وفاقی یا صوبائی حکومت ٹیکس لگاسکتی ہے، آئین کو تواووررول نہیں کرسکتے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
کنٹونمٹ کو ٹیکس لگانے کااختیار حاصل ہے یہ دکھا دیں،چیف جسٹس کا کنٹونمنٹ بورڈ کے وکیل سے استفسار
آئین کے آرٹیکل 163کو آئین کے آرٹیکل 140-Aکے ساتھ ملا کر پڑھیں تو یہ کنٹومنٹ کو ٹیکس لگانے کا اختیار دیتا ہے،وکیل
آئین کاآرٹیکل 7کہتا ہے کہ مقامی حکومت ٹیکس لگاسکتی ہے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل
ہمارے پاس ڈسپیوٹ یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 163کے تحت کوئی لوکل گورنمٹ ٹیکس نہیں لگاسکتی،جسٹس اطہر من اللہ
عدالت نے کیس کی مزید سماعت جمعہ13اکتوبر تک ملتوی کردی
اسلام آباد(ویب نیوز)
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت ٹیکس لگاسکتی ہے، ہم پاکستان کے آئین کو تواووررول نہیں کرسکتے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ قومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلی ٹیکس نہیں لگاسکتی بلکہ ہم کہہ رہے ہیں کہ کسی اور کو ٹیکس لگانے کا اختیار نہیں دے سکتی، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی ٹیکس لگاسکتی ہیں، لوجیکل بنیادوں پر دیکھا جائے تو کیوں کنٹونمنٹ کو ٹیکس لگانا چاہیے ،صوبائی حکومت کہتی ہے کہ ڈاکٹروں پر پانچ ہزار ٹیکس لگ گیا، وکیلوں پر اتنا ٹیکس لگ گیا تومقامی حکومت اس کو اکٹھا کرسکتی ہے۔ یہ اختیار کسی او رکو نہیں دے سکتے۔جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان نے درخواست گزار کنٹونمنٹ بورڈ کراچی کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 7کے تحت وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور مقامی حکومت ٹیکس نافذ کرسکتی ہے جبکہ عدالت نے اپنے حکم میں قراردیا کہ27-Aکے تحت اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری ہونا چاہیے تھا جو کہ نہیں ہوا، اب معاونت کے لئے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت 13اکتوبر تک ملتوی کردی۔ جمعرات کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کنٹونمنٹ فیصل اور دیگر اورکنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کی جانب سے حبیب بینک لمیٹڈ کراچی اوردیگر، کے اینڈ این فوڈز پرائیویٹ لمیٹڈ اوردیگر اور ایم اس وینس پاکستان پرائیویٹ لمیٹڈ اوردیگر کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواست گزاروں نے سندھ ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کیا گیا تھا جس میں سندھ ہائی کورٹ کنٹونمنٹ بورڈ کی جانب سے مدعا علیہان پر لگائے جانے والے ٹیکس کو غیر قانونی قراردیا گیا تھا۔ دوران سماعت درخواست گزاروں کی جانب سے محمد عمر ریاض ایڈوویکٹ، کے اینڈ این فوڈز کی جانب سے مس شائستہ الطاف اور وفاقی کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان پیش ہوئے جبکہ حکومت سندھ کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل سندھ بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ رجسٹری کراچی سے پیش ہوئے۔ درخواست گزار کے وکیل محمد عمر ریاض کا کہنا تھا کہ کنٹونمنٹ ایکٹ 1924کے تحت کنٹونمنٹ بورڈ کی جانب سے مدعا علیہان پر ٹیکس کا نفاذ کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا آئین کا آرٹیکل 163مقامی حکومت کو ٹیکس کے نفاذ کی اجازت دیتا ہے۔ چیف جسٹس نے عدالتی وقفہ سے قبل کنٹونمٹ بورڈ کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا یہ نہ ہو کہ ہمارا حکم آگیا تو سارے لگائے ہوئے ٹیکسز ہی اُڑ جائیں۔ عدالتی وقفہ کے بعد چیف جسٹس نے کنٹونمنٹ بورڈ کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کنٹونمٹ کو ٹیکس لگانے کااختیار حاصل ہے یہ دکھا دیں، کیا انکم ٹیکس افسر یا ایف بی آر کو ٹیکس کم کرنے یا زیادہ کرنے کااختیار ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت ٹیکس لگاسکتی ہے، ہم پاکستان کے آئین کو تواووررول نہیں کرسکتے۔ دورران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمن نے روسٹرم پر آکر بتایا کہ وفاقی حکومت کوکیس میں نوٹس جاری نہیں کیا گیا تاہم ایک درخواست میں وفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے اس لئے وہ پیش ہورہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ کنٹونمنٹ بورڈ کی طرف سے پیش ہورہے ہیں اس لئے آپ ان کی حمایت کررہے ہیں یاآئین کی وجہ سے سپورٹ کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ قومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلی ٹیکس نہیں لگاسکتی بلکہ ہم کہہ رہے ہیں کہ کسی اور کو ٹیکس لگانے کا اختیار نہیں دے سکتی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی ٹیکس لگاسکتی ہیں، لوجیکل بنیادوں پر دیکھا جائے تو کیوں کنٹونمنٹ کو ٹیکس لگانا چاہیے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جہاں سروسز فراہم کررہے ہیں وہاں ٹیکس لگاسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے وکیل سے سوال کیا کہ پروفیشن پر ٹیکس کون لگاسکتا ہے ، وفاق یا صوبہ۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ صوبہ۔ دوران سماعت چیف جسٹس وکیل کو بار، بار اکورڈنگ ٹو مائی ہمبل ریکویسٹ کہنے سے روک دیا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کمپنی پر ٹیکس کون لگائے گا۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ صوبہ۔اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ کمپنی عدالت میں چلی جائے کہ ہمارے اوپر تو وفاقی ٹیکس کا اطلاق ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں رہیں اور کنٹونمٹ میں نہ جائیں۔ وکیل کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 163کو آئین کے آرٹیکل 140-Aکے ساتھ ملا کر پڑھیں تو یہ کنٹومنٹ کو ٹیکس لگانے کا اختیار دیتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کہتی ہے کہ ڈاکٹروں پر پانچ ہزار ٹیکس لگ گیا، وکیلوں پر اتنا ٹیکس لگ گیا تومقامی حکومت اس کو اکٹھا کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کنٹومنٹ بورڈ مقامی حکومت تو ہے اس پر تنازع نہیں لیکن ٹیکس پر آجائیں۔ وکیل نے کہا کہ میں نے کافی دلائل دے لئے ہیں، اب دیگر مدعا علیہان کے دلائل سن لیں میں پھر ان کا جواب دے دوں گا۔ اس پر چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آیئے چوہدری صاحب! سار ابوجھ آپ کے چوڑے کندھوں پر ڈال دیا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان کا کہنا تھا کہ وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کو ٹیکس لگانے کااختیار حاصل ہے۔ عامر رحمان کا کہنا تھا کہ آئین کاآرٹیکل 7کہتا ہے کہ مقامی حکومت ٹیکس لگاسکتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہاں تک کہ وفاقی حکومت بھی ٹیکس نہیں لگاسکتی بلکہ قومی اسمبلی ٹیکس لگاسکتی ہے۔ عامر رحمان کا کہنا تھا کہ لوکل حکومت منتخب ہے اوروہ ٹیکس لگاسکتی ہے۔ عامر رحمان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 7کے تحت صوبائی حکومت لوکل حکومت کوٹیکس لگانے کا اختیاردیتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ قانون بنا لیں کہ وکیلوں پر 10ہزار روپے ٹیکس لگے گا، قانون توبنا ہی نہیں،بورڈ کے پاس ٹیکس لگانے کی پاورز نہیں۔ صوبائی اسمبلی نے بھی غلط کیا، ایک سال کے لئے سارے ٹیکسز اُڑ جائیں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ڈسپیوٹ یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 163کے تحت کوئی لوکل گورنمٹ ٹیکس نہیں لگاسکتی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ اختیار کسی او رکو نہیں دے سکتے۔ چوہدری عامر رحمان کا کہنا تھا کہ لوکل حکومت منتخب باڈی ہے۔ چیف جسٹس نے عامر رحمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لیو گرانٹ کریں گے تو ضرور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کریں گے۔ اس پر چیف جسٹس نے عامر رحمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا چوہدری صاحب آپ بچ گئے۔ چیف جسٹس نے حکم لکھواتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کوتفصیل سے سنا ہے اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کوبھی سنا ہے، 27-Aکے تحت اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری ہونا چاہیے تھا جو کہ نہیں ہوا، اب معاونت کے لئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت جمعہ13اکتوبر تک ملتوی کردی۔