آڈیولیک کیس، اسلام آباد ہائی کورٹ کی وفاقی حکومت کو جواب جمع کرانے کیلئے ایک ماہ کی مہلت
عدالت نے بشریٰ بی بی اور سابق جج ثاقب نثار کے بیٹے کی درخواست یکجا کردی،رضا ربانی نے تحریری دلائل عدالت میں جمع کرادیئے
میری رائے میں پارلیمانی کمیٹی کو کارروائی شروع نہیں کرنی چاہیے تھی، کسی انفرادی شخص کی آڈیو ٹیپ کا تعلق نیشنل اسمبلی کے ساتھ نہیں ،اٹارنی جنرل
کیا الیکٹرانک سرویلنس کی جا سکتی ہے؟ کون ایسا کر سکتا ہے؟ پی ٹی اے کہہ رہی ہے کہ انہوں نے کسی کو اجازت نہیں دی،عدالت
پارلیمنٹ کے تحلیل ہونے کے بعد درخواستیں غیر موثر ہو چکی ہیں، لہذا عدالت درخواست کو نمٹا دے،منصورعثمان اعوان
وزیراعظم آفس اور سپریم کورٹ کے جج کی آڈیوز لیک ہوئی ہیں، سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کی فیملی کی آڈیولیک ہوئی،جسٹس بابرستار
اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کو دیکھا جانا اور کمیٹی کو معاملہ واپس بھیجنا چاہیے، البتہ عدالت کو خود اس معاملے کو نہیں دیکھنا چاہیے،رضا ربانی
اسلام آباد (ویب نیوز)
آڈیولیک کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو جواب جمع کرانے کے لئے ایک ماہ کی مہلت دے دی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے بشریٰ بی بی کی آڈیو لیکس طلبی نوٹس کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔بشریٰ بی بی کی جانب سے وکیل بیرسٹر گوہر جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔عدالت نے بشریٰ بی بی اور سابق جج ثاقب نثار کے بیٹے کی درخواست یکجا کردی۔دوران سماعت میاں رضا ربانی نے تحریری دلائل عدالت میں جمع کرائے اور روسٹرم پر آکر کہا کہ عدالت نے پانچ سوالات پر معاونت طلب کی تھی جس پر تحریری دلائل جمع کرائے ہیں۔ اس پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ پہلے اٹارنی جنرل کوسن لیتے ہیں پھر آپ کوسنیں گے۔اٹارنی جنرل منصور اعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ میری رائے یہ ہے پارلیمانی کمیٹی کو کارروائی شروع نہیں کرنی چاہیے تھی، کسی انفرادی شخص کی آڈیو ٹیپ کا تعلق نیشنل اسمبلی کے ساتھ نہیں تھا، پارلیمانی کمیٹی اس طرح نوٹس نہیں کر سکتی تھی۔منصور اعوان نے عدالت کے سامنے موقف اپنایا کہ پارلیمنٹ کے تحلیل ہونے کے بعد درخواستیں غیر موثر ہو چکی ہیں، لہذا عدالت درخواست کو نمٹا دے۔عدالت نے استفسار کیا کہ کیا الیکٹرانک سرویلنس کی جا سکتی ہے؟ کون ایسا کر سکتا ہے؟ پی ٹی اے کہہ رہی ہے کہ انہوں نے کسی کو اجازت نہیں دی، الیکٹرانک سرویلنس کیسے ہو رہی ہے اور کون کر رہا ہے۔جسٹس بابر ستار نے کہا کہ وزیراعظم آفس اور سپریم کورٹ کے جج کی آڈیوز لیک ہوئی ہیں، سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کی فیملی کی آڈیولیک ہوئی، آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ کسی دشمن ایجنسی نے کیا ہے؟ ریاست پاکستان کو اعتماد میں لئے بغیر ایسا کرنا خوفناک فیصلہ ہے۔ہائی کورٹ نے مزید استفسار کیا کہ آڈیو ٹیپ کے حوالے سے مجاز اتھارٹی کون ہے اور کیا یہ حکومتی اتھارٹی کے بغیرٹیپ ہوئیں؟ بے نظیر بھٹو کیس ہماری ہسٹری ہے تب یہ ہوتا رہا ہے، کیسے یہ ہو رہا ہے چیک اینڈ بیلنس کیا ہے؟ البتہ اس ڈیٹا کا غلط استعمال تو نہیں ہو رہا، یہ تودیکھا جانا چاہیے۔اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کیس کی سماعت ان کیمرہ کرنے کی استدعا کردی۔عدالت نے کہا کہ کیا آفسز میں یہ ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے اور پھر اس سے بلیک میل کیا جاتا ہے؟ اگر ہمارے فون کی نگرانی کی جارہی ہے تو ہمیں پتہ ہونا چاہئے کہ ایسا کون کر رہا ہے؟۔جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ایک لیک آڈیو پر تو ایف آئی اے تفتیش بھی کر رہا ہے، پہلے یہ تو طے ہو جائے کہ وہ آڈیو کہاں سے آئی اور لیک کیسے ہوئی، حکومت نے آڈیو لیکس سے متعلق اہم ججز پر مشتمل عدالتی کمیشن تشکیل دیا، مگر اس کمیشن کے ٹی او آرز میں بھی یہ سوال نہیں تھا کہ آڈیوز لیک کون کرتا ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ وزیراعظم یا کابینہ سے بات کریں، آڈیو ٹیپنگ سے متعلق کوئی قانونی فریم ورک ہونا چاہئے، یہ نہیں ہو سکتا دفتر اور چیمبروں میں گفتگو بھی ریکارڈ ہو رہی ہو۔عدالت نے کہا کہ مناسب وقت دوں گا مگر قانونی دائرہ کار سے متعلق جواب جمع کرایا جائے، مستقل بنیادوں پر کمیٹیز مختلف اداروں کو ہدایات جاری کر رہی ہیں۔میاں رضا ربانی نے عدالت میں موقف اپنایا کہ اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کو دیکھا جانا چاہئے، کمیٹی کو معاملہ واپس بھیجنا چاہیے، البتہ عدالت کو خود اس معاملے کو نہیں دیکھنا چاہیے۔بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو اس معاملے پر جواب جمع کرانے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دے دی۔