سپریم کورٹ کا تاحیات نااہلی معاملے پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ2107کی شق232  (2)ترمیم میں تضاد پر نوٹس

عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر منصور عثمان اعوان، تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز کو معاونت کے لئے نوٹس جاری کردیا

ا لیکشن کمیشن آف پاکستان کو عدالتی حکم کی کاپی کے ساتھ نیا نوٹس جاری کرنے کا حکم

اگر کوئی سیاسی جماعت کیس میں فریق بننا چاہے تو وہ بن سکتی ہے،عدالت

موجودہ کیس کا نوٹس اردو اور انگریزی کے بڑے اخبارات میں شائع کیاجائے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

نتخابات کے حوالے سے ملک میں کوئی غیر یقینی کی صورتحال نہیں،اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یہ سپریم کورٹ کی توہین ہوگی،جسٹس اطہر من اللہ

اسلام آباد ( ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے تاحیات نااہلی کے معاملہ پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ2107کی شق232(2)  میں تضاد پر نوٹس لے لیا۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر منصور عثمان اعوان، تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز کو معاونت کے لئے نوٹس جاری کردیا ہے۔جبکہ عدالت نے ا لیکشن کمیشن آف پاکستان کو عدالتی حکم کی کاپی کے ساتھ نیا نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت کیس میں فریق بنا چاہے تو وہ بن سکتی ہے۔ تاحیات ناہلی کی مدت کے تعین کے معاملے کو لارجز بنچ کے سامنے مقرر کرنے کیلئے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تحت قائم ججز کمیٹی کو بھجوا دیا گیا جوپانچ، چھ یاسات رکنی بینچ کی تشکیل کے حوالہ سے فیصلہ کرے گی۔معاملہ کی اہمیت کے پیش نظر کیس کی سماعت جنوری 2024 میں ہوگی۔جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان یا کوئی اور موجودہ کیس کو انتخابات میں تاخیر کا شکار کرنے کے لئے آلہ کار کے طور پر استعمال نہیں کرے گا ،موجودہ کیس کا نوٹس اُردو اور انگریزی کے بڑے اخبارات میں شائع کیاجائے۔جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ انتخابات کے حوالے سے ملک میں کوئی غیر یقینی کی صورتحال نہیں،اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یہ سپریم کورٹ کی توہین ہوگی۔ سپریم کورٹ نے نوٹس میر بادشاہ قیصرانی اور ممتاز احمد مہاروی کی تاحیات نااہلی کے حوالہ سے دائر تین درخواستوں کی سماعت کے دوران لیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ مشتمل تین رکنی بینچ نے سردارکنفیوشیس امام قیصرانی اور ممتاز احمدمہاوری کی جانب سے میر بادشاہ خان قیصرانی اور فضل محمود کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت  کی۔درخواست گزاروں کی جانب سے محمد ثاقب جیلانی اورشیخ عثمان کریم الدین بطور وکیل پیش ہوئے۔ میر بادشاہ قیصرانی کی جانب سے خالد ابن عزیز پیش ہوئے۔ جبکہ عدالتی نوٹس پر ڈی جی لاء الیکشن کمیشن آف پاکستان محمد ارشد اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل بلیغ الزامان پیش ہوئے۔ جسٹس امین الدین خان کا درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ لائیو ایشو ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیی نے درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے مئوکل کا کیا نام ہے، کیا کہ چینی فلاسفر کے نام پر نہیں۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ کنفیوشیس شناختی کارڈ میں نام کا حصہ ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس میں فلسفیانہ سوال ہے یا قانونی سوال ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ وجودہ کیس 2018 کے انتخابات سے متعلق ہے،اب نئے انتخابات سر پر ہیں تو یہ قابل سماعت معاملہ کیسے ہے؟ لاہور سے ویڈیو لنک پر موجود درخواست گزار کے وکیل ثاقب جیلانی کا کہنا تھا کہ کہ موجودہ کیس کا اثر آئندہ انتخابات پر بھی ہوگا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے اسفسار کیا کہ میر بادشاہ قیصرانی کو نااہل کیوں کیا گیا؟اس پر وکیل کا کہنا تھاکہ میر بادشاہ قیصرانی کو جعلی ڈگری کی بنیاد پر 2013میں نااہل کیا گیا،ہایی کورٹ نے 2018 کے انتخابات میں میر بادشاہ کو لڑنے کی اجازت دے دی،میر بادشاہ قیصرانی کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا تھا۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ درخواست گزار اس کیس سے موجودہ انتخابات متاثر ہوں گے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کسی کی سزا ختم ہو جائے تو تاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ جھوٹے بیان حلفی پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے کو نااہل ہی ہونا چاہیے، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح پر پانامہ کیس میں فیصلہ دے دیا تھا۔اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی کے معاملے پر تین آرا ہیں،نیب کیسز میں اگر تاحیات نااہلی کی سخت سزا ہے تو قتل کی صورت میں کتنی نااہلی ہوگی؟اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ قتل کے جرم میں سیاست دان کی نااہلی پانچ سال کی ہوگی۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ بچے کے ساتھ زیادتی جیسے سنگین جرم کی سزا بھی پانچ سال نااہلی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا نیب میں پبلک ریسوسرسز چوری کرنے پر نااہلی کی سزا10سال تک ہے، کیا جعلی ڈگری پر پبلک ریسورسز چوری کرنے سے زیادہ سزا ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ تاحیات نااہلی اور آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کوئی نیا قانون بھی آچکا ہے؟کل کو الیکشن ہونے کو ہیں۔اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ حال ہی میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت پانچ سال کر دی گئی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ موجودہ کیس 2018 کے انتخابات سے متعلق ہے،اب نئے انتخابات سر پر ہیں تو یہ قابل سماعت معاملہ کیسے ہے؟اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ موجودہ کیس کا اثر آئندہ انتخابات پر بھی ہوگا۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اثر ختم کر سکتی ہے، الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شامل کر کے سپریم کورٹ کا آرٹیکل 62 ون ایف کا فیصلہ غیر موثر ہو چکا۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ درخواست گزار نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کو چیلنج نہیں کیا۔چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 26جون2023کو یہ قانون بنااب بھی کیا اس قانون کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اس پروکیل کا کہنا تھا کہ میں ترامیم چیلنج نہیںکرنا چاہتا۔درخواست گزار کے وکیل ثاقب جیلانی کا کہنا تھا کہ میرا کیس 63-1-Fکا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ 2017کی شق232-2میں ترمیم کرنے کا قانون 6جون2023کو بنایا گیا ، اس قانون کو جب چیلنج کیا جائے گاتوہم دیکھیں گے کہ یہ اچھا یا براقانون ہے۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ ہمیں نہیں کہہ سکتے کہ ہم کیا کریں ، ہم دلائل سن کر فیصلہ کریں گے۔ وکیل کی جانب سے مجھے دومنٹ دیں کہنے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برہمی کااظہار کیا اور کہا میں دو منٹ لوں گا یہ کہہ کرعدالت کاوقت ضائع نہ کریں، اس لفظ سے مجھے نفرت ہے، میں چار منٹ لوں گا،میں چھ منٹ لوں گا۔ چیف جسٹس نے وکیل پر شدید برہمی کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ مائی لارڈ،مائی لارڈ کہنا بند کریں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کے فیصلوں کے اثرات کو الیکشن الیکٹ 2017کی شق232(2)میں ترمیم نے ختم کردیا ہے، پارلیمنٹ نے ترمیم کی ہے اور بادی النظر میں یہ رائج ہو گی جب تک اس کو چیلنج نہ کیا جائے، اس شق پر عمل کریں گے توپھر سارے فیصلے ختم ہوجائیں گے اوریہ قانون رائج ہوگا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم پرنسپل آف لاء کا تعین کررہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ 8فروری کو انتخابات ہونے والے ہیں جاکرکہیں پانچ سال پورے نہیں ہوئے اوریہ قانون ریٹرنگ آفیسر پر بھی لاگو ہوگا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلہ آئین کے آرٹیکل 189کی تشریح کے مطابق ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ زیر التوامقدمات میں سپریم کورٹ کوئی آبزرویشن نہیں دے گی۔ چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ جب الیکشن ایکٹ میں ترمیم چیلنج نہیں ہوئیں تو دوسرا فریق اس پر انحصار کرے گا،الیکشن ایکٹ میں آرٹیکل 232 شامل کرنے سے تو تاحیات ناالی کا تصور ختم ہو گیا ہے،انتخابات سر پر ہیںریٹرننگ افسر، الیکشن ٹریبونل اور عدالتیں اس مخمصے میں رہیں گی کہ الیکشن ایکٹ پر انحصار کریں یا سپریم کورٹ کے فیصلے پر۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کا اطلاق موجودہ انتخابات پر ہوگا،الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 کی شمولیت کے بعد تاحیات نااہلی سے متعلق تمام فیصلے غیر موثر ہو گئے۔اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ میر بادشاہ قیصرانی2013 کے انتخابات میں گریجویشن کی جعلی ڈگری پر نااہل ہوئے،2018 کے عام انتخابات میں میر بادشاہ قیصرانی نے میٹرک کی بنیاد پر کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے،ہائی کورٹ نے میر بادشاہ قیصرانی کو انتخابات لڑنے کی اجازت دی،آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت میر بادشاہ قیصرانی تاحیات نااہل ہیں اور انتخابات نہیں لڑ سکتے تھے،سپریم کورٹ نے فیصلہ نا کہا تو نااہلی کے باوجود آئیندہ انتخابات لڑیں گے، میر بادشاہ قیصرانی کی سزا کے خلاف اپیل لاہور ہائیکورٹ ملتان بینچ میں زیر التوا ہے۔ وکیل کا کہنا تھاکہ سپریم کورٹ ہائیکورٹ کو حکم دے کہ اپیل پر فیصلہ کرے۔اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ ہائیکورٹ کو حکم نہیں دے سکتی،  ہم ہائیکورٹ پر مانیٹرنگ جج نہیں بیٹھے ہوئے،ہم ہائیکورٹ میں زیر التوا اپیل کے معاملے پر نہیں آئینی معاملے پر فیصلہ کریں گے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تاحیات نااہلی بارے سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ 2017کی شق 232(2)دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے،الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں سے کسی ایک کو برقرار رکھنا ہوگا،سنگین غداری جیسے جرم پر نااہلی پانچ سال ہے تو نماز نہ پڑھنے والے یا جھوٹ بولنے والے کی تاحیات نااہلی کیوں؟سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بننے کے بعد اس آئینی تشریح پرکم سے کم پانچ ججز کا بنچ بننا چاہیے،وکیل کے لئے کیس ہارنے یا جیتنے سے بہتر عدالت کی معاونت کرنا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو توسط سے یہ کنفیوژن دور ہوجائے گی۔درخواست گزار ممتازمہاروی کے وکیل شیخ عثمان کریم الدین کا کہنا تھا کہ مدعا علیہ 2018میں جعلی ڈگری پر نااہل ہوئے اور میرے خیال سے یہ نااہلی تاحیات ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ پہلے مدعا علیہ نے 2008میں کہا میں گریجوایٹ ہوں اور پھر 2018میں کہا کہ میں میٹرک ہوں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مدعا علیہ نے 2018میں سچ بولا۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ میرا اعتراض مسترد کرکے ریٹرننگ آفیسر نے کاغذات نامزدگی منظور کر لیئے جبکہ ٹربیونل نے کاغذات مسترد کردیے تاہم ہائی کورٹ نے دوبارہ منظور کر لئے۔وکیل کا کہنا تھا کہ کیس کا میرٹ پر فیصلہ نہیں ہونا چاہیئے۔ اس پر چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیس چلائیں ہم فیصلہ کردیں گے۔ چیف جسٹس نے وکیل کو ہدایت کہ وہ 62(1)(f)پڑھیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین خاموش ہے کہ نااہلی کی مدت کتنی ہوگی، کیا گریجوایشن کی شرط گزشتہ انتخابات میں تھی، کیا یہ غیر متعلقہ نہیں ہو گئی۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ گزشتہ انتخابات میں گریجوایشن کی شرط نہیں تھی۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ پاکستان کی تباہی جو سوچ رہا ہے یا کررہا ہے اس کی نااہلی کی مدت پانچ سال ہے، میرے خیال میں یہ جعلی ڈگری سے زیادہ خطرنا ک ہے، مس کنڈکٹ پر پانچ سال کی سزا ہے۔ چیف جسٹس کا وکیل شیخ عثمان کریم الدین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کیا ان کی شادی لو میرج تھی یا ارینج میرج۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ ارینج میرج تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب ہم بیٹی کا رشتہ کرتے ہیں تو وش لسٹ ہوتی ہے جس میں بہت ساری چیزیں ہوتی ہیں، لڑکا نمازی ہو، پرہیزی ہو تاہم وہ ویسا نکلتا نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63میں اصل نااہلی آتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ امین توہم ایک ہی شخص کی بات کرتے ہیں ، اُس شخص تک ہم پہنچ ہی نہیں سکتے، پاکستان کوتوڑنے والے کی توتاحیات نااہلی ہونی چاہیئے تاہم یہ نااہلی پانچ سال ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی شخص جج نہیں بن سکتا جس کی عمر 45سال سے کم ہو۔ جو چیزیں واضح نہ ہوں ان کی سپریم کورٹ تشریخ کرتی ہے یا پارلیمنٹ تشریح کرتی ہے، آئین کے فریمرز نے نااہلی کی کوئی معیاد نہیں رکھی، اب پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ نااہلی کی مدت پانچ سال ہو گی۔ اونٹ کسی کروٹ توبیٹھنا ہے، کوئی سپریم کورٹ کا فیصلہ ریٹرننگ افسران کے پاس لے جائے گااورکوئی الیکشن ایکٹ میں ترمیم کاسہارا لے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا کہ انتخابات سر پر ہیں کون انتخاب لڑسکتا ہے اورکون نہیں لڑسکتا لوگوں کو پتا ہونا چاہیئے۔ ہمیں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کسی اورکیس میں مسئلہ بن سکتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ تین نومبر کو آئین توڑنے والے کو آئین کے آرٹیکل 63-Gکے تحت پانچ سال کی سزاہوئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جھوٹ بول دیا، نماز نہیں پڑھی یا روزے نہیں رکھے تومیں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ وہ اچھا مسلمان نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ برقراررہے گا یاالیکشن ایکٹ کا سیکشن 232برقراررہے گااس حوالہ سے فیصلہ ہونا چاہیئے وگرنہ افراتفری ہو گی اورہم اگلے دو، تین ماہ انہیں کیسز کے حوالہ سے فیصلے کرتے رہیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئینی سوال کی تشریح کے لئے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تحت پانچ رکنی بینچ بنے گا۔ میر بادشاہ قیصرانی کے وکیل خالد ابن عزیز کا کہنا تھا کہ ان کے مئوکل کو دوسال کی سزا ہوئی تھی۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عام طورپر چھوٹی سزائیں معطل ہو جاتی ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم ہائی کورٹ کے مانیٹرنگ جج تونہیں بیٹھے ہوئے۔ جبکہ ایڈیشنل اٹارنی بلیغ الزاما نے پیش ہوکربتایا کہ دونوں درخواستیں غیر مئوثر ہو چکی ہیں۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت جنوری 2024تک ملتوی کردی۔