جموں و کشمیر میں آرٹیکل 35 اے کے نفاذ سے بنیادی حقوق چھین لیے گئے تھے۔بھارتی سپریم کورٹ
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف مقدمے میں چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی رائے
آرٹیکل 35 اے کے نفاذ سے غیر مستقل باشندوں کو تمام بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا تھاسالیسٹر جنرل مہتا
آرٹیکل 370 کی منسوخی کے مقدمے میں پیش ہونے والے کشمیری لیکچرار کو معطل کیوں کیا گیا؟سپریم کورٹ
نئی دہلی(ویب نیوز )
بھارتی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف مقدمے میں کہا ہے کہ جموں و کشمیر میں آرٹیکل 35 اے کے نفاذ سے بنیادی حقوق چھین لیے گئے تھے۔ اس آرٹیکل نے ریاستی حکومت کے تحت ملازمت کا حق، غیر منقولہ جائیدادوں کے حصول اور ریاست میں بسنے کا حق صرف مستقل باشندوں تک محدود کر دیا تھا۔بھارتی چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ میں گزشتہ روز مقدمے کی سماعت شروع ہونے پرسالیسٹر جنرل تشار مہتا نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے حکومتی فیصلے کا دفاع میں اپنے دلائل جاری رکھے اس دوران چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ 1954 کا حکم دیکھیں۔ اس نے ہندوستانی آئین کے پورے حصے (بنیادی حقوق) کو نافذ کیا ہے اور اس کے ذریعے آرٹیکل 16 اور 19 جموں و کشمیر پر نافذ ہوا ہے۔ بعد میں، آرٹیکل 35A لایا گیا، جس میں ریاستی حکومت کے تحت ملازمت، غیر منقولہ جائیدادوں کا حصول اور ریاست میں آباد کاری جیسے بنیادی حقوق کو مستثنی قرار دیا گیا۔ لہذا، جہاں آرٹیکل 16(1) محفوظ رہا، یہ تین بنیادی حقوق اور عدالتی نظرثانی کا حق آرٹیکل 35A کے ذریعے چھین لیا گیا عدالت نے سالیسٹر جنرل مہتا سے اتفاق کیا کہ جموں و کشمیر کا آئین ہندوستانی آئین کے "ماتحت” تھا۔۔کے پی آئی کے مطابق دوران سماعت بھارتی چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے اٹارنی جنرل آر وینکٹرامانی سے کہا کہ وہ جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر سے معلوم کریں کہ ہائیر سیکنڈری اسکول کے استاد ظہور احمد بھٹ کو آئینی بنچ کے سامنے آرٹیکل 370 کے معاملے پر بحث کرنے کے بعد کیوں معطل کیا گیا تھا۔ اگر یہ عدالت میں پیشی کے لیے ہے، تو یہ انتقامی کارروائی ہو سکتی ہے۔ آزادی کا کیا ہوگا؟سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے حکومتی فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اب پورا بھارتی آئین جموں و کشمیر پر نافذ ہوتا ہے۔ اس جگہ کے مکینوں کو ان کے ملک کے دوسرے بھائیوں اور بہنوں کے برابر لایا گیا ہے۔ 35A کے بعد لوگوں کو بنیادی حقوق مل گئے۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وہاں تمام فلاحی قوانین نافذ ہوں گے۔ اب 35A نہیں ہے، اس لیے سرمایہ کاری آرہی ہے۔ مرکز کے ساتھ پولیسنگ، سیاحت شروع ہو گئی ہے۔ جموں وکشمیر میںپہلے کوئی بڑی صنعتیں نہیں تھیں، چھوٹی صنعتیں تھیں، کاٹیج انڈسٹریز تھیں۔ مہتا نے یہ بھی کہا، قانون ساز اسمبلی کی غیر موجودگی میں، آئین ساز اسمبلی کی اصطلاح کو مترادف استعمال کیا گیا، کیونکہ جموں اور کشمیر کے تناظر میں دونوں برابر کے اعضا ہیں۔سالیسٹر جنرل مہتا نے بنچ کو بتایا کہ آرٹیکل 35A کے ذریعے مستقل رہائشیوں کے بارے میں ایک الگ شق شامل کی گئی تھی۔ اس کے تحت مستقل باشندوں کی تعریف میں نہ آنے والوں کو تمام بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اب تک لوگ سمجھتے تھے کہ آرٹیکل 370 ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے، انہیں حقوق سے محروم نہیں کیا گیا ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ خاص ہیں اور اس کے لیے لڑنا چاہیے۔یاد رہے 5 اگست 2019 کو بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دلانے والے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیا تھا، جس کے تحت بھارت کے دیگر شہروں کے لوگوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں جائیدادیں حاصل کرنے اور مستقبل رہائش کی اجازت حاصل ہوگئی ہے۔جموں کشمیر کے تین بھارتی ممبران پارلیمنٹ جسٹس (ر) حسنین مسعودی، فاروق عبداللہ اور محمد اکبر لون نے سپریم کورٹ میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔انڈین آرمی اور انڈین فضائیہ کے سابق افسروں اور سماجی رضاکاروں کی طرف سے سپریم کورٹ میں داخل آئینی درخواستوں میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیاکشمیریوں کی مرضی کے بغیر پارلیمنٹ کو یکطرفہ طور ایسا فیصلہ لینے کا اختیار تھا یا نہیں؟ بعد میں اس ضمن میں مزید کئی درخواستیں داخل کی گئیں جن میں استدعا کی گئی کہ اس فیصلے کو غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دیا جائے کیونکہ اس میں کشمیریوں کی رائے شامل نہیں تھی۔
آرٹیکل 370 کی منسوخی کے مقدمے میں پیش ہونے والے کشمیری لیکچرار کو معطل کیوں کیا گیا؟سپریم کورٹ
بھارتی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران کشمیری لیکچرر کی معطلی کا بھی نوٹس لے لیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ میں گزشتہ روز مقدمے کی سماعت شروع ہونے پر بھارتی چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ جموں و کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا سے بات کریں اور یہ معلوم کریں کہ کشمیر کے لکچرر ظہور احمد بھٹ کو آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف بحث کرنے کے لیے عدالت میں پیش ہونے کے چند دنوں بعد کیوں معطل کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت یہ جاننا چاہتی ہے کہ آیا معطلی کا تعلق لکچرر کی عدالت میں پیشی سے ہے۔بھارتی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے اشارہ دیا کہ اگر ایسا ہوا ہے تو اسے منظور نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت کے اس بیان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ اس اقدام کو "انتقام” کے طور پر دیکھ سکتی ہے۔ یاد رہے ظہور احمد بھٹ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کی اس بنچ کے سامنے پیش ہوئے تھے جو جموں و کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت دینے والے آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف دائر اپیل پر سماعت کررہی ہے۔ وہ سری نگر کے جواہر نگر میں گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول میں پولیٹکل سائنس کے سینیئر لکچرر اور قانون کی ڈگری یافتہ ہیں۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ دفعہ 370 کو ختم کرنے کے خلاف دائر عرضی پر سماعت کرنے والی پانچ رکنی آئینی بنچ کے سربراہ ہیں۔ سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے دو دن بعد جمعے کو جموں و کشمیر کے محکمہ تعلیم نے بھٹ کو جموں و کشمیر سول سروس ریگولیشنز، جموں و کشمیر گورنمنٹ ایمپلائز کنڈکٹ رولز اور جموں و کشمیر لیو رولز کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے ملازمت سے فوری طورپر معطل کرنے کا حکم جاری کیا۔ کے پی آئی کے مطابق سیینئر وکیل کپل سبل نے ظہور احمد بھٹ کی معطلی کو سپریم کورٹ کے علم میں لاتے ہوئے کہا، "جو استاد یہاں آئے تھے اور چند منٹ کے لیے اپنے دلائل پیش کیے انہیں 25 اگست کو عہدے سے معطل کردیا گیا۔ حالانکہ انہوں نے دو دن کی باضابطہ چھٹی لی تھی اور پھر واپس چلے گئے تھے لیکن انہیں معطل کردیا گیا۔اس پر چیف جسٹس چندر چوڑ نے اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی کو اس معاملے کو دیکھنے کی ہدایت کی ۔ انہوں نے کہا،” مسٹر اٹارنی جنرل دیکھئے یہ کیا ہوا ہے۔ کوئی شخص عدالت میں حاضر ہوا تھا اور اب اسے معطل کردیا گیا… آپ لیفٹننٹ گورنر سے بات کریں۔چیف جسٹس چندر چوڑ نے مزید کہا،” اگر کچھ اور ہے تو الگ بات ہے لیکن عدالت میں حاضر ہونے اور اس کے فورا بعد معطل کردیے جانے کی وجہ کیا ہے؟ سالسٹر جنرل توشار مہتا نے اس پر کہا کہ معطلی کی وجہ کچھ اور تھی۔ لیکن جب جسٹس ایس کے کول نے اس معطلی کے وقت کی طرف اشارہ کیا تو اعلی حکومتی وکیل نے تسلیم کیا کہ "یہ یقینی طورپر مناسب نہیں تھا۔پانچ رکنی آئینی بنچ میں شامل ایک اور جج جسٹس بی آر گوائی کا کہنا تھا کہ حکومت کی کارروائی انتقامی کارروائی ہوسکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا "اتنی آزادی کا مطلب ہی آخر کیا ہے….اگر صرف عدالت میں حاضر ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے تو واقعتا یہ انتقام ہے۔خیال رہے کہ ظہور احمد بھٹ نے ذاتی نوعیت میں عدالت میں حاضر ہوکر پانچ منٹ اپنے دلائل پیش کیے تھے۔انہو ں نے عدالت کو بتایا تھا کہ اگست 2019 کے بعد سے، جب بھارتی حکومت نے آئین کی دفعہ 370 کو منسوخ کردیا تھا، جموں و کشمیر میں طلبہ کو بھارتی سیاست کے بارے میں پڑھانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ ظہور احمد بھٹ کا کہنا تھا،” طلبہ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیا اب بھی جمہوریت ہیں؟انہوں نے دفعہ 370 کو ختم کرنے کے خلاف اپنے دلائل میں کہا تھا کہ یہ اقدام”بھارتی آئین کی اخلاقیات کی خلاف ورزی ہے۔ یہ اقدام وفاقیت اور آئین کی بالادستی کے بھی خلاف تھا۔