سائفر اصلی حالت میں آج بھی دفتر خارجہ میں موجود ہے، کور کمیٹی تحریک انصاف
عمران خان کے خلاف اٹک جیل میں سائفر مقدمے کی سماعت کسی طور قبول نہ کرنے کا فیصلہ
سائفر کو وفاقی کابینہ نے اپنے اختیارات کے تحت ڈی کلاسیفائی کیا
سائفر کو وفاقی کابینہ نے اپنے اختیارات کے تحت ڈی کلاسیفائی کیا ،
ڈی کلاسیفائی کیے جانے کے بعد، آفیشل سیکرٹس ایکٹ کو لاگو نہیں کیا جا سکتا، جس سے یہ مقدمہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے اعلامیہ
اسلام آباد (ویب نیوز)
پاکستان تحریک انصاف کی کورکمیٹی کے بدھ کو اجلاس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ چئیرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف اٹک جیل میں سائفر مقدمے کی سماعت کسی طور قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔سائفر کو وفاقی کابینہ نے اپنے اختیارات کے تحت ڈی کلاسیفائی کیا ، ڈی کلاسیفائی کیے جانے کے بعد، آفیشل سیکرٹس ایکٹ کو لاگو نہیں کیا جا سکتا، جس سے یہ مقدمہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ کورکمیٹی نے کہا ہے کہ چئیرمین تحریک انصاف کو فئیر ٹرائل کے بنیادی حق سے محروم رکھا جارہا ہے ۔ جیل میں ٹرائل کے خلاف بھرپور قانونی چارہ جوئی کی حکمت عملی پر بھی تفصیلی مشاورت کی گئی ۔واضح کیا گیا ہے کہ چئیرمین تحریک انصاف عمران خان کو قوم کی حقیقی آزادی پر دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے ایبسیلیوٹلی ناٹ کہنے کی سزا دی جا رہی ہے ، عمران خان کا جیل میں خفیہ ٹرائل واضح کرتا ہے کہ حکومت قوم سے کچھ چھپانے کیلئے کوشاں ہے ،اپنے عزائم و اہداف کو پوشیدہ رکھنے کیلئے سابق وزیر اعظم کو آزادانہ اور منصفانہ ٹرائل سے محروم کیا جا رہا ہے ، تحریک انصاف کی قانونی ٹیم جیل میں کیے جانے والے خفیہ ٹرائل کو عدالت میں چیلنج کر چکی ہے، چاہتے ہیں کہ معزز عدالت فوری طور پر اس معاملے کی سماعت کرے اور عمران خان کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے سلسلے کو بند کرنے کے احکامات صادر کرے۔پارٹی وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس کے ذریعے نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی فوری طور پر ترک کیا جائے،سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر خارجہ پرآفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانے کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں ، حقیقت ہے کہ سائفر اپنی اصلی حالت میں آج بھی دفتر خارجہ میں موجود ہے، قواعد کے مطابق سائفر کبھی دفتر خارجہ سے باہر نہیں گیاجس کی تصدیق سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے نے بھی کی ہے، یہ حقیقت اس الزام کو بے بنیاد ثابت کرتی ہے کہ سابق وزیر اعظم سے یہ سائفر کہیں کھو گیا،سائفر کو وفاقی کابینہ نے اپنے اختیارات کے تحت ڈی کلاسیفائی کیا ، ڈی کلاسیفائی کیے جانے کے بعد، آفیشل سیکرٹس ایکٹ کو لاگو نہیں کیا جا سکتا، جس سے یہ مقدمہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے، کور کمیٹی تحریک انصافسائفر کے متن کیمنظر عام پر آ نے کے بعد یہ حقیقت بھی پوری طرح آشکار ہو چکی ہے کہ پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی گئی ۔کور کمیٹی تحریک انصاف نے واضح کیا ہے کہ وفاقی کابینہ ہی نہیں بلکہ قومی سلامتی کمیٹی نے بھی سائفر کے اس متن کی بنیاد پر ایک احتجاجی مراسلے(ڈپلومیٹک ڈیمارش)کی منظوری دی، پاکستان کے داخلی معاملات میں صریح مداخلت کے خلاف موقف اختیار کرنے پر کیسے پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کو تعزیب کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے،یہ مقدمہ چئیرمین عمران خان کے حوصلے کو توڑنے اور تحریک انصاف کو کچلنے کے جاری سلسلے کی کڑی ہے،عمران خان کے عزم و ہمت میں دراڑ ڈالنے یا تحریک انصاف کو سیاسی طور پر غیر متعلق کرنے کی یہ کوششیں کسی صورت کامیاب نہ ہوں گی، اجلاس میں تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویز الہی کے جیل سے بھجوائے گئے پیغام کی زبردست تحسین کی گئی ۔چوہدری پرویز الہی نے پیغام بھجوایا ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ تھے، ہیں اور آخری دم تک رہیں گے، صدر تحریک انصاف نے اپنے صاحبزادے چوہدری مونس الہی کو واضح ہدایات دی ہیں کہ کسی خفیہ سمجھوتے کا حصہ نہیں بنیں گے، صدر تحریک انصاف چوہدری پرویز الہی کی ہمت وحوصلے کو نہایت قدر و قیمت کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کے جرات مندانہ اصولی موقف کی بے حس تحسین کرتے ہیں۔اجلاس میں قومی تشخص کے حامل تحقیقاتی صحافی ارشد شریف شہید کے قتل کی تحقیقات میں موثر پیش رفت نہ کیے جانے پر بھی شدید تشویش کا اظہارکیا گیا۔ملک کے نامور صحافی عمران ریاض کی تین ماہ سے زائد عرصے پر محیط جبری گمشدگی اور عدم بازیابی کی بھی شدید مذمت کی گئی ۔وفاقی حکومت سے ارشدشریف شہید کے بہیمانہ قتل کی تحقیقات فوری مکمل کرنے اور ذمہ داران کو تعین کر کے انہیں قو م کے سامنے بے نقاب کرنے کا پر زور مطالبہ کیا گیا ہے ۔ عمران ریاض خان کی فوری بازیابی اور ان کی صحت و سلامتی کے حوالے سے ان کے اہلِ خانہ کو بالخصوص اور قوم کو بالعموم معلومات فراہم کرنے کی ضرورت پر بھی زوردیا گیا۔اجلاس میںجیلوں میں قید قائدین اور خصوصا خواتین کارکنان کے عزم و ہمت کی بھی زبردست تحسین کی گئی ۔عدالتِ عظمی سے ریاستی مشینری کی جانب سے روا رکھی جانے والی لاقانونیت کے خلاف موثر اقدام کرتے ہوئے زیرِ حراست کارکنان خصوصا خواتین کارکنان کے حقوق کے تحفظ کی استدعا کی گئی ہے ۔اجلاس میں تحریک انصاف سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ کی سندھ ہائیکورٹ کے باہر سے گرفتاری کی بھی شدید مذمت کی گئی ۔سینیٹر عون عباس بپی ، بیرسٹر حسان نیازی اور حلیم عادل شیخ سمیت غیر قانونی طور پر حراست میں لیے گئے یا جبری طور پر لاپتہ سیاسی کارکنان کی فوری بازیابی و رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے