- سپریم کورٹ کی اجازت کے بغیر فوجی عدالتوں میں ملزمان کا ٹرائل شروع نہیں کیا جائیگا،چیف جسٹس عمرعطابندیال
- اٹارنی جنرل نے 102 ملزمان میں سے کسی کا ٹرائل سپریم کورٹ کی پیشگی اجازت کے بغیر شروع نہ کرنے کی یقین دہانی کرا دی
- سویلین ملزمان کو فوجی عدالتوں میں اپیل کا حق ملے گا یا نہیں اس حوالہ سے ایک ماہ کی مہلت دی جائے،اٹارنی جنرل
- اگر یقین دہانیوں کی خلاف ورزی کی گئی تو متعلقہ افراد کو طلب کریں گے،چیف جسٹس
- آرمی ایکٹ کے مطابق اگر کوئی سویلین افواج کا ڈسپلن خراب کرے تو بھی قانون کے دائرے میں آتا ہے،اٹارنی جنرل
- افواج کا ڈسپلن کیسے خراب ہوا؟،چیف جسٹس عمرعطابندیال
- میانوالی میں ائیر کرافٹ پر حملہ ہوا، ایسا آرڈیننس فیکٹری یا کسی اور جگہ بھی ہو سکتا تھا،اٹارنی جنرل
- کیا آرمی ایکٹ بنیادی انسانی حقوق کے دائرے سے خارج ہے؟، جسٹس یحییٰ آفریدی
- آرمی ایکٹ پر بنیادی انسانی حقوق کا اطلاق نہیں ہوتا،اٹارنی جنرل منصور اعوان
- کسی فوجی کا جھگڑا کسی سویلین کے ساتھ ہو تو ٹرائل کیسے ہوگا؟ قانون بالکل واضح ہونا چاہیے،جسٹس منیب اختر
- سویلین پر فوجی ایکٹ کے اطلاق کے لیے اکیسویں ترمیم کی گئی تھی اور شرائط رکھی گئیں،جسٹس اعجازالاحسن
- اکیسویں ترمیم میں عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کی بات کی گئی ہے،جسٹس عائشہ ملک
- بنیادی حقوق کو صرف قانون سازی سے ختم کیا جاسکتا ہے اس بارے میں سوچیں،چیف جسٹس
- عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی
اسلام آباد(ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال نے قرار دیا ہے کہ سپریم کورٹ کی اجازت کے بغیر فوجی عدالتوں میں ملزمان کا ٹرائل شروع نہیں کیا جائے گا۔جبکہ اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان نے 102 ملزمان میں سے کسی کا بھی ٹرائل سپریم کورٹ کی پیشگی اجازت کے بغیر شروع نہ کرنے کی یقین دہانی کروا دی ۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سویلین ملزمان کو فوجی عدالتوں میں اپیل کا حق ملے گا یا نہیںاس حوالہ سے ایک ماہ کی مہلت دی جائے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا ہے کہ اگر یقین دہانیوں کی خلاف ورزی کی گئی تو متعلقہ افراد کو طلب کریں گے۔ عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔ سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پرجمعہ کے روز چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل چھ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عمان اعوان نے اپنے دلائل میں کہا عدالت کا سوال یہ ہے کہ ملزمان کو فیئر ٹرائل کا حق ملے گا یا نہیں؟ پہلے عدالت کو آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کا طریقہ کار بتاتا ہوں، پھر سوالات کا جواب دوں گا، آرمی ایکٹ کے سیکشن میں سول جرائم کی بات بڑی واضح ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ پچھلی سماعت پر 9مئی کی منصوبہ بندی کی تفصیلات عدالت کے سامنے رکھی تھیں، نہیں چاہتے کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ مستقبل میں دوبارہ کبھی ہو۔ عدالت میں دکھائے گئے ویڈیو کلپس سے ظاہر ہے کہ نو مئی واقعات میں بہت سے افراد شامل تھے۔ صرف 102 افراد کو بہت محتاط طریقے سے گرفتار کر کے کورٹ مارشل کے لیے منتخب کیا گیا۔ دوبارہ سے کہنا چاہتا ہوں کہ جو کچھ 9 مئی کو ہوا تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 پڑھیں جس میں سویلینز کے ٹرائل کی بات کی گئی ہے۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی ایکٹ کے مطابق اگر کوئی سویلین افواج کا ڈسپلن خراب کرے تو بھی قانون کے دائرے میں آتا ہے، آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 کے تحت اگر کوئی سویلین دفاعی نظام میں رکاوٹ ڈالے تو وہ اس قانون کے نرغے میں آتا ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ افواج کا ڈسپلن کیسے خراب ہوا؟اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میانوالی ایئربیس میں جب حملہ کیا گیا اس وقت وہاں جنگی طیارے کھڑے تھے۔ میانوالی میں ائیر کرافٹ پر حملہ ہوا، ایسا آرڈیننس فیکٹری یا کسی اور جگہ بھی ہو سکتا تھا۔ آرمی ایکٹ کے سیکشن میں سول جرائم کی سزا واضح نہیں ہے۔ اکیسویں ترمیم کے بعد صوتحال تبدیل ہوئی، آرمی ایکٹ کے سیکشن میں 2015 میں ترامیم کی گئیں تو تو سویلینز کے ٹرائل کی شقیں شامل کی گئیں۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا آرمی ایکٹ بنیادی انسانی حقوق کے دائرے سے خارج ہے؟جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ پر بنیادی انسانی حقوق کا اطلاق نہیں ہوتا۔اس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کسی فوجی کا جھگڑا کسی سویلین کے ساتھ ہو تو ٹرائل کیسے ہوگا؟ قانون بالکل واضح ہونا چاہیے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سویلین پر فوجی ایکٹ کے اطلاق کے لیے اکیسویں ترمیم کی گئی تھی، اور سویلین پر آرمی ایکٹ کے اطلاق کے لیے شرائط رکھی گئیں، انہوں نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت قائم کردہ فوجی عدالتیں مخصوص وقت کے لیے تھیں۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آپ جیسے دلائل دے رہے ہیں، لگتا ہے کہ اپنی ہی کہی ہوئی بات کی نفی کررہے ہیں۔اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم سے قبل بھی آرمی ایکٹ کا سویلین پر اطلاق کا ذکر موجود تھا۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل سے تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی حقوق ختم ہوگئے ہیں، انہوں نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرسکتی ہے؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا جی، بالکل پارلیمنٹ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرسکتی ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ بنیادی انسانی حقوق کبھی آرہے ہوں اور کبھی جارہے ہوں۔ قانون بنیادی حقوق کے تناظر میں ہونا چاہیے۔ آپ کے دلیل یہ ہے کہ ریاست کی مرضی ہے بنیادی حقوق دے یا نہ دے۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اکیسویں ترمیم میں عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کی بات کی گئی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بنیادی حقوق کو صرف قانون سازی سے ختم کیا جاسکتا ہے اس بارے میں سوچیں۔ پاکستان کے نظام عدل میں عدلیہ کی آزادی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، عدلیہ کی آزادی کو سپریم کورٹ بنیادی حقوق قرار دے چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ٹرائل کورٹ پر سب کچھ نہیں چھوڑ سکتے۔ 2015 میں اکیسویں ترمیم کے ذریعے آئین پاکستان کو ایک طرف کردیا گیا مگر اب ایسا نہیں ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بریگیڈیئر ایف بی علی کیس ریٹائرڈ فوجی افسران سے متعلق تھا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کا پراسیس بتاں گا پھر عدالتی سوال پر آں گا۔ انہوں نے کہا کہ جس کمانڈنگ آفیسر کی زیر نگرانی جگہ پر جو کچھ ہوتا ہے اس کی رپورٹ دی جاتی ہے۔ رپورٹ جی ایچ کیو ارسال کی جاتی ہے۔ آرمی ایکٹ رولز کے تحت ایک انکوائری شروع کی جاتی ہے، اگلے مرحلے میں ملزم کی کسٹڈی لی جاتی ہے۔اس دوران سپریم کورٹ والے علاقے میں تیز بارش شروع ہوگئی۔ بارش کا شور کمرہ عدالت میں بھی بہت زیادہ سنائی دے رہا تھا جس کے نتیجے میں عدالتی کارروائی میں کچھ خلل واقع ہوا۔جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تیز بارش کے سبب آپ کی آواز نہیں آ رہی ہے۔ایک ہلکے سے توقف کے بعد اتارنی جنرل نے پوچھا کیا معزز ججز کو میری آواز آرہی ہے۔ اس پر معززججز نے مسکرانا شروع کر دیا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزم کی کسٹڈی لینے کے بعد شواہد کی سمری تیار کر کے چارج کیا جاتا ہے، الزامات بتا کر شہادتیں ریکارڈ کی جاتی ہیں۔ اگر کمانڈنگ افسر شواہد سے مطمئن نہ ہو تو چارج ختم کردیتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزم کو بھی چوائس دی جاتی ہے کہ وہ اپنا بیان ریکارڈ کرواسکتا ہے۔ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے دوران ملزم کسی لیگل ایڈوائزر سے مشاورت کرسکتا ہے۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملزمان کو اپنے دفاع کے لیے فوجی عدالتوں میں بہت کم وقت دیا جاتا ہے۔اٹارنی جنرل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں بھی فیصلہ کثرت رائے سے ہوتا ہے۔ سزائے موت کی صورت میں فیصلہ دوتہائی سے ہونا لازمی ہے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں یہ معاملہ اس کیس سے متعلق نہیں ۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ بادی النظر میں گرفتار 102 ملزمان میں کسی کو سزائے موت یا 14 سال قید کی سزا نہیں دی جائے گی۔اس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آپ کا مطلب ہے کہ سیکشن 3 اے کا کوئی کیس نہیں ہے؟چیف جسٹس نے بھی استفسار کیا کیا اپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسا کوئی کیس نکل سکتا ہے؟اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرا بیان آج تک کی سٹیج تک کا ہے۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔