فوج نے دفاعی زمینوں پر کاروبار شروع کر رکھا ہے، آرمی اپنا کام کرے عدالتیں اپنا،سب اپنے مینڈیٹ میں رہیں، چیف جسٹس

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ملی بھگت کے بغیر غیرقانونی تعمیرات ممکن نہیں،دوران سماعت ریمارکس

اسلام آباد( ویب  نیوز)

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ فوج نے دی گئی زمینوں پر شادی ہالز اور پتا نہیں کیا ، کیادھندے کرنا شروع کردیئے، اٹارنی جنرل کہہ دیں فوج یہ دھندے نہیں کرے گی، فوج کے زیر استعمال زمین پر کاروبارنہیں کرسکتے، اگر اضافی زمین ہے تووہ واپس کردیں، وہی کام کریں جو سب کامیڈیٹ ہے، فوج، فوج کے کام کرے، عدالت ،عدالتوں کے کام کرے اور اٹارنی جنرل ، اٹارنی جنرل کے کام کرے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ملی بھگت کے بغیر غیرقانونی تعمیرات ممکن نہیں، سب رجسٹرار کراچی کے اثاثے نکلوا لیجیے ، پھرایس بی سی اے کے انسپکٹرز اور اوپر کے افسران کے اثاثوں کی تفصیلات نکلوالیں، انسپیکٹرز اوراس سے بڑے افسران کے اثاثوں کی تحقیقات کروالیں۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہے کہ پانچ منزلہ بلڈنگ بنتی رہی تب متروکہ املاک بورڈ والے کہاںتھے؟ جب بلڈنگ بن جاتی ہے متروکہ وقت املاک بورڈ والے گرانے آجاتے ہیں۔ بلڈنگ گرانے کاایکشن توسب سے آخر میں ہونا چاہیئے،سب سے پہلے مکمل تحقیقات ہونی چاہیں کہ کس طرح بلڈنگ تعمیر ہوئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میںجسٹس محمد علی مظہراورجسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کراچی میں قانونی اورغیر قانونی تعمیرات کے حوالہ سے دائر 16مختلف درخواستوں پر سماعت کی۔ دفاعی زمینوں پر کمرشل سرگرمیوں کے حوالہ سے کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل بیرسٹر منصورعثمان اعوان پیش ہوئے۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری سے سابق اٹارنی جنرل منیر احمد ملک ویڈیو لنک کے زریعہ پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ یہ کیا کیس ہے۔اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مجھے معاونت کے لئے نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ اس میں بہت ساری سی ایم ایز دائر کی گئی ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ کا 2نومبر2016کا آرڈر ہے ایک مخصوص عمارت کوگرانا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھاکہ رشید احمد رضوی بہت ساری درخواستوں میں پیش ہورہے تھے وہ فوت ہوگئے ہیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ صوبائی معاملہ ہے اس میں آپ کیوں آئے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فوج نے دی گئی زمینوں پر شادی ہالز اور پتا نہیں کیا ، کیادھندے کرنا شروع کردیئے، آپ کہہ دیں فوج یہ دھندے نہیں کرے گی، فوج کے زیر استعمال زمین پر کاروبارنہیں کرسکتے، اگر اضافی زمین ہے تووہ واپس کردیں، وہی کام کریں جو سب کامیڈیٹ ہے، فوج ،فوج کے کام کرے، عدالت ،عدالتوں کے کام کرے اور اٹارنی جنرل ، اٹارنی جنرل کے کام کرے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اصول تو یہی ہے کہ سب اپنا اپنا کام کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کو ایسی ہدایات ہیں تو عدالت کو یقین دہانی کرا دیں۔دوران سماعت متروکہ وقف املاک بورڈ (ای ٹی پی بی) کے وکیل کا کہنا تھا کہ جس بلڈنگ سے تنازع شروع ہوا وہ متروکہ وقف املاک بورڈ کی ہے، الاٹیز نے جعلی دستاویزات پر زمین اپنے نام کرکے فروخت دی اب وہاں پانچ منزلہ عمارت کھڑی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پانچ منزلہ بلڈنگ بنتی رہی تب متروکہ املاک بورڈ والے کہاںتھے؟ جب بلڈنگ بن جاتی ہے متروکہ وقت املاک بورڈ والے گرانے آجاتے ہیں۔ وکیل کا کہنا تھا کہ عبدالکریم بلڈر ہے جس نے بلڈنگ بنائی، بلڈنگ کے رہائشی ٹینٹ بن جائیں کیوں کہ زمیں متروکہ وقف املاک بورڈ کی ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ جب بلڈنگ بن رہی تھی توانہوں نے کورکمانڈر کراچی کو بھی خط لکھا تھا۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کورکمانڈرآپ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا،خط لکھنے کا کیا ہے بے شک صدر پاکستان اورچیف جسٹس پاکستان کو بھی لکھ دیں، اگر کوکمانڈرکچھ کرتے توپھر لوگ کہیں گے کہ اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکل رہے ہیں۔ چیف جسٹس کا وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عمارت کے رہائشیوں کو نوٹس دے کر ٹیننٹ بنا لیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عبدالکریم کے خلاف فوجداری کاروائی ہونی چاہیئے ، ٹیننٹ کا جوبھی طریقہ کارہے دیکھ لیں۔ چیف جسٹس کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ملی بھگت کے بغیر غیر قانونی عمارتیں نہیں بن سکتیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگرسزاملنی چاہیئے توبلڈر کو ملنی چاہیئے، ہم نے ایک اورکیس میں بلڈر کو کہا ہے پیسے جمع کروائیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا بلڈنگ گرانے کاایکشن توسب سے آخر میں ہونا چاہیئے،سب سے پہلے مکمل تحقیقات ہونی چاہیں کہ کس طرح بلڈنگ تعمیر ہوئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ جرم کوئی رات ورات نہیں ہوتا، یہ سب ملے ہوتے ہیں، ایس بی سی اے کے بغیر ایک اینٹ نہیں لگے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ملی بھگت کے بغیر غیرقانونی تعمیرات ممکن نہیں، سب رجسٹرار کراچی کے اثاثے نکلوا لیجیے ، پھرایس بی سی اے کے انسپکٹرز اور اوپر کے افسران کے اثاثوں کی تفصیلات نکلوالیں، انسپیکٹرز اوراس سے بڑے افسران کے اثاثوں کی تحقیقات کروالیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کراچی کے سب رجسٹرارز کے اثاثوں کا آڈٹ بھی ایف بی آر سے کرانا چاہیے، آمدن سے زائد تمام اثاثوں سے رقم مسمار کی گئی عمارتوں کے رہائشیوں کو ملنی چاہیے، سندھ حکومت یہ انکوائری کبھی نہیں کرے گی۔دوران سماعت ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی محمد اسحاق عدالت میں پیش ہوئے ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ ایس بی سی اے میں کتنے انسپکٹرز اور افسران ہیں؟ ۔ڈی جی ایس بی سی اے نے کہا کہ مجموعی طور پر 1400 ملازمین ہیں جن میں چھ سو بلڈنگ انسپکٹر اور تین سو سینئر انسپکٹر شامل ہیں۔ڈی جی ایس بی سی اے کا کہنا تھا کہ ان کی تعیناتی نگران حکومت کے دور میں ہوئی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ کنٹونمٹ کے علاوہ کراچی میں کوئی بھی عمارت بنانے کے لئے ایس بی سی اے کی منظوری درکارہوتی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا ڈی جی ایس بی سی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ملازمین کونوکری سے کیوں نہیں نکالتے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ڈی جی ایس بی سی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا یہ پانچ منزلہ عمارت آپ کے سامنے بن کیسے گئی۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ایس بی سی اے کی جانب سے آکیوپینسی لیٹر جاری ہوئے بغیر کوئی عمارت آباد نہیں ہوسکتی۔ایک درخواست عامر راجپوت نے پیش ہوکربتایا کہ اس نے واٹر بورڈ اینجینئرز اینڈ آفیسرز ایسوسی ایشن سے عمارت کرائے پر لی تھی جو غیر قانونی قراردے کرگرادی گئی تاہم اس نے جو4جون2017کو6کروڑ روپے کی گارنٹی جمع کروائی تھی وہ واپس نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ اس عدالت نہیں اٹھایا جاسکتا متعلقہ فورم پر یہ معاملہ قانون کے مطابق اٹھائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے پاس کون سااختیار ہے کہ وہ کسی سڑک کو کمرشل قراردے یا نہ دے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ قانون کی عدالت ہے اس میں قانون کاحوالہ دیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھاکہ 2019میں پابندی لگ گئی کہ کوئی رہائشی جگہ کمرشل جگہ میں تبدیل نہیں ہوگی۔ جبکہ بینچ نے شنکر لال کی9جولائی2018کو سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت منظور کرنے کے خلاف متروکہ وقف املاک بورڈ کی ضمانت منسوخی کی درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹرائل چلا کہ نہیں۔ اس پر بتایا گیا کہ نہیں چلا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملزم 6سال سے ضمانت پر ہے اس لئے ضمانت منسوخ نہیں کی جاسکتی۔ عدالت نے متروکہ وقف املاک بورڈ کی درخواست خارج کردی۔ اس پر جسٹس مسرت ہلالی کا مسکراتے ہوئے کہنا تھا کہ اوردرخواستیں خارج کروائیں۔ ایک اوردرخواست گزار محمد کامران کومخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لنڈ ڈیڈ منسوخ کرنے کاہمارے پاس اختیار نہیں متعلقہ ادارے یاعدالت سے رجوع کریں۔ اس کے بعد چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب ہم جنرل آرڈر پاس کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کا حکم میں کہنا تھا کہ عمارات مقرر حد سے بلند بنائی گئیں اور رہائشی زمین کو تجارتی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا گیا، رہائشی زمین لے کر بلڈرز نے جیبوں میں پیسے ڈالے اور سندھ بلڈنگ اتھارٹی نے آنکھیں بند کرلیں، بلند عمارات گرانے سے رہائش پذیر عام عوام متاثر ہوگی۔حکم نامے میں کہا گیا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی منظور شدہ بلڈنگ پلان، فلورز کی تعداد کی مکمل تفصیلات تعمیر شدہ عمارت پر آویزاں ہونی چاہیں، خریدار کی سہولت کے لیے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے رابطہ نمبرز بھی آویزاں کیے جائیں تاکہ تصدیق ہو سکے۔عدالت نے تمام تفصیلات ہر عمارت پر آویزاں کرنے کا نوٹی فکیشن کے اجرا کی ہدایت کردی اور کہا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی 60 دنوں میں کسی عمارت کی تعمیر مکمل ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کرے، بلڈرز کو کوئی فرق نہیں پڑتا اصل مسئلہ بے چارے رہائشیوں کا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ غریب خریدار نقصان اٹھائے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ بلڈر اورایس بی سی اے نقصان ا ٹھائے ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر منیر احمد ملک آئندہ سماعت پر کوئی تجاویز دینا چاہیں تو دے دیں۔عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے کہنا تھا کہ باقی معاملات آئندہ سماعت پر دیکھیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس دوبارہ جلد سماعت کے لئے مقررکیا جائے گا۔