سپریم کورٹ میں مفروضوں پرتونہیں چلیںگے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
کیس سننا ہمارا کام ہے ، کیس بنا کر سنناہماراکام نہیں
کسی کو بھرتی کرنا حکومت کااختیار ہے حکومت کہہ سکتی ہے کہ معاشی بحران ہے،دوران سماعت ریمارکس
اسلام آباد(ویب نیوز)
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہم سپریم کورٹ میں مفروضوں پرتونہیں چلیںگے، کیس سننا ہمارا کام ہے ، کیس بنا کر سنناہماراکام نہیں۔سپریم کورٹ میں وکلاء کو اتنی لچک نہیں دیں گے کہ یہ کتاب اٹھائو وہ کتاب اٹھائو۔ کسی کو بھرتی کرنا حکومت کااختیار ہے حکومت کہہ سکتی ہے کہ معاشی بحران ہے ہم بھرتی نہیں کرتے، زبردستی حکومت کو نہیں کہہ سکتے کہ درخواست گزار کو نوکری پر رکھیں۔اگر درخواست گزار کے مقابلہ میں کسی کم نمبروں والے کوبھرتی کیا جاتا ہے تو پھر درخواست گزار متاثرہ فریق ہونے کی وجہ سے عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔ جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ کسی بھی عدالت کااختیار نہیں ہے کہ کسی سیٹ کو پرُ کرنے کے لئے حکومت کو مجبور کرے۔جبکہ ضمانت قبل ازگرفتاری کے ایک کیس میںچیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے درخواست گزار کو ہدایت کی کہ درخواست واپس لے لیں جاکر مدعا علیہ کے پائوں پکڑیں ویسے بھی وہ آپ کی رشتہ دار ہیں، میرٹ پر آرڈر ہو گاتوآپ کے لئے مسئلہ ہو گا، آپ کے مفاد میں نہیں ہوگا، گھر کا معاملہ ہے گھر تک رکھیں دنیا بھر میں کیوں رسوائی کروائیں گے۔ ہم جاہل ہیں کہ وکیل ہمیں بتانے آئے ہیں کہ ہم ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میںجسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ نے جمعرات کے روز مختلف نوعیت کے 15کیسز کی سماعت کی۔ عدالت نے جلال پورپیروالا کے رہائشی محمد بلال کی ضمانت قبل ازگرفتاری پر سماعت کی۔ دوران سماعت درخواست گزار اورمدعا علیہ جو کہ درخواست گزار کی چچی تھی وہ بھی عدالت میں موجود تھی۔ سماعت کے آغاز پر رخواست گزار کے وکیل ن محمد عثمان مرزا نے بتایا کہ زمین کا تنازعہ ہے اور جب کی بھی درخواست گزار زمین کا تقاضہ کرتا ہے تو مدعا علیہ لڑائی پر اترآتے ہیں۔ ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ درخواست گزار نے اپنی چچی کو بالوں سے پکڑ کر کھینچا اوراس کا بازو توڑ دیا۔چیف جسٹس نے استفار کیا کہ پنجاب پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ سے کوئی وکیل کمرہ عدالت میںموجو د ہے توایک وکیل سامنے آئے ۔ چیف جسٹس وکیل کو ہدایت کی کہ ہم ان کے کیس کی سماعت ملتوی کررہے ہیں ان کو باہر لے جائیں اور سمجھائیں شاید مسئلہ حل ہوجائے۔ تاہم جب وقفہ کے بعد دوبارہ کیس پکارا گیا تووکیل نے آکر بتایا کہ مسئلہ حل نہیں ہوا۔ جبکہ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے مئوکل مدعاعلیہ کے گھر جاکراُس سے معافی مانگتاچاہتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست گزار کے وکیل کوہدایت کی کہ وہ درخواست واپس لے لیں اور اپنے مئوکل سے کہیں کہ جاکر اپنی چچی کے پائوں پکڑیں اور معافی مانگیں، میرٹ پر آرڈر ہو گا تومسئلہ ہو گا، گھر کا معاملہ ہے گھر تک رکھیں، دنیا بھر میں کیوں رسوائی کروائیں گے۔ چیف جسٹس نے اپنے حکم میں لکھوایا کہ درخواست گزاراور مدعا علیہ کمرہ عدالت میں موجود تھے اوردرخواست زورنہ دینے کی بنا پر خارج کی جاتی ہے۔ جبکہ عدالت نے احد نواز کی جانب سے حکومت خیبر پختونخوا بذریعہ سیکرٹری لوگل کونسل بورڑپشاور ودیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل شاہد قیوم نے عدالت کو بتایا کہ اس کے مئوکل نے پبلک ریلشنز آفیسر کی نشست کے لئے اپلائی کیا اورٹیسٹ دیا تاہم پہلے نمبر پر آنے امیدوار نے جوائننگ نہیں دی اس لئے مجھے بھرتی کیا جائے۔ دوران سماعت عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ کسی اور کوبھرتی کیا گیا کہ نہیں ؟ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ کسی اورکو بھرتی نہیں کیا گیا تاہم اس کے مئوکل نے اپلائی کیا تھا اورٹیسٹ دیا تھا اس لئے اسے بھرتی کیا جائے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ انہوں نے کسی کو بھرتی ہی نہیں کیا، یہ اختیاراحکومت کا ہے ویسے بھی معاشی بحران ہے ، ادارہ کہہ سکتا ہے ہم بھرتی نہیں کرتے، ہم زبردستی سرکار کو نہیں کہہ سکتے کہ آپ کو رکھیں ، اگر آپ کے خلاف کسی اورکواپوائنٹ کریں توپھر ٹھیک ہے اعتراض بنتا ہے، بعد والے کو پہلے دیں پھر آپ کہہ سکتے ہیں کہ میراحق متاثر ہوا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ حکومت اس سیٹ کو پرُ نہیں کرنا چاہتی، آپ کے کیس میں حکومت سیٹ کو پرُ نہیں کرنا چاہتی، کسی بھی عدالت کا اختیار نہیں کہ کسی سیٹ کو پرُ کرنے کے لئے حکومت کو مجبور کرے۔ چیف جسٹس نے حکم لکھواتے ہوئے کہا کہ اگردرخواست گزار کے مقابلہ میں کم نمبروں والے کر بھرتی کیا جائے توپھر درخواست گزارمعاملہ کو چیلنج کرسکتا ہے۔ عدالت نے درخواست خارج کردی۔ جبکہ عدالت نے پراپرٹی کے ایک کیس میں درخواست گزار محمد اایاز کے وکیل محمدشعیب خان کی جانب سے عدالتی وقت ضائع کرنے اور عدالت کو گمراہ کرنے پر پانچ ہزارروپے جرمانہ عائد کردیا۔ عدالت نے درخواست گزار کو ہدایت کی کہ وہ خود اپنے اوپر جرمانہ عائد کریں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 10ہزار ٹھیک ہے تواس پر وکیل کا کہنا تھا کہ نہیں پانچ ہزار کردیں۔ اس پر عدالت نے انہیں پانچ ہزار روپے جرمانہ کرتے ہوئے کہ یہ جرمانہ اپنی مرضی کے خیراتی ادارے میں جمع کرواکر رسید جمع کروائیں وگرنہ آپ کی اپیل خارج کردی جائے گی۔ جبکہ وکیل نے عدالتی وقت ضائع کرنے اورعدالت کو گمراہ کرنے پر معذرت بھی کی۔ عدالت نے وکیل کو کیس کی تیاری کے لئے ایک ماہ کا وقت دے دیا۔جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک اور پراپرٹی کے کیس میںسپریم کورٹ کے سینئر وکیل سید محمد کلیم خورشید سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم سپریم کورٹ میں مفروضوں پرتونہیں چلیں گے، کیس سننا ہماراکام ہے، کیس بنا کر سننا ہماراکام نہیں۔ عدالت نے سید محمد کلیم خورشید کے مئوکل حکیم رضا اللہ عباس کی درخواست خارج کردی۔