بھارتی سپریم کورٹ ، آرٹیکل 370  کے خاتمے کے خلاف مقد مے کا فیصلہ 25 دسمبر سے قبل متوقع
مقدمہ سننے والے بنچ کے رکن جسٹس ایس کے کول 25 دسمبر کو سپریم کورٹ سے ریٹائر ہو رہے ہیں
چیف جسٹس دھنانجیا یشونت چندراچد بھی جلد ریٹائر ہو رہے ہیں، ریٹائرمنٹ سے قبل فیصلہ آئے گا

نئی دہلی( ویب نیوز )

مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دلانے والے آرٹیکل 370  کے خاتمے کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ25  دسمبر سے قبل متوقع ہے ۔بھارتی سپریم کورٹ نے   اس معاملے میں سولہ دنوں تک سماعت کے بعد 5 ستمبر 2023 کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ بھارتی چیف جسٹس دھنانجیا یشونت چندراچد، جسٹس سجنے کشان کول، جسٹس سجنیو کھنہ، جسٹس بی آر گیوائی اور جسٹس سوریا کانت پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی تھی تاہم  5 رکنی بینچ نے فیصلہ جاری کرنے کی کوئی تاریخ نہیں دی۔ ۔ بھارت کے چیف جسٹس دھنانجیا یشونت چندراچد اب جلد ہی ریٹائر ہوجائیں گے اور اگر فیصلے کی توثیق پارلیمنٹ سے نہیں ہوئی تو پھر اس کا دوبارہ جائزہ نہیں لے پائیں گے کیونکہ آئینی تبدیلی کے لیے پارلیمنٹ کی توثیق درکار ہوتی ہے۔ کے پی آئی کے مطابق  بنچ  کے رکن جسٹس ایس کے کول 25 دسمبر 2023 کو سپریم کورٹ سے ریٹائر ہو رہے ہیں اور 15 دسمبر 2023 کو سردیوں کی تعطیلات سے پہلے سپریم کورٹ کا آخری کام کا دن ہے، اس بات کا امکان ہے کہ فیصلہ جلد ہی آئے گا۔ نئی دہلی میں سپریم کورٹ نے حکومتی وکلا، بھارت کے حامی مقبوضہ کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے آئینی ماہرین اور دیگر فریقین سے 16 سے زائد دنوں تک دلائل سنا۔یاد رہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دلانے والے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیا تھا، جس کے تحت بھارت کے دیگر شہروں کے لوگوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں جائیدادیں حاصل کرنے اور مستقبل رہائش کی اجازت حاصل ہوگئی ہے۔آرٹیکل 370 کے باعث بھارت کی پارلیمنٹ کے پاس دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ ریاست میں قوانین نافذ کرنے کے محدود اختیارات تھے۔بی جے پی کے اس فیصلے کو کشمیری عوام، عالمی تنظیموں اور ہندو قوم پرست حکمران جماعت کے ناقدین نے مسلم اکثریتی خطے کو ہندو آبادکاروں کے ذریعے شناخت تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔بعد ازاں بھارتی سپریم کورٹ میں 20 سے زائد درخواستیں دائر کردی گئی تھیں، جس میں بھارتی حکومت کی جانب سے اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے لیے کیے گئے فیصلے کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھایا تھا۔2 اگست 2023  سے روزانہ کی بنیاد پر شروع پ ہونے والی سماعت  میں درخواست گزار نے عدالت میں دائر درخواست میں دعوی کیا تھا کہ آئینی شقوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔یاد رہے کہ اس معاملے میں درخواست گزاروں نے جموں و کشمیر تنظیم نو قانون کو بھی چیلنج کیا تھا جس نے ریاست کو جموں و کشمیر اور لداخ کے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا تھا۔