یہ کہنا  مشکل ہے کہ  آرٹیکل 370   کو کبھی بھی منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔بھارتی سپریم کورٹ
انسٹرومنٹ اف ایکسیشن1947 کے بعد جموں وکشمیر کی خودمختاری کا کوئی نشان باقی نہیں رہا
آرٹیکل 370  کی منسوخی کے خلاف مقدمے میں جموں و کشمیر کے سینئر ایڈوکیٹ ظفر شاہ کے دلائل شروع

نئی دہلی(ویب نیوز )

بھارتی سپریم کورٹ  نے آرٹیکل 370  کی منسوخی کے خلاف مقدمے کی  سماعت کے دوران کہا ہے کہ  یہ کہنا  مشکل ہے کہ  آرٹیکل 370   کو کبھی بھی منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ اکتوبر 1947 میں سابق شاہی ریاست کے الحاق کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کی خودمختاری کو ہندوستان کے حوالے کر دیا گیا تھا۔جموں اور کشمیر کی خودمختاری مکمل طور پر بھارتی یونین میں ضم کر دی گئی، آئین میں مختلف پہلووں کی موجودگی کے باوجود یونین )اف انڈیا( کی خودمختاری اور سالمیت متاثر نہیں ہوتی ہے۔بھارتی سپریم کورٹ  نے آرٹیکل 370  کی منسوخی کے خلاف مقدمے کی  سماعت   ہفتے کو بھی جاری رہے گی ۔چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں پر مشتمل  بنچ  میں جسٹس ایس کے کول، سنجیو کھنہ،بی آر گاوائی اور سوریہ کانت شامل ہیں۔کے پی آئی  کے مطابق  5 اگست 2019 کو بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دلانے والے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیا تھا، جس کے تحت بھارت کے دیگر شہروں کے لوگوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں جائیدادیں حاصل کرنے اور مستقبل رہائش کی اجازت حاصل ہوگئی ہے۔جموں کشمیر کے تین  بھارتی ممبران پارلیمنٹ جسٹس (ر) حسنین مسعودی، فاروق عبداللہ اور محمد اکبر لون نے سپریم کورٹ میں آرٹیکل 370  کی منسوخی  کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔انڈین آرمی اور انڈین فضائیہ کے سابق افسروں اور سماجی رضاکاروں کی طرف سے سپریم کورٹ میں داخل  آئینی درخواستوں میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیاکشمیریوں کی مرضی کے بغیر پارلیمنٹ کو یکطرفہ طور ایسا فیصلہ لینے کا اختیار تھا یا نہیں؟ بعد میں اس ضمن میں مزید کئی درخواستیں داخل کی گئیں جن میں استدعا کی گئی کہ اس فیصلے کو غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دیا جائے ۔  گزشتہ روز بنچ نے عرضی گزاروں میں سے ایک کی نمائندگی کرنے والے جموں و کشمیر کے سینئر ایڈوکیٹ ظفر شاہ کو بتایا کہ آئین کا آرٹیکل 1 کہتا ہے کہ ہندوستان – ‘ریاستوں کا اتحاد ہے اوراس میں ریاست جموں و کشمیر بھی شامل ہے، اور اس لحاظ سے )ہندوستان کی( خودمختاری مکمل ہے۔چیف جسٹس نے کہا: ہندوستان کے ساتھ خودمختاری کی کوئی بھی مشروط خودسپردگی نہیں۔ خودمختاری صحیح معنوںمیں ہندوستان کے یونین کے ساتھ متصل ہو جانے کے بعد صرف قانون سازی کے لیے پابندی کا اطالق باقی رہتا ہے، جوپارلیمنٹ کے اختیار میں ہے۔ چند پابندیاں جو باقی رہ جاتی ہیںچیف جسٹس نے کہا کہ 1972 کی آئینی درخواست کے آرڈر میں ایک بہت ہی دلچسپ شق ہے، جو 1972 میں ائی، جب آرٹیکل 248 میں ریاست جموں و کشمیر کے حوالہ سے ترمیم کی گئی تھی اور 248 متبادل بنا )دیگر تمام ریاستوں کوقانون سازی کے اختیارات فراہم کرنے میں(۔ چیف جسٹس نے کہا، اب اس )ارٹیکل( کی رو سے پارلیمنٹ کو ہندوستان کی خودمختاری اور علاقائی  سالمیت کو مسترد کرنے، اس کی سالمیت پر سوال اٹھانے یا اس میں خلل ڈالنے والی سرگرمیوںکی روک تھام کے لئے کوئی بھی قانون بنانے کا خصوصی اختیار ہے۔ لہذا، 1972 کا حکم یہ بناتا ہے کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ خودمختاری صرف یونین اف انڈیا کو حاصل ہے۔ اس لیے انسٹرومنٹ اف ایکسیشن )1947 کے بعدخودمختاری کا کوئی نشان باقی نہیں رہا۔بنچ نے کہا کہ آرٹیکل 248 اب بھی لاگو  ہے، جیسا کہ یہ 5 اگست 2019 سے پہلے جموں و کشمیر پر لاگو  ہوتا تھا اوراس میں ہندوستان کی خودمختاری کی بالکل واضح قبولیت شامل ہے۔ جسٹس کھنہ نے شاہ سے استفسار کیا کون سا ائین برتر ہے، ہندوستان کا یا جموں و کشمیر کآائین؟  ایڈوکیٹ ظفر شاہ نے جواب دیا، یقینا، ہندوستانی آئین۔واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سے سپریم کورٹ میں دفعہ 370کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت شروع ہوئی ۔ گزشتہ  روزجموں و کشمیر کے سینئر ایڈوکیٹ ظفر شاہ نے اپنے دلائی  سپریم کورٹ میں دیے  قبل ازیں سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے بھی اپنے اعتراضات سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیے۔ قابل ذکر ہے کہ پانچ اگست 2019کو بی جے پی حکومت نے جموں و کشمیر تنظیم نو قانون پارلیمنٹ میں پاس کرکے جموں وکشمیر کو حاصل خصوصی ائینی حیثیت  والے قانون 370کو منسوخ کر دیا۔ ارٹیکل کی منسوخی کے بعد کئی افراد، سیاسی تنظیموں نے اس کی کے خالف سپریم کورٹ میں عرضیاں دائر کیں۔ قریب چار برس تک اس معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کرنے کے بعد سپریم کورٹ نے دو اگست 2023سے سبھی عرضیوں کی سماعت کا اغاز کیا۔