• بھارتی سپریم کورٹ  میںآرٹیکل 370  کی منسوخی کے خلاف مقدمے کا فیصلہ محفوظ کر لیا
  • بھارتی سپریم کورٹ میںمقدمے کی سماعت دو اگست سے روزانہ کی بنیاد پر5 ستمبر تک جاری رہی
  • عدالت مقدمے میں جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرنے کا حکم جاری کرسکتی ہے ماہرین

نئی دہلی (ویب نیوز)

بھارتی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370  کی منسوخی کے خلاف مقدمے کی سماعت مکمل کر لی ہے اور فیصلہ محفوظ کر لیا ہے ۔ آرٹیکل 370  کی منسوخی کے خلاف مقدمے کی سماعت دو اگست سے روزانہ کی بنیاد پر5 ستمبر تک جاری رہی ۔بھارتی اخبار دی ہندو کے مطابق  سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370  کی منسوخی کے خلاف مقدمے کی سماعت مکمل کر لی ہے اور فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ مقدمے میںبھارتی  حکومت کی نمایندگی اٹارنی جنرل اور سالیسٹرجنرل نے کی تھی ۔ بھارتی وکیل کپل سبھال نے آرٹیکل 370  کی منسوخی   کے قانونی پہلووں پر  دلائل دیے ہیں ۔کپل سبھال نے  عدالت کو بتایا کہ  اصل سوال یہ ہے کہ : کیا پارلیمنٹ آئین ساز اسمبلی کی رضامندی کے بغیر آرٹیکل 370 کو منسوخ کر سکتی تھی؟یاد رہے   5 اگست 2019 کو بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دلانے والے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیا تھا، جس کے تحت بھارت کے دیگر شہروں کے لوگوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں جائیدادیں حاصل کرنے اور مستقبل رہائش کی اجازت حاصل ہوگئی ہے۔جموں کشمیر کے تین  بھارتی ممبران پارلیمنٹ جسٹس (ر) حسنین مسعودی، فاروق عبداللہ اور محمد اکبر لون نے سپریم کورٹ میں آرٹیکل 370  کی منسوخی  کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔انڈین آرمی اور انڈین فضائیہ کے سابق افسروں اور سماجی رضاکاروں کی طرف سے سپریم کورٹ میں داخل  آئینی درخواستوں میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیاکشمیریوں کی مرضی کے بغیر پارلیمنٹ کو یکطرفہ طور ایسا فیصلہ لینے کا اختیار تھا یا نہیں؟ بعد میں اس ضمن میں مزید کئی درخواستیں داخل کی گئیں جن میں استدعا کی گئی کہ اس فیصلے کو غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دیا جائے کیونکہ اس میں کشمیریوں کی رائے شامل نہیں تھی۔ بی بی سی کے مطابق  آرٹیکل 370  کے خاتمے کے چار سال بعد ان درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہوا تو یہ معاملہ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بینچ کو منتقل کیا گیا۔ اسی آئینی بینچ نیدو اگست کی  سماعت کے دوران مودی حکومت کے اس بیان حلفی کو بحث سے خارج قرار دیا  تھاجس میں دعوی کیا گیا تھا کہ دفعہ 370 ہٹنے سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہوا اور کشمیر میں ترقی اور خوشحالی کا دور شروع ہوا۔ عدالت نے کہا کہ وہ اس معاملہ کے آئینی اور قانونی جواز پر بحث کو سنے گی نہ کہ اس کے سیاسی نتائج پر۔سپریم کورٹ پہلے ہی یہ واضح کر چکی ہے کہ یہ معاملہ کسی بڑے یا لارجر بینچ کو ریفر نہیں ہو سکتا، عدالتِ عظمی نے مودی حکومت کے اس بیان حلفی کو بحث سے خارج کر دیا تھا جس کے مطابق دفعہ 370 کے خاتمہ سے کشمیر میں دہشت گردی ختم ہوئی ہے اور امن اور ترقی کا دور شروع ہو گیا ہے۔درخواست گزاروں کا استدلال ہے کہ جب دفعہ 370 کو ختم کرنے کا فیصلہ لیا گیا تب جموں کشمیر میں کوئی عوامی حکومت نہیں تھی۔ واضح رہے 2018 میں ہی بی جے پی نے محبوبہ مفتی کی قیادت والی حکومت سے حمایت واپس لے لی تھی اور جموں کشمیر میں صدارتی راج نافذ کر دیا تھا۔ یہاں کے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ کیس میں تاخیر کا امکان نہیں ہے کیونکہ عدالت پہلے ہی واضح کر چکی ہے کہ یہ کیس کسی بڑے بینچ کو ریفر نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے پانچ رکنی آئینی بینچ ہی سنے گا۔ بھارتی پارلیمنٹ میں نیشنل کانفرنس  کے رکن   جسٹس (ر)مسعودی نے  کہا ہے کہ  ہمارے دلائل ٹھوس ہیں۔ ہم اسی آئین کا حوالہ دے رہے ہیں جس کے تحت یہ فیصلہ لینے کا دعوی کیا گیا۔ بحث طویل ہوسکتی ہے مگر ہم کو ملک کی عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے۔ بی بی سی کے مطابق تاہم غیرجانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ دفعہ 370 کو آئین سے ہٹانا بی جے پی کے اہم ترین نعروں میں شامل رہا ہے اور اس کے خاتمے کو بڑے پیمانے پر حکومت کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا جا چکا ہے۔تجزیہ نگار ہارون ریشی کہتے ہیں کہ عدلیہ پر حکومت کا اثر تو نہیں ہونا چاہیے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ کسی تکنیکی پہلو پر یہ سماعت تاخیر کا شکار بھی ہو سکتی ہے، کیونکہ اگلے سال کے الیکشن میں نریندر مودی دوبارہ کامیابی کی توقع کر رہے ہیں، ایسے اتنے بڑے فیصلے کی عدالت میں ہار ایک سیاسی دھچکہ بھی ہو سکتا ہے۔ دریں اثنا ء خیال کیا جاتا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370  کی منسوخی کے خلاف مقدمے میں جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرنے کا حکم جاری کرسکتی ہے