سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا تقریبا ایک سو شکایات ججز کو رائے کے لیے بھجوا دی ہیں۔ چیف جسٹس

ہم نے اپنا احتساب خود کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ہم نے خود کو احتساب کے لیے آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے

شہریوں کی معلومات تک رسائی نہایت اہم اور ضروری ہے کیونکہ اس سے ہی احتساب کا عمل شروع ہوتا ہے۔

اسلام آباد( ویب  نیوز)

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ  ہم نے اپنا احتساب خود کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ہم نے خود کو احتساب کے لیے آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے، ہم سپریم کورٹ کا سامنے والا حصہ پبلک کے لیے کھول رہے ہیں۔  سپریم جوڈیشل کونسل کو طریقے سے چلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ججز کے خلاف پرانی شکایات سے اس کا آغاز کیا۔سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا تقریبا ایک سو شکایات ججز کو رائے کے لیے بھجوا دی ہیںاسلام آباد میں صحافیوں کی ایک تربیتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ججز کے خلاف جن شکایات پر کارروائی کے حوالے سے ابتدائی رائے آ چکی تھی ان پر کونسل نے پروسیڈنگ شروع کی۔انہوں نے کہا کہ مزید 100 شکایات کچھ دن پہلے جائزے کے لیے ججز کو بھجوائی گئی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ شہریوں کی معلومات تک رسائی نہایت اہم اور ضروری ہے کیونکہ اس سے ہی احتساب کا عمل شروع ہوتا ہے۔ معلومات بہت موثر  ہتھیار ہے۔ معلومات کا حصول ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ ، عوام تک معلومات کو پہنچانا اچھا اقدام ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ہماری مرضی نہیں کہ آپ کو معلومات دیں یا نہ دیں، معلومات کا آپ تک پہنچنا آپ کا حق بن چکا ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ مثبت روشنی دکھانے سے ہی معاشرہ تبدیل ہوسکتا ہے، کورٹ رپورٹ عدالتی کارروائیوں کی معلومات عوام تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں، شہری کی حیثیت سے کسی بھی معلومات کا حصول آپ کا استحقاق ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کچھ دن ہی پہلے ایک کیس سپریم کورٹ میں آیا۔ عام شہری مختار علی نے مقدمہ دائر کیا کہ عدالت عظمی کے ملازمین سے متعلق معلومات دی جائیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ شہری کی درخواست پر سپریم کورٹ کی معلومات دیں اور اس مقدمے کے فیصلے میں لکھا کہ یہ شہریوں کو بنیادی حق ہے۔ جو شخص یا محکمہ معلومات نہیں دینا چاہتا اس کو بتانا چاہیے کہ اس کے پیچھے کیا وجہ ہے؟انہوں نے کہا کہ آئین کی شق 19 اے بنیادی حقوق کے لیے ہے کہ معلومات تک رسائی ہو، اسی میں آزادی صحافت کا ذکر ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب ہر شہری کے لیے معلومات کی فراہمی حق ہے۔ کورٹ رپورٹر کے ذریعے عدالتی کارروائی عام شہریوں تک پہنچتی ہے۔براہ راست نشریات شروع کیں تاکہ غلط فہمی کی بنیاد پر کسی پر الزام نہ لگایا جائے بلکہ کیس کو سمجھ کر ہی بات کرے۔چیف جسٹس نے اپنے خطاب کے دوران سپریم کورٹ کی سہ ماہی کارکردگی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس سے بہتر کیا موقع ہے کہ صحافیوں کے سامنے خود کو پیش کر دیں۔انہوں نے بتایا کہ آئین کے شق 19 میں آزادی صحافت کا ذکر ہے، ایک شہری نے تفصیلات مانگیں ہیں کہ آپ کی عدالت میں کتنے ملازمین ہیں؟ شہری کو جواب نہیں ملا تو وہ کمیشن چلا گیا، تو ہم خود کیوں نہ عوام کو بتائیں کہ ہم کیاکر رہے ہیں؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم نے اپنا احتساب خود کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ہم عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی سہ ماہی رپورٹ پیش کر رہے ہیں، سہ ماہی رپورٹ میں اہم فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ہے، سہ ماہی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کتنے کیسز دائر ہوئے اور کتنے کیسز کا فیصلہ ہوا۔ن کا کہنا تھا کہ عوام کے پیسے سے چلنے والا ہر ادارہ عوام کا ہے، عوامی ٹیکس سے چلنے والے ہر ادارے سے متعلق معلومات شہریوں کو ملنی چاہیے، اہم کیسز کو براہ راست دکھا رہے ہیں تاکہ شہری سمجھ سکیں اور وہ سوال کر سکیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ معلومات سے ہی احتساب کا عمل شروع ہوتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ 4 سال تک فل کورٹ میٹنگ نہیں کی گئی، ہماری کوشش ہے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کیسز نمٹائیں۔انہوں نے بتایا کہ ہم نے خود کو احتساب کے لیے آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے، ہم سپریم کورٹ کا سامنے والا حصہ پبلک کے لیے کھول رہے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے بتایا کہ صحافیوں کو حال دل نہیں سنایا، امید ہے اب مختلف زاویے نہیں نکالیجائیں گے، صحافی ہم سے اتفاق کریں یا نہ کریں یہ ان کا حق ہے۔