سابق وزیر اعظم ذوالفقاعلی بھٹوکے حوالہ سے دائر صدارتی ریفرنس میں عدالت کی معاونت کے لیے 9 معاونین مقرر

 جنوری کے دوسرے ہفتے سے صدارتی ریفرنس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی اورکوئی التوا نہیں دیا جائے گا۔سپریم کورٹ

عدالت کا ذوالفقار علی بھٹو کے لواحقین کو بھی نوٹس جاری،احمدرضا قصوری کی جانب سے ریفرنس انتخابات کے بعد سماعت کے لئے مقررکرنے کی استدعا مسترد

اگر کوئی متعلقہ شخص ہے تووہ آئے ہم اس کو ضرورسنیں گے تاہم سیاسی تقریریں نہیں سنیں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد( ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اورسابق وزیر اعظم ذوالفقاعلی بھٹوکے حوالہ سے دائر صدارتی ریفرنس میں عدالت کی معاونت کے لیے 9 معاونین مقرر کردیئے ۔عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ جنوری کے دوسرے ہفتے سے صدارتی ریفرنس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی اورکوئی التوا نہیں دیا جائے گا۔جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل سینیٹر فاروق حمید نائیک نے اپنی قیادت کی ہدایات پر بیرسٹر سلمان صفدر اور فیصل صدیقی ایڈووکیٹ کی بطور عدالتی معاون تقرری پر اعتراض کردیا جسے عدالت نے مسترد کردیا۔ عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو کے لواحقین کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرکوئی ریفرنس میں پیش ہونا چاہتا ہے تووہ وکیل کے زریعہ پیش ہوسکتا ہے۔جبکہ عدالت نے احمدرضا قصوری کی جانب سے ریفرنس انتخابات کے بعد سماعت کے لئے مقررکرنے کی استدعا مستردکردی۔ دوران سماعت جسٹس سید منصور علی شاہ نے ذولفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس کے قابل سماعت ہونے پر سوالات اٹھا دیے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس میں فیصلہ سنا چکی اور نظرثانی بھی خارج ہو چکی، عدالت ایک ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتی ہے؟۔ کس قانون کے تحت عدالت ایک ختم ہوئے معاملے کو دوبارہ کھولے؟ ۔ آئین میں دوسری نظر ثانی کا تصور نہیں ہے، عدالت نے فیصلہ کیا کرنا ہے یہ تو بتائیں؟۔جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا کل کوئی فریق آ کر پرانا مقدمہ نکلوا سکتا ہے؟۔یہ بہت اہم سوال ہے۔کیا ہم آرٹیکل 186 کے تحت کسی عدالتی فیصلے کو دیکھ سکتے ہیں؟۔سوال یہ ہے کہ قانونی سوال کیا ہے؟۔ کیا کل صدر مملکت یہ ریفرنس بھیج سکتے ہیں کہ تمام پرانے فیصلوں کو دوبارہ لکھا جائے؟۔ پورا ریفرنس تو ٹی وی انٹرویوز کے گرد گھومتا ہے۔ ایک ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ سپریم کورٹ دوسری نظرثانی نہیں سن سکتی، ایک معاملہ ختم ہوچکا ہے، عدالت کو یہ توبتائیں کہ اس کیس میں قانونی سوال کیا ہے؟ فیصلہ برا تھا توبھی سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہے بدلا نہیں جاسکتا، یہ آئینی سوالات ہیں جن کا جواب ضروری ہے۔جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ اگر کوئی متعلقہ شخص ہے تووہ آئے ہم اس کو ضرورسنیں گے تاہم سیاسی تقریریں نہیں سنیں گے۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہے کہ سارا ریفرنس سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو پر بنایا گیاہے ، تین ججز نے فیصلے کی مخالفت کی تھی، نسیم حسن شاہ کو بھی فیصلے کی مخالفت کر سکتے تھے۔ جبکہ دوران سماعت چیف جسٹس نے وکیل رہنما علی احمد کرد کو سیاسی باتیں کرنے سے روک دیا اور کہ وہ کوئی قانونی بات ہے تو کریں اور اگر سیاسی باتیں کرنی ہیں تو میڈیا موجود ہے عدالت سے باہر جا کر بات کریں۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی سزا سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی، بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ کان آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اورمس جسٹس مسرت ہلالی  شامل ہیں۔پیپلزپارٹی کے وکیل سینیٹر فاروق حمید نائیک اور اٹارنی جنرل بیرسٹر منصورعثمان اعوان روسٹرم پر موجود تھے۔جبکہ احمد رضا قصوری بھی عدالت میں پیش ہوئے اور بار، بار روسٹرم پر آکر بات کرتے رہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ،پی پی پی کے شریک چیئرمین اورسابق صدر آصف علی زرداری، اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف، سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، سابق چیئرمین سینیٹ سینیٹر میاں رضا ربانی، سینیٹر شیری رحمان سمیت دیگر پی پی پی رہنما بھی عدالتی کارروائی دیکھنے کے لیے کمرہ عدالت میں موجود تھے۔فاروق ایچ نائیک نے براہ راست کارروائی نشر کرنے پر عدالت کا شکریہ ادا کیا جب کہ اس دوران بلاول بھٹو زرداری نے کیس میں فریق بننے کی درخواست کردی۔سماعت کے آغاز پر عدالت نے ریفرنس میں پیش ہونے والے وکلا کے نام لکھ لیے، چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے مکالمہ کیا کہ آپ کی درخواست سے پہلیہم نے لائیو نشریات کا فیصلہ کر لیا تھا،  ہرقانونی وارث کا حق ہے کہ اسے سنا جائے۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ صدارتی ریفرنس ہے توکیا حکومت اس کو اب بھی چلانا چاہتی ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے ہدایات ہیں کہ صدارتی ریفرنس کو حکومت چلانا چاہتی ہے، ریفرنس 15 صفحات پر مشتمل ہے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ صدارتی ریفرنس میں صدر صاحب ہم سے کیا چاہتے ہیں؟کون سے صدر نے یہ ریفرنس فائل کیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آصف علی زرداری نے بطور صدر یہ ریفرنس بھجوایا تھا۔جسٹس قاضی فائز عیسی ٰنے کہا کہ کسی صدر نے صدارتی ریفرنس واپس نہیں لیا تو یہ اب بھی عدالت کے اختیار میں ہے۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ ریفرنس پڑھ کر سنادیں اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ریفرنس 15 صفحات پر مشتمل ہے۔دوران سماعت احمد رضا قصوری روسٹرم پر آئے اور نسیم حسن شاہ کے ایک اخبار میں انٹرویو کا حوالہ دیا جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو پر انحصار کررہے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ بہتر ہوگا اٹارنی جنرل کو دلائل دینے دیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ 21 اپریل 2011 کو صدارتی حکم نامہ جاری کیا گیا تھا اور صدارتی حکم نامے کے ذریعے بھٹو ریفرنس کے سوالات فریم کیے گئے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ایک سینئر ممبر بینچ میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے، دو اور ججز نے ذاتی وجوہات پر سماعت سے معذرت کی، اس کے بعد 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔جسٹس منصورعلی شاہ نے فاروق نائیک سے مکالمہ کیا کہ آپ عدالت کوکوئی قانونی حوالہ تو دیں، آرٹیکل 186 کے تحت دائر صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی نظرثانی نہیں ہوسکتی، اب ہم بھٹو فیصلے کو چھو بھی نہیں سکتے، عدالت کو بتائیں کو جو معاملہ حتمی ہوکر ختم ہوچکا اسے دوبارہ کیسے کھولیں؟ اس پر فاروق نائیک نے کہا کہ بھٹو کیس عوامی اہمیت کا حامل کیس تھا۔جسٹس منصور نے کہا کہ عوامی اہمیت کا حامل سوال صدر نے دیکھنا تھا،عدالت قانونی سوال دیکھے گی جوبھی کیس ہو عدالت قانونی سوالات کے بغیرفیصلہ کیسے کرسکتی ہے؟ عدالت کس قانون کے تحت یہ ریفرنس چلائے؟ فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ میں بلاول بھٹو کی نمائندگی کروں گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو ورثا کے طور پر بھی سن سکتے ہیں اور سیاسی جماعت کے طور پر بھی۔ صدراتی ریفرنس ابھی بھی برقرار ہے، یہ واپس نہیں لیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مجھے کوئی ہدایات نہیں ملی کہ یہ ریفرنس نہ سنا جائے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل کے دوران بنیچ پر اعتراض کی کوئی درخواست دی گئی، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ریکارڈ کے مطابق کئی درخواستیں دی گئی تھیں۔وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں کہا کہ نسیم حسن شاہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں تسلیم کیا کہ ان پر دبا تھا۔ دوسرے انٹرویو میں نسیم شاہ نے کہا مارشل لا والوں کی بات ماننی پڑتی ہے۔  صدراتی ریفرنس کی نمائندگی کس نے کی تھی؟۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایڈووکیٹ بابر اعوان اس وقت صدارتی ریفرنس میں وکیل تھے۔ وہ اس وقت عدالت میں موجود نہیں ہیں۔ احمد رضا قصوری نے عدالت کو بتایا کہ میں نے ریفرنس پر تحریری جواب جمع کرایا، میرے جواب میں بابر اعوان غصے میں آگئے اور عدالت کو. مطمئن نہیں کرسکے۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ ریفرنس میں کوئی قانونی سوال  نہیں اٹھایا تھا۔ بابر اعوان اس وقت بوکھلاہٹ کا شکار ہوگے تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی حکم میں توبہ کا تذکرہ کیا گیا، کیا کوئی بتائے گا کیوں؟ کیا وکیل فاروق نائیک اور احمد رضا قصوری بتا سکتے ہیں؟۔ احمد رضا قصوری نے جواب دیا کہ عدالت کسی عالم کو بلائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے علی احمد کرد، طارق محمود، خالد انور اور مخدوم علی خان کو معاون مقرر کیا تھا۔ ہم دیکھیں گے جو عدالتی معاون دستیاب نہیں ان کے متبادل کون ہوں گے۔اس موقع پر وکیل مخدوم علی خان اور علی احمد کرد نے عدالتی معاونت کی ہامی بھر لی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کی معاونت کے لیے مشاورت کے بعد مزید نام دیں گے۔ اعتزاز احسن نے عدالتی معاون بننے سے معذرت کرلی۔ سپریم کورٹ میں مخدوم علی خان اور اعتزازاحسن کے معاونین وکلا پیش  ہوئے۔جسٹس منصور شاہ نے استفسار کیا کہ کیا جب یہ سارا کیس چلا، ملک میں آئین موجود تھا؟، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس وقت ملک میں مارشل لا تھا۔ فاروق نائیک نے بتایا کہ کیس میں شکایات دائر ہوئی تھیں، اس کا ریکارڈ موصول نہیں ہوا تھا۔ عدالت نے حکم نامے میں رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ کو سارا ریکارڈ فراہم کرنے کا کہا تھا۔ چیف جسٹس نے پوچھا جو ٹریبونل بنایا تھا اس کا کیا نام تھا ؟، جس پر وکیل فاروق نائیک نے بتایا کہ ٹریبونل نے دیکھنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمات درست تھے یا نہیں۔ ٹریبونل نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تمام مقدمات کو جعلی قرار دیا تھا۔اب اس ٹریبونل کا ریکارڈ کہاں ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ یہ ریفرنس کبھی نہ سنا جائے تو اعتراض اٹھاتے رہیں۔ ہمارے سامنے وہ بات کریں جو سامنے موجود ہے۔ ایسا کرنا ہے تو ایک درخواست دے دیں کہ کس کس کو احکامات دیے جائیں۔سپریم کورٹ نے کہا کہ آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا اور آخری بار صدارتی ریفرنس 2012 میں سنا گیا، بدقسمتی سے یہ ریفرنس اس کے بعد سنا نہیں گیا اور زیر التوا رہا۔عدالت نے کہا کہ جیو نیوز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کے پاس ذوالفقاربھٹو کیس سے متعلق سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے اینکر پرسن افتخار احمد کے پروگرام جوابدہ میں دیئے گئے انٹرویو کا مکمل ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔ جبکہ عدالت نے جسٹس دراب پٹیل کے انٹرویو کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ بھٹو ریفرنس کو حکومت نے واپس نہیں لیا، حکومت نہ ہی صدارتی ریفرنس کو واپس لینا چاہتی ہے۔ صدارتی ریفرنس پر 21 اپریل 2011 کو سوالات فریم کیے گئے۔ عدالتی کارروائی کے دوران کئی عدالتی معاون مقرر ہوئے، ان میں سے کچھ معاونین دنیا میں نہیں رہے۔ بھٹو ریفرنس بڑا اہم ہے، مخدوم علی خان، علی احمد کرد معاونت کے لیے تیار ہیں۔ مناسب ہوگا مزید عدالتی معاونین کا تقرر کیا جائے۔ جسٹس (ر)منظوراحمد ملک کو بھی عدالتی معاون مقرر کیا جاتا ہے۔ عدالتی معاون تحریری یا زبانی طور پر معاونت کرسکتے ہیں۔ خواجہ حارث احمدبطور ایڈووکیٹ جنرل پنچاب اس کیس کا حصہ رہ چکے ہیں، انہیں بھی عدالتی معاون مقرر کیا جاتا ہے۔بیرسٹر سلمان صفدر ، فیصل صدیقی ایڈووکیٹ، میاںرضا ربانی ، بیرسٹر خالد جاوید خان ، زاہد فخرالدین جی ابراہیم اور یاسر قریشی کو بھی معاون مقرر کرتے ہیں ۔عدالتی معاونین فوجداری اور آئینی معاملات پر رائے دیں۔ ریفرنس میں ایک انٹرویو کو بھی حوالہ بنایا گیا ہے۔ احمد رضا قصوری نے بھی نسیم حسن شاہ کی کتاب کا حوالہ دیا ہے۔ فاروق ایچ نائیک نے جسٹس دراب پٹیل کے انٹرویو کا بھی حوالہ دیا۔ فاروق ایچ نائیک اس انٹرویو کی ٹرانسکرپٹ بھی فراہم کریں گے۔ حکم نامے کے مطابق آخری سماعت پر سپریم کورٹ باریسوسی ایشن اور عاصمہ جہانگیر کو بھی نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ بار بھی اپنا وکیل مقرر کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔ یہاں کسی کا دفاع نہیں ہو رہا، یہ ایک صدارتی ریفرنس ہے۔ جو بھی آنا چاہے ہم اسے سنیں گے۔سپریم کورٹ نے سماعت کے حکم نامے میں مزید کہا کہ صدارتی ریفرنس کے قابل سماعت ہونے کے ساتھ کئی آئینی سوالات ہیں۔ عدالت کو قانونی ماہرین کی رائے کی معاونت درکار ہوگی۔ آرٹیکل 186 کے سکوپ کا معاملہ توجہ طلب ہے۔ کس نوعیت کی رائے دی جاسکتی ہے یہ بھی اہم معاملہ ہے۔دوران سماعت احمد رضا قصوری نے مزید سماعت الیکشن کے بعد تک ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیس الیکشن کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قصوری صاحب اس ریفرنس کے بعد کئی ریفرنس آئے۔ اس وقت بھی الیکشن معاملات تھے مگر وہ ریفرنس سنے گئے۔ اب یہ ریفرنس دیر آید درست آید پر ہے۔ جنوری میں آئندہ سماعت ہوگی۔عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ اس حوالہ سے بھی معاونت کریں کہ اب تک کتنے صدارتی ریفرنس دائر ہوئے اوران میں سے کتنے زیر زلتوا ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ذولفقار علی بھٹو کا ریفرنس سب سے پرانا ہے جو سپریم کورٹ میں زیر التواہے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کی براہ راست نشریات کیلئے درخواست دائر کی تھی۔درخواست میں مقف اختیار کیا گیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ ہونے کے ناطے انصاف کیلئے درخواست کی، ذوالفقار علی بھٹو نے ہمیشہ قانون کی بالادستی کیلئے کردار ادا کیا، ان کا قتل نظام انصاف پر دھبہ ہے۔یاد رہے کہ 2011 میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے متعلق ریفرنس دائر کیا تھا اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے دسمبر 2012 تک کیس کی 6 سماعتیں بھی کی تھیں لیکن ریفرنس سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا تھا۔ZS

#/S