عمران خان آج بھی میرے لیڈر ہیں، صدر نہ ہوتا تو جیل میں ہوتا، عارف علوی
یقین نہیں ہے کہ الیکشن جنوری میں ہوں گے
جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف ریفرنس میں نے نہیں بھیجا،وزیراعظم ہاوس سے آیا تھا
نواز شریف کو عوام نے عمران خان سمیت تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کا بیانیہ دیا ہے،صدر مملکت کا انٹرویو
صدرِکا نجی ٹی وی کو انٹرویو حالات کا بے لاگ جائزہ ہے. طاقت کے بل پر سیاسی وابستگیوں کی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کا احساس بھی نہایت اہم ہے،،ترجمان پی ٹی آئی
اسلام آباد( ویب نیوز)
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف آج بھی میرے لیڈر ہیں، اگر ایوان صدر میں نہ ہوتا تو میں بھی آج جیل میں ہی ہوتا۔نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں عارف علوی نے کہا کہ یقین نہیں ہے کہ الیکشن جنوری میں ہوں گے، انتخابات کے معاملے پر جب الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر معاملہ حل کرنے کی تجویز دی تو انہوں نے جواب میں کہا کہ ضرورت نہیں ہے۔عارف علوی نے کہا کہ اگر میں حج پر نہ گیا ہوتا تو الیکشن ایکٹ 2017 میں کی جانے والی ترمیم پر دستخط نہ کرتا کیونکہ یہ آئین کے خلاف ہے، اگر میں ایوانِ صدر میں موجود ہوتا تو 57 (1) ایکٹ میں جو ترمیم کی گئی اس پر دستخط نہیں کرتا، کیونکہ وہ آئین کے خلاف ہے، جو بھی ہوا وہ جب ہو جب میں حج پر گیا ہوا تھا۔ ایکٹ میں 57/1 کو تبدیل کیا گیا مگر میں نے اس پر دستخط نہیں کیے۔خیال رہے کہ الیکشن ایکٹ کی شق 57 اور 58 میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت الیکشن کی تاریخ کا اختیار صدر مملکت سے واپس لے لیا گیا ہے اور الیکشن کمیشن نیا شیڈول اور عام انتخابات کی تاریخ کااعلان کرے گا جبکہ الیکشن پروگرام میں ترمیم بھی کر سکے گا۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ کو ابھی یقین ہے کہ جنوری کے آخری ہفتے میں الیکشن ہوجائے گا؟ تو جواب میں انہوں نے کہا کہ نہیں مجھے یقین نہیں ہے، میں سمجھتا ہوں کہ جب سپریم جوڈیشری نے اس بات کو اپنی نظر میں لے لیا ہے تو وہاں سے بہت ہی مناسب فیصلہ آئے گا۔صدر مملکت نے کہا کہ اگر ایوان صدر میں نہ ہوتا تو آج میں بھی جیل میں ہی ہوتا، چیئرمین تحریک انصاف میرے لیڈر ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف ریفرنس میں نے نہیں بھیجا بلکہ وزیراعظم ہاوس سے آیا تھا، بعد میں سابق وزیراعظم نے بھی کہا تھا کہ وہ ریفرنس بھیجنا نہیں چاہتے تھے، چیئرمین پی ٹی آئی سے پوچھیں انہیں کس نے ریفرنس بھیجنے کا کہا تھا؟۔صدر مملکت کا کہنا تھا کہ پارلیمانی نظام میں امکان رہتا ہے کہ حکومت مدت پوری نہ کرپائے اور پاکستان بڑی مشکلات کے ساتھ جمہوریت کے راستے پر آیا ہے۔انہوں نے اپنا عہدہ نہ چھوڑنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ آئین کہتا ہے نیا صدر منتخب ہونے تک موجودہ صدر اپنی ذمہ داریاں جاری رکھے گا، اگر میں عہدہ چھوڑ دوں تو یہ پاکستان کیلیے نامناسب ہے،علیمہ خان کے اس بیان کہ میں عمران خان سے جیل میں ملی تو وہ عارف علوی سے خوش نہیں تھے، اس پر بات کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ وہ میرے اوپر دوست اور ہمدرد کی طرح نظر رکھتے ہیں۔ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ جب چاروں صوبائی اسمبلیاں، قومی اسمبلی اور سینیٹ مکمل ہونے پر ہی صدر کا انتخاب ہوگا اور یہ خلا پاکستان کے لیے غیرمناسب ہے کہ میں چھوڑ کر چلا جاوں کیونکہ آئین نے اس کا اہتمام کیا ہوا ہے۔ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ پاکستان مشکلات سے گزر کر بھی جمہوریت کے راستے پر چلنے کی کوشش کر رہا ہے۔الیکشن کمیشن کو لکھے گئے دو خطوط میں فرق کے حوالے سے سوال پر صدر مملکت نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت میں نے خط میں لکھا تھا کہ انتخابات نہ کرانے کی خبریں گردش کر رہی ہیں اس لیے میں نے اس خط میں واشنگٹن پر حملے کی مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس صورت حال میں بھی وہاں انتخابات ہوئے۔انہوں نے کہا کہ دوسرے خط میں لکھا تھا کہ ابراہم لنکن کو لوگوں نے کہا کہ ملک میں خانہ جنگی ہے تو انتخابات کیسے ہوں گے لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے کہا کہ انتخابات ہر حال میں ہوں گے لیکن اس خط کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 57 (1) کو تبدیل کیا گیا مگر میں نے اس پر دستخط نہیں کیے، میں حج پر گیا ہوا تھا لیکن واپس آنے تک قائم مقام صدر نے اس ایکٹ پر دستخط کرلیے تھے۔۔صدر مملکت نے کہا کہ مردم شماری کے معاملات پر مسائل آرہے تھے، میں نے کہا تھا کہ 6 نومبر یا اس سے پہلے الیکشن کروائے جائیں، وزارت قانون نے مجھے کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا میرا حق نہیں، پرنسپل سیکریٹری کو ہٹا کر لکھ دیا تھا کہ میں اپنے موقف پر قائم ہوں۔نواز شریف کے وطن واپسی کے موقع پر کیے گئے خطاب پر صدرمملکت عارف علوی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) ایک بیانیے کی تلاش میں ہے، میں سمجھتا ہوں کہ عوام نے ان کو یہ بیانیہ تھمایا ہے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے بیانیہ پر کیے گئے سروے میں 70 فیصد لوگوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے، جس میں عمران خان کا نام بھی شامل تھا۔ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے پاس اچھا موقع ہے کہ وہ اس بیانیے کو آگے بڑھائیں۔انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ملک میں صاف و شفاف انتخابات ہوجائیں، جس میں سب کو حصہ لینے کا موقع ملے۔9 مئی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں نے بطور صدر اس واقعے کی مذمت کی تھی کہ اس طرح نہیں ہونا چاہیے تھا اور میں یہ بھی کہتا ہوں کہ آگے جانے کا راستہ کھلنا چاہیے۔صدر مملکت نے پروگرام کے میزبان کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو سراہنا چاہتا ہوں، جنہوں نے متحد ہوکر دکھایا، عوامی سماعتیں شروع کیں اور قوم کو ان سے بڑی امیدیں ہیں، لہذا ان کے خلاف جاری ہونے والے ریفرنس سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی جمہوریت کی حامی ہے، چاہے وہ عورتوں کے حقوق کی بات ہو اور جب آصف زرداری صاحب نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تو یہ ان کا کریڈٹ ہے۔صدر نے کہا کہ ملک میں ایک لابی ہمیشہ رہی ہے جو لوگوں کو کہتی ہے کہ جمہوریت بیکار ہے۔ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ عمران خان میرے لیڈر ہیں کیونکہ قوم ان کی حمایت کرتی ہے، وہ وطن دوست ہیں۔صدر عارف علوی نے کہا کہ میں عمران خان یا تحریک انصاف کا نمائندہ نہیں لیکن جو بات ہے کرنی چاہیے، وہ اپنی بات تک نہیں رکھ سکتے، ان کے 80 لوگ گرفتار ہیں، غزہ پر احتجاج کرنے جاتے ہیں تو بھی ان کو گرفتار کیا جاتا ہے۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی فلسطین میں اسرائیلی ظلم و جبر کا تذکرہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے اور کہا کہ انہوں نے جب ایک فلسطینی بچے کو اپنے والدین کی میتیں شناخت کرتے دیکھا تو انہیں انتہائی صدمہ ہوا اس منظر کو وہ تاحال فراموش نہیں کر سکے ہیں صدر مملکت عارف علوی نے سخت الفاظ میں اسرائیل کے ظلم و جبر کی مذمت کی اور کہا کہ ایک بڑا انسانی المیہ جنم لینے کا خطرہ ہے میں ویڈیو کلپس کم ہی دیکھتا ہوں لیکن جب میں ایک فلسطینی بچے کو اپنے والدین کی میت شناخت کرتے دیکھا تو انتہائی صدمہ ہوا یہ ویڈیو کلپ دیکھے بغیر نہ رہ سکا یہ منظر ناقابل بیان ہے اس دوران ان کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور کہا کہ فلسطین پر پاکستان کا وہی موقف ہے جو 1940 ء کی قرار داد میں اختیار کیا اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اس کا اظہار کیا کہ پاکستان کو فلسطینی عوام کی مرضی کے مطابق حل قابل قبول ہو گا ۔
صدرِکا نجی ٹی وی کو انٹرویو حالات کا بے لاگ جائزہ ہے،ترجمان پی ٹی آئی
طاقت کے بل پر سیاسی وابستگیوں کی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کا احساس بھی نہایت اہم ہے،
اسلام آباد (ویب نیوز)صدرِمملکت کے نجی ٹی وی کوترجمان تحریک انصاف نے ملکی حالات کا ایک بے لاگ جامع جائزہ قراردے دیا ہے ۔پارٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ملک میں جاری سیاسی اور آئینی بحران کے حل کی ضرورت و اہمیت اجاگر کرتا ہے،سربراہِ مملکت کی گفتگو میں خصوصا صاف شفاف انتخابات کے ذریعے عوامی مینڈیٹ کی ناگزیریت کے حوالے سے قومی امنگوں کی بازگشت خوش آئند ہے، چیئرمین تحریک انصاف کی مالی دیانت اور حب الوطنی پر صدرِ مملکت کی غیرمبہم شہادت قوم کے عمران خان پر اعتماد کی حقیقت کی آئینہ دار ہے۔ ترجمان تحریک انصاف نے مزید کہا ہے کہ پاکستان کے پیچیدہ سیاسی، قانونی، عدالتی اور معاشی بحرانوں کا حل بلاشبہ دستور کی بالادستی اور احترام میں پوشیدہ ہے،صاف شفاف انتخابات ملک میں جمہوریت کے بقا و تسلسل کی کنجی اور پارلیمان کی ساکھ و حیثیت کے تحفظ کے ضامن ہیں،انتخابات میں شرکت کے خواہاں تمام سیاسی گروہوں/جماعتوں کیلئے انتخابی مہم، سیاسی سرگرمیوں اور ابلاغ و نشریات کے یکساں مواقع کے بغیر صاف شفاف انتخابات کا تصور ہی نامکمل ہے، صدرِ مملکت کیطرح ریاست کے تمام اداروں کو دستور کی منشا اور حکم کی روشنی میں آزادانہ، منصفانہ اور بروقت انتخابات کی اہمیت کا اعتراف کرنا ہوگا، صدرِمملکت کیطرح قوم بھی انتخاب سمیت تمام ریاستی و حکومتی امور میں دستور کی فرمانروائی کیلئے عدالتِ عظمی کی جانب دیکھتی ہے،جبری گمشدگیوں اور طاقت کے بل پر سیاسی وابستگیوں کی تبدیلی کے جاری سلسلے کے ریاست، سیاست اور سماج پر تباہ کن اثرات کا احساس بھی نہایت اہم ہے، ترجمان تحریک انصاف نے کہا ہے کہ دستور کے انحراف کی روایت پر اصرار اور جبر اور طاقت کے غیرقانونی و غیراخلاقی استعمال سے کشیدگی کو ہوا دینے کی بجائے ریاست صدرِمملکت کی گفتگو کی روشنی میں بحرانوں کے حل کی بامعنی تدبیر کرے..