف ثبوت کیا ہیں۔جج ابوالحسنات نے تفتیشی افسر سے کہا کہ ڈبل پالیسی نہیں چلے گی۔اے ٹی سی نے 3 مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی کی 26 جولائی تک ضمانت میں توسیع کر دی۔دوسری جانب چیئرمین پی ٹی آئی کی پیشی کے موقع پر جوڈیشل کمپلیکس میں سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کئے گئے ۔چیئرمین پی ٹی آئی کی پیشی پر ایٹی سی اور احتساب عدالت کے باہر ٹینٹ لگا دیئے گئے ۔اسلام آباد پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری جوڈیشل کمپلیکس میں موجود رہی ۔جوڈیشل کمپلیکس میں سخت سکیورٹی چیک کے بعد صرف متعلقہ افراد کو جانے کی اجازت دی گئی ۔
توشہ خانہ کیس قابل سماعت قرار دینے کے فیصلہ کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس قابل سماعت قرار دینے کے فیصلہ کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں توشہ خانہ کیس کو قابل سماعت قرار دینے کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے کی، چیئرمین پی ٹی آئی کی طرف سے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔۔ درخواست میں ماتحت عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دینے اور ٹرائل پر حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا کی گئی ۔دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ٹرائل کورٹ میں آئندہ سماعت کب ہے؟ جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ٹرائل کورٹ میں کیس آج (جمعرات )سماعت کیلئے مقرر ہے۔دوران سماعت خواجہ حارث نے کہا کہ اس عدالت کی جانب سے باقاعدہ سوالات اٹھائے گئے، الیکشن کمیشن کے وکیل کو ان سوالات پر دلائل دینے تھے، الیکشن کمیشن کے وکیل نے سوا 3 گھنٹے تک دلائل دیئے۔وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے پہلے 3 سوالات کے علاوہ دیگر پر دلائل ہی نہیں دیئے ٹرائل کورٹ نے الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل کے 15 منٹ بعد فیصلہ سنا دیا۔خواجہ حارث نے عدالت سے استدعا کی کہ ٹرائل کورٹ کے جج اپنا مائنڈ ظاہر کرچکے ہیں، اس معاملے کو ٹرائل کورٹ کو بھیجنا ہے تو کسی اور جج کو بھیجا جائے۔بعد ازاں عدالت نے کیس پر فیصلہ محفوظ کر لیا .