صحافتی تنظیموں کانگران وزیر اعظم کے میڈیا کی آزادی سے متعلق سوالات سرکاری اشتہارات سے جوڑنے پراظہارتشویش

نگران وزیر اعظم کی میڈیا کے حوالے سے معلومات انتہائی نامکمل اور ناقص ہیں، سی پی این ای

اخبارات حکومت کے اشتہارات سبسڈائز ریٹ پر شائع کرتے ہیں۔اے پی این ایس

پریس کانفرنس میں وزیر اعظم کا انداز ہتک اور توہین آمیز تھا .پی آراے

وزیراعظم کے بیان کو مستردکردیا گیا

کراچی+اسلام آباد ( ویب  نیوز)

کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز(سی پی این ای)،آل پاکستان نیوزپیپرزسوسائٹی(اے پی این ایس) اورپارلیمنٹری رپورٹرز ایسوسی ایشن (پی آر اے) نے نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کی حالیہ پریس بریفنگ کے دوران میڈیا کی آزادی سے متعلق سوالات کو سرکاری اشتہارات سے جوڑنے پر انتہائی افسوس حیرت اور انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے ۔صحافتی تنظیموں نے واضح کیا ہے کہ نگران وزیر اعظم کی میڈیا کے حوالے سے معلومات انتہائی نامکمل اور ناقص ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نگران وزیر اعظم کو میڈیا سے متعلق گمراہ کن معلومات فراہم کی گئی ہیں۔سی پی این ای سیکریٹریٹ سے جاری پریس ریلیز کے مطابق نگران وزیر اعظم کے "میڈیا کو آزادی صحافت کی جنگ بھی لڑنی ہے اور میرے پیسے سے لڑنی ہے” کے بیان پر شدید حیرت کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے اخبارات وجرائد نے کبھی کسی حکومت یا وزیراعظم سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ ذاتی وسائل سے میڈیا کو نوازے بلکہ ہر حکومت اور ہر ادارہ اپنی  پبلسٹی کیلیے میڈیا کا مرہون منت ہے اوراشتہارات کا پیسہ کسی حکمران کا نہیں بلکہ یہ عوام کے ٹیکس کا ہے جسے اشتہارات کی مد میں منصفانہ طور پر تقسیم ہونا چاہیے۔ دنیا میں کہیں بھی حکومت کاروبار کرتی ہے نہ اشتہارات کو کنٹرول کرتی ہے اور نہ روزانہ اخبارات وجرائد سے ادارتی معاملات میں رعایت کی طلبگار ہوتی ہے۔ میڈیا نے آزادی صحافت کسی سے بھیک میں نہیں لی بلکہ اس کے پیچھے طویل جدوجہد اور جانی و مالی قربانیاں شامل ہیں۔سی پی این ای کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے وفد کی مورخہ 12 اکتوبر 2023 کو اسلام آباد میں نگران وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ اشتہارات کی تقسیم پر کوئی اعتراض نہیں تاہم گزشتہ حکومت کے اشتہارات کے نرخوں میں اضافے کے فیصلے پر عملدرآمد اور سرکاری اشتہارات کے سالوں سے زیر التوا واجبات کی فوری ادائیگی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔پارلیمنٹری رپورٹرز ایسوسی ایشن پاکستان نے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی جانب سے وزیراعظم ہاوس میں منعقدہ پریس کانفرنس کے دوران اور بعدازاں غیر رسمی گفتگو میں میڈیا نمائندگان کیساتھ روا رکھے گئے سلوک کو آمرانہ زہن کی روش قرار دیتے ہوئے ہتک آمیز رویئے پر افسوس کا اظہار کیا ہے. پی آر اے پی کے صدر عثمان خان اور سیکرٹری نوید اکبر چودھری سمیت دیگر عہدیداروں نے مشترکہ بیان میں  نگران وزیراعظم کے پریس کانفرنس میں سوال و جواب کے سیشن  کے دوران میڈیا نمائندوں کے ساتھ نہ صرف ہتک آمیز رویہ اختیار کرنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا،پی آر اے پی سمجھتی ہے کہ پریس کانفرنس میں وزیر اعظم کا انداز ہتک اور توہین آمیز تھا. پریس کانفرنس میں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے بجائے حکومتی کارکردگی پر بات کرتے لیکن انہوں نے میڈیا نمائندگان پر بلاوجہ تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لیکچر دینے کی کوشش کی. جو اس اہم منصب کے شایان شان نہیں ہے. وزیرِاعظم کو اپنی سرکاری میڈیا ٹیم کی نالائقی کا ملبہ میڈیا پر نہیں ڈالنا چاہیے۔نگران وزیراعظم کی جانب سے وزیر اطلاعات کو بعض میڈیا نمائندگان کو وزیراعظم ہاؤس میں داخل نہ ہونے کے احکامات دینے کی مذمت کرتی ہے۔پی آر اے پی نے واضح کیا ہے کہ اگر نگران وزیراعظم نے ورکنگ جرنلسٹس کے ساتھ یہی روش برقرار رکھی تو پی آر اے سینیٹ سے وزیراعظم کے رویے کے خلاف واک آؤٹ بھی کرے گی۔  جب کہ اے پی این ایس کی طرف سے جاری بیان میں بھی نگران وزیر اعظم کے متذکرہ بیان پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا گیا ہیلگتا ہے نگراں وزیر اعظم کی پرنٹ میڈیا سے متعلق معلومات درست نہیں، انوارالحق کاکڑ کے بیان سے شدید مایوسی ہوئی ہے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ  نگراں وزیراعظم نے سرکاری اشتہارات کے نرخ بڑھانے سے متعلق وزارت اطلاعات کی سمری پر گفتگو کی۔نگراں وزیراعظم نے کہا تھا کہ پرنٹ میڈیا کو اپنا بزنس ماڈل بدلنا چاہیے اوراخبارات کو سرکاری فنڈنگ کے بجائے اپنا ریونیو اپنے وسائل سے بڑھانا چاہیے۔   لگتا ہے نگراں وزیر اعظم کی پرنٹ میڈیا سے متعلق معلومات درست نہیں۔تنظیم نے کہا کہ پرنٹ میڈیا حکومت سے کوئی گرانٹ یا سبسڈی نہیں مانگ رہا۔ اخبارات حکومت کے اشتہارات سبسڈائز ریٹ پر شائع کرتے ہیں۔ سرکاری اشتہارات کے نرخ خاصے کم ہیں، بلکہ کمرشل ریٹ کا ایک چوتھائی ہیں۔اے پی این ایس کے مطابق شہباز شریف نے طویل عرصے سے زیر التوا سرکاری اشتہارات کے نرخ بڑھانے کا اعلان کیا تھا۔ سابق وزیراعظم شہباز شریف کے اعلان کی سمری وزارت خزانہ میں موجود ہے۔اخباری تنظیم کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت پر اخبارات کے 2 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ اگر نگراں وزیراعظم سمجھتے ہیں اخبارات کا ماڈل درست نہیں تو سبسڈائز نرخ واپس لے لیتے ہیں۔