اولڈ فیشنڈ ہوں اور بنیادی باتوں پر چلتا ہوں، کیوں عدالت پی ایم ڈی سی کے معاملات میں مداخلت کررہی ہے ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
اگر پی ایم ڈی سی ڈگری نہیں مان رہی تو کیا اس کو کسی جگہ چیلنج کیا جاسکتا ہے ؟ پتا نہیں کیوں وکلاء نے قانون کا حوالہ دینا چھوڑ دیا،دوران سماعت ریمارکس
آپ نے حفظ لوگوں کو بتانے کے لیے کیا ہے یا اپنے ایمان کے لیے؟
لوگوں کو دکھانے کے لئے کیا ہے تو پھر اس کا بھی صلہ نہیں ملے گا۔دوران سماعت چیف جسٹس کا پی ایم ڈی سی کے وکیل سے دلچسپ مکالمہ
اسلام آباد( ویب نیوز)
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لاہور اور پاکستان میں کتنی یونیورسٹیاں ہیں اور لندن میں کتنی یونیورسٹیاں ہیں۔ لندن اور نیویارک میں جاکردیکھیں کتنی یونیورسٹیاں ہیں ، ہمارے ہر عمارت میں یونیورسٹی ہے ،ملک میں عمارت دستیاب ہو نہ ہو بس یونیورسٹی بنا دیتے ہیں۔کچھ لوگ کرامت کرنے جارہے تھے پتا نہیں ہو کہ نہیں۔کالج اور یونیورسٹی میں کیا فرق ہوتا ہے، بنیاد ی فرق کیا ہے۔ یونیورسٹیاں علم تخلیق کرتی ہیں اور کالجز موجود علم پڑھاتے ہیں۔ میں اولڈ فیشنڈ ہوں اور بنیادی باتوں پر چلتا ہوں، کیوں عدالت پی ایم ڈی سی کے معاملات میں مداخلت کررہی ہے۔ اگر پی ایم ڈی سی ڈگری نہیں مان رہی تو کیا اس کو کسی جگہ چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ پتا نہیں کیوں وکلاء نے قانون کا حوالہ دینا چھوڑ دیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سرحد میڈیکل یونیورسٹی کی طالبہ کو ڈگری نہ دینے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس کا پی ایم ڈی سی کے وکیل حافظ عرفات احمدچوہدری سے دلچسپ مکالمہ۔ کیا آپ کا نام حافظ ہے؟ چیف جسٹس کا وکیل حافظ عرفات سے سوال۔ نہیں میرا نام عرفات احمد ہے، وکیل پی ایم ڈی سی۔ آپ اپنے نام کے ساتھ حافظ کیوں لکھتے ہیں؟ چیف جسٹس قاضی فائز کا وکیل سے سوال ۔شعوری عمر میں پہنچنے سے پہلے حفظ کر لیا تھا تو نام کے ساتھ حافظ کا اضافہ ہو گیا، وکیل حافظ عرفات۔شناختی کارڈ پر بھی حافظ درج ہے؟ چیف جسٹس کا وکیل حافظ عرفات سے سوال ۔شناختی کارڈ پر نام صرف عرفات احمد ہے، وکیل ۔نام کے ساتھ حافظ لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ چیف جسٹس پاکستان ۔آپ نے حفظ لوگوں کو بتانے کے لیے کیا ہے یا اپنے ایمان کے لیے؟ چیف جسٹس پاکستان ۔ لوگوں کو دکھانے کے لئے کیا ہے تو پھر اس کا بھی صلہ نہیں ملے گا۔ عدالت نے ڈگری نہ دینے کے کیس میں پی ایم ڈی سی کا مقدمہ بحال کر دیا۔ طالبہ کے وکیل فواد صالح کا کہنا تھا کہ طالبہ آسیہ توقیر نے سرحد یونیورسٹی سے پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز کیا لیکن خیبر میڈیکل یونیورسٹی نے ڈگری نہیں دی،سرحد یونیورسٹی میڈیکل پروگرامز کے لیے خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے منسلک ہے، پی ایم ڈی سی نے 2012 میں نوٹیفکیشن کے ذریعے سرحد یونیورسٹی کی میڈیکل ڈگریز کو روک دیا تھا۔ چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے خیبر میڈیکل یونیورسٹی، پشاور کو فریق بنایانہ ہی درخواست میں دستاویزات لگائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کیا پی ایم ڈی سی کا کام کنفیوژن پیداکرناہے۔ جسٹس امین الدین خان نے سوال کیا کہ کیا سرحد یونیورسٹی ڈگری ایوارڈنگ یونیورسٹی نہیں ہے؟اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ خیبر میڈیکل یونیورسٹی نے ڈگری دینی تھی۔ چیف جسٹس نے خاتون درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو خیبر یونیورسٹی سے ڈگری چاہیئے ، دی یا نہیں دی وہ الگ بات ہے، خیبر میڈیکل یونیورسٹی کو فریق نہیں بنایا ، ایک ادارہ ہمارے سامنے نہیں اس کے خلاف کیسے حکم دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا ججز میں یہ اہلیت ہے کہ وہ فیصلہ کریں کیا ڈگری دینی چاہیئے، مجھ میں تویہ قابلیت نہیں ہے، ججز نے توہدایت جاری کردی۔ کوئی وجہ تو ہو گی کہ مدعاعلیہ نے خیبر میڈیکل یونیورسٹی کو درخواست میں پارٹی نہیں بنایا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا مدعا علیہ نے خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے رجوع کیا۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ نہیںکیا اور براہ راست پی ایم ڈی سی سے رجوع کیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ڈگری ویلڈ ہے لیکن یہ اس وقت کارآمد ہو گی جب خیبر میڈیکل یونیورسٹی اس کی منظوری دے گی، اگر خیبرمیڈیکل یونیورسٹی کو پارٹی بنالیتے تو ابہام پیدا نہ ہوتا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ میں پی ایم ڈی سی کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن سے باہر نہیں جاسکتا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ پی ایم ڈی سی کی جانب سے 2012میں جاری کیا نوٹیفیکیشن صرف اسلام آباد کے لئے تھا، پشاور کیمپس کے لئے نہیں تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تکنیکی طور پر تو سرحد یونیورسٹی کو بھی پارٹی نہیں بنایا۔ چیف جسٹس نے مدعا علیہ کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کہاں سے ڈگری کی، کیوں ایبٹ آباد کو پارٹی بنایا۔ چیف جسٹس کا کہ ہم بادشاہ کہتے ہیں، وکیل خود کو میں کہیں۔ کیوں ایبٹ آباد کیمپس کو پارٹی بنایا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سرحد یونیورسٹی آزادانہ طور پر ایم پی ایچ کی ڈگری جاری نہیں کرسکتی، خیبر میڈیکل یونیورسٹی کو پارٹی بنایاگیا۔ ہائی کورٹ کے ججز نے حکم جاری کرتے ہوئے وہ اختیار ات ستعمال کیئے جو درخواست گزار کے پاس ہیں۔ عدالت نے حتمی فیصلہ تک ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا۔ عوامی نوعیت کا معاملہ ہے اس لئے سپریم کورٹ جلد کیس کا فیصلہ کرے گی۔ جلد کیس دوبارہ سماعت کے لئے مقررکیا جائے۔ عدالت نے خیبر میڈیکل یونیورسٹی، پشاور کو بھی نوٹس جاری کرکے جواب طلب کر لیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم کی کاپی نوٹس کے ساتھ مدعا علیحان کو بھجوائی جائے۔ عدالت نے فریقین کو اضافی دستاویزات جمع کرانے کا وقت دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی ۔