نئی دہلی کے قریب مذہبی جھڑپیں اور پرتشدد حملے، ہزاروں مسلمان ہجرت پر مجبور

نئی دہلی(ویب  نیوز)

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے قریب مذہبی جھڑپوں اور فسادات سے خوفزدہ ہوکر تقریبا 3 ہزار سے زائد غریب مسلمان کاروباری مرکز چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہوگئے۔غیرملکی خبر رساں ایجنسی  کے مطابق رہائشیوں، پولیس اور کمیونٹی گروپ نے بتایا کہ ہندو مسلم جھڑپوں کے درمیان اپنے تحفظ کے خاطر 3 ہزار سے زیادہ غریب مسلمان اس ماہ نئی دہلی کے باہر ایک کاروباری مرکز سے فرار گئے ہیں۔بھارتی دارالحکومت سے ملحقہ ریاست ہریانہ کے نوح اور گروگرام اضلاع میں ہونے والی جھڑپوں میں سات افراد کی ہلاکت کے ایک ہفتہ سے زائد عرصے کے بعد دو بڑی کچی آبادیوں میں مسلمانوں کی ملکیت، چلائی جانے والی دکانوں، جھونپڑیوں اور ان کے گھروں کو تالے لگا دیے گئے۔رپورٹ کے مطابق یہ تشدد 31 جولائی کو حکمران ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ نظریاتی طور پر منسلک گروپوں کی طرف سے منظم ایک ہندو مذہبی جلوس کو نشانہ بنانے اور جوابی کارروائی میں ایک مسجد پر حملہ کرنے کے بعد شروع ہوا جہاں پولیس نے 48 گھنٹوں میں بدامنی پر قابو پالیا۔لیکن مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے معمولی حملے کئی دنوں سے جاری ہیں، ان خاندانوں کو خوفزدہ کر رہے ہیں جو روزی روٹی کی تلاش میں گروگرام کے نئے شہری مرکز چلے گئے تھے۔عینی شاہدین نے بتایا کہ کچی آبادی والے اضلاع میں دو چھوٹے مسلم مزارات پر پتھرا، آتشزدگی اور توڑ پھوڑ نے سینکڑوں مسلمان خاندانوں کو اپنے ایک کمرے کے مکانات چھوڑنے اور باہر جانے سے پہلے ٹرین اسٹیشن پر پناہ لینے پر مجبور کیا۔جمعیت علمائے ہند کے گروگرام کے صدر مفتی محمد سلیم نے بتایا کہ تشدد کے بعد اندازے کے مطابق 3 ہزار سے زیادہ مسلمان ضلع چھوڑ چکے ہیں۔مشرقی بھارت میں اپنے گاں سے بھاگنے والے چار مسلمان دکانداروں نے بتایا کہ انتہاپسند ہندو گروپوں کے ارکان نے ان سے ان کے کاروبار اور خاندانوں کے بارے میں پوچھ گچھ کی تھی۔بھارت کے اکثریتی ہندوں اور اقلیتی مسلمانوں کے درمیان گائے کا گوشت کھانے اور مسلمانوں کے ساتھ بین المذاہب شادیوں جیسے مسائل پر کشیدگی بڑھ گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہندو کارکنوں کی جانب سے انہیں زیادہ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔بی جے پی رہنماں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی دونوں برادریوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں اور جب سے وہ برسراقتدار آئے ہیں کم ہی ہوئے ہیں۔گروگرام میں گوگل، امریکن ایکسپریس، ڈیل، سام سنگ، ارنسٹ اینڈ ینگ اور ڈیلوئٹ جیسی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تشدد اور خلل کے خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ہریانہ پولیس نے کہا کہ انہوں نے تشدد کے سلسلے میں دونوں برادریوں کے 200 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا اور کچھ مسلمان جو بھاگ گئے تھے وہ واپس آنا شروع ہو گئے ہیں۔ہریانہ کی بی جے پی حکومت کے وزیر داخلہ انیل وج نے کہا کہ انہیں کچھ مسلمانوں کے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں لیکن اب صورتحال مکمل طور پر قابو میں ہے۔انہوں نے بتایا کہ کوئی بھی انہیں وہاں سے جانے کو نہیں کہہ رہا اور ہم تمام فرقہ وارانہ حساس علاقوں میں مکمل سیکورٹی فراہم کر رہے ہیں