ڈی ایچ اے نے آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کی زمین پر کیسے قبضہ کر لیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
ڈی ایچ اے ایک الگ باڈی ہے اورآرمی ویلفیئر ٹرسٹ ایک الگ باڈ ی ہے۔ اگرآپ کاآئین میں کوئی حق بنتا ہے توبتادیں
ہزچیز کے لئے ثبوت ہوتا ہے وہ دکھادیں۔ اب ججز کے لئے یہی رہ گیا ہے کہ وہ کلائنٹس کے لئے بیٹھ کر بحث کریں
کس نے درخواست دائر کی ہے کیوں نہ جرمانہ لگادیں۔ہمیں کوئی دستاویزات نہیں دکھائی گئیں
ڈی ایچ اے ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ میں اپیل دائر نہیں کرسکتی تھی،چیف جسٹس کے دوران سماعت ریمارکس
عدالت نے اپیل ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی
اسلام آباد( ویب نیوز)
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ڈی ایچ اے نے آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کی زمین پر کیسے قبضہ کر لیا، آپ عدالت کے سامنے کون ہیں،، کیا آپ کسی اورکی زمین ہتھیا سکتے ہیں۔ جس سے زمین لی گئی ہے وہ ہمارے سامنے آسکتا ہے یا جس کے لئے لی گئی ہے وہ ہمارے سامنے آسکتا ہے، ڈی ایچ اے ایک الگ باڈی ہے اورآرمی ویلفیئر ٹرسٹ ایک الگ باڈ ی ہے۔ اگرآپ کاآئین میں کوئی حق بنتا ہے توبتادیں، ہزچیز کے لئے ثبوت ہوتا ہے وہ دکھادیں۔ اب ججز کے لئے یہی رہ گیا ہے کہ وہ کلائنٹس کے لئے بیٹھ کر بحث کریں، کس نے درخواست دائر کی ہے کیوں نہ جرمانہ لگادیں۔ہمیں کوئی دستاویزات نہیں دکھائی گئیں، ڈی ایچ اے ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ میں اپیل دائر نہیں کرسکتی تھی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے زمین کی خریداری کے معاملہ پر ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے)اسلام آباد کی جانب سے محمد صدیق اوردیگر کے خلاف راولپنڈی میں سرکاری مقاصد کے لئے حاصل کی گئی 332کنال اراضی کے حوالہ سے دائر اپیل پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے محمد منیر پراچہ اورمدعا علیہ کی جانب سے شیخ ضمیر حسین بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس کیا ہے۔ اس پر محمدمنیر پراچہ کا کہنا تھا کہ ہماری جانب سے زمین کی قیمت میں اضافہ کی مخالفت کی جارہی ہے۔ شیخ ضمیر حسین کا کہنا تھا کہ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے لئے زمین الاٹ ہوئی تھی۔ چیف جسٹس کا شیخ ضمیر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ محمد منیر پراچہ کادلائل دینے کا حق ہے ان کا حق مارلیں۔ چیف جسٹس نے محمد منیر پراچہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کیسے زمین پر قبضہ کر لیا، آپ عدالت کے سامنے کون ہیں،، کیا آپ کسی اورکی زمین ہتھیا سکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جس سے زمین لی گئی ہے وہ ہمارے سامنے آسکتا ہے یا جس کے لئے لی گئی ہے وہ ہمارے سامنے آسکتا ہے، ڈی ایچ اے ایک الگ باڈی ہے اورآرمی ویلفیئر ٹرسٹ ایک الگ باڈ ی ہے۔ چیف جسٹس کا محمد منیر پراچہ کی جانب سے مزید دستاویزات دینے کی استدعا پر کہنا تھا کہ جس دن اپیل لگے گی اسی دن چلے گی، ایک ماہ پہلے نوٹس ملتا ہے، اگرآپ کاآئین میں کوئی حق بنتا ہے توبتادیں، ہزچیز کے لئے ثبوت ہوتا ہے وہ دکھادیں۔ محمد منیر پراچہ کاکہنا تھاکہ مجھے دستاویزات جمع کروانے کے لئے کچھ وقت دے دیں۔ اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ کوئی آئین کی تشریح کی بات تونہیں کہ پانچ رکنی بینچ بنادیں آج کل یہی ہورہا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب ججز کے لئے یہی رہ گیا ہے کہ وہ کلائنٹس کے لئے بیٹھ کر بحث کریں، کس نے درخواست دائر کی ہے کیوں نہ جرمانہ لگادیں۔ اس پر محمد منیر پراچہ کا کہنا تھا کہ میں نے درخواست دائر کی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ میں مقدہ کاٹائٹل ہے محمد صدیق بنام آرمی ویلفیئر ٹرسٹ، پھر توزمین کا حصول ہی دھوکہ دہی کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے فیصلہ لکھواتے ہوئے کہا کہ لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کے تحت زمین حاصل کی گئی اور ڈسٹرکٹ لینڈ کلیٹر نے 14فروری1995کوآرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے نام زمین کی قیمت کے تعین کے حوالہ سے ایوارڈ جاری کیا۔ڈی ایچ اے اسلام آباد نے پہلی بار12ستمبر2013کواپیل دائر کی۔ہم نے سوال کیا کہ ڈی ایچ اے نے کیسے اپیل دائر کی اورکیسے ڈی ایچ اے متاثرہ پارٹی ہے تووکیل جانب سے بتایا گیا کہ ڈی ایچ اے ، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کا جانشین ہے۔ ہمیں کوئی دستاویزات نہیں دکھائی گئیں، ڈی ایچ اے ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ میں اپیل دائر نہیں کرسکتی تھی۔ عدالت نے اپیل ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔