سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے حوالہ سے دائر درخواستوں پر سماعت آج(منگل)تک ملتوی
 سیاسی اور آئینی مسائل پر پارلیمان میں بحث ہونی چاہیئے،وہاں توبالکل نہیں ہوتی ، وہیں اس کی تھوڑی تشریح ہوجائے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
  مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے وکلاء کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کی درخواستوں کی مخالفت کی گئی

اسلام آباد(ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آ ف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے حوالہ سے دائر درخواستوں پر سماعت آج  (منگل)دن ساڑھے 11بجے تک ملتوی کردی۔جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سیاسی اور آئینی مسائل پر پارلیمان میں بحث ہونی چاہیئے،وہاں توبالکل نہیںہوتی اور ہر چیزکے لئے سپریم کورٹ آتے ہیں، وہیں اس کی تھوڑی تشریح ہوجائے، یہاں سے توکوئی خوش جاتا ہے اور کوئی ناراض جاتا ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصورنے ریمارکس دیئے ہیں کہ اب ایسا ہوسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن امیدواروں کو پارٹی کے انتخاب کے لئے 3دن کاوقت دے اس سے معاملہ ختم ہوجائے گا بجائے اس کے کہ ہم کسی بھی چیز کی بڑی تشریح کریں۔جسٹس منیب اخترنے کہا ہے کہ متناسب نمائندگی بنیادی اصول ہے، کوئی سیاسی جماعت اپنی تعداد سے زیادہ نشستیں نہیں لے سکتی،نہ زیادہ دیں اور نہ کم دیں۔جبکہ جسٹس امین الدین خان نے سوال کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل نے بطور پارٹی انتخاب میںحصہ لیا تھا۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ انتخابی نشان واپس ہونے کے بعد تاثر دیا گیا سیاسی جماعت ختم اور جنازہ نکل گیا۔آئین کے آرٹیکل 17کے تحت کیا تصیح نہیں ہوسکتی کہ حق حقدار کوواپس دے دو اورامیدوارواپس پاکستان تحریک انصاف کودے دو اور وہ مخصوص نشستوں کا مطالبہ کرے، میں اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ لوگوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا ہے نہ کہ سنی اتحاد کونسل کو۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ الیکشن کمیشن کوووٹرز کے حقوق کے تحفظ کے لئے غلطیاں خود درست کرنی چاہیں، لوگوں کوحق رائے دہی سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ ساری عمارت ووٹر کے حوالہ سے ہے، کیا الیکشن کمیشن کا آئینی حق نہیں کہ وہ ووٹر کے حق کا تحفظ کرے،کیا سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن اس بات کی اجازت دے سکتے ہیں کہ ووٹر کاحق متاثر ہو اوروہ حق رائے دہی سے محروم ہو۔ہر دور میں کوئی نہ کوئی پارٹی زیر عتاب رہی ہے، پیپلزپارٹی سے تلوار کا نشان چھینا گیا، ن لیگ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ جبکہ جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا ہے کہ ہم نے سیاسی جماعت کی تعریف نہیں پڑھی، جس جماعت نے الیکشن نہیں لڑا وہ سیاسی جماعت کی تعریف میں نہیں آتی، آزاد امیدوار کیسے اس جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں یہ میری ذاتی رائے ہے۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے وکلاء کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کی درخواستوں کی مخالفت کی گئی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ خان آفریدی،جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس  عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اورنعیم اخترافغان پر مشتمل فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق دائر10درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل بیرسٹر منصورعثمان اعوان، یڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق،ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل اتمانخیل،ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان، فیصل صدیقی ایڈووکیٹ، مخدوم علی خان، سینیٹر کامران مرتضیٰ، سینیٹر فاروق حمید نائیک، سکندر بشیر مہمند، سلمان اکرم راجہ، بیرسٹر محمد اکرم شیخ، شاہ خاورایڈووکیٹ، جہانگیر خان جدون، ڈی جی لاء الیکشن کمیشن محمد ارشد، احمد اویس،پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، سینیٹر شبلی فراز، کنول شوزب،فیصل جاوید خان، سینیٹر محسن عزیز، محمد عامر ڈوگر، شوکت محمود بسرا، فواد چوہدری اوردیگر رہنما موجود تھے۔ سماعت کے آغاز پر ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے بتایا کہ انہوں نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ پر عملدآمد نہ کرنے کے معاملہ پر وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور کے خلاف دائر توہین عدالت کی درخواستوں کے خلاف 4درخواستیں دائر کی ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاایڈووکیٹ جنرل کے پی کومخاطب کرتے ہوئے کہناتھا کہ اگر وزیر اعلیٰ کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی جاری رہتی ہے توآئین کے مطابق پھر آپ پراسیکیوٹر بنیں گے، کیا آپ ان درخواستوں میں وزیراعلیٰ کادفاع کرسکتے ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کا ایڈووکیٹ جنرل کے پی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کہتے ہیں کہ جب بات آگے بڑھے گی تودیکھا جائے گا۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کاآغاز کیااورسپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ کاحکمنامہ پڑھ کرسنایا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مدعا علیحان کون ہیں، فائدہ اٹھانے والے کون ہیں، ایک سیٹ، دوسیٹ، کتنی سیٹیں الاٹ ہوئی ہیں، تعداد بتادیں۔ فیصل صدیقی ائیڈووکیٹ نے بتایا کہ جن کو اضافی نشستیں دی گئیں وہ بینفشری ہیں، مجموعی طور پر 77 متنازعہ نشستیں ہیں، قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی کی 55 نشستیں متنازعہ ہیں۔فیصل صدیقی کا کہناتھا کہ خواتین کی قومی اسمبلی کی خیبرپختونخواکی8،پنجاب کی قومی اسمبلی کی خواتین کی 11اورسندھ سے قومی اسمبلی خواتین کی ایک نشست شامل ہے جبکہ اقلیتوں کی 2نشستیں شامل ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کے پی کی 8خواتین کی نشستیں کس کوگئیں، کل 22یا23نشستیں ہیں۔فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ (ن)لیگ کو قومی اسمبلی کی پنجاب سے 9اورکے پی سے 4,پی پی پی پی کو پنجاب اور کے پی سے 2,2، ایم کیوایم کو1، پاکستان مسلم لیگ کو1اوراستحکام پاکستان پارٹی کو 1نشست ملی۔جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ اقلیتوں کی 2نشستیں کس کو ملی ہیں۔ اس پر فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ ایک (ن)لیگ اورایک پی پی پی پی کو ملی ہے۔فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی کی خواتین کی 21نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ ہوئیں جن میں 19(ن)لیگ کو، ایک پی پی پی پی کو اورایک استحکام پاکستان پارٹی کو ، جبکہ اقلیتوں کی تین میں سے دونشستیں (ن)اورایک پی پی پی پی کو الاٹ ہوئی۔الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہناتھا کہ قومی اسمبلی کی 23نشستوں پر تنازعہ ہے جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی نشستوںپر کوئی تنازعہ نہیں۔ چیف جسٹس نے فیصل صدیقی کو خیبر پختونخواہ کو کے پی کے بولنے سے روکتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخواہ کے لوگ اس نام سے بلائے جانے پر برامناتے ہیں،انہیں خیبرپختونخوا کہیں۔فیصل صدیقی نے بتایا کہ خیبرپختونخوااسمبلی کی کل 20خواتین کی نشستیں تھیں جن میں سے جے یو آئے (ف)کو 8، (ن)لیگ کو 5، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینیزن کو 5، عوامی نیشنل پارٹی کو1اورپاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین کو 1نشس ملی۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ ان جماعتوں نے صوبائی اسمبلی کی اصل نشستیں کتنی حاصل کی تھیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ 20سے22دسمبر2023تک کاغذات نامزدگی جمع ہوئے کیا سنی اتحاد کونسل کے امیدواروں کو کسی جماعت سے منسلک ہونے کا سرٹیفیکیٹ ملا، یہ آزاد تھے یا کسی جماعت کے ساتھ منسلک تھے۔فیصل صدیقی نے بتایا کہ ہمارے جیتنے والے امیدواروں نے پارٹی کا سرٹیفکیٹ لگایا تھا اس کے باوجود الیکشن کمیشن نے کہہ دیا آپ آزاد امیدوار ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا الیکشن کمیشن کو یہ اختیار ہے وہ کسی کو خود آزاد ڈیکلئیر کر دے؟ جب پارٹی بھی کہہ رہی ہو یہ ہمارا امیدوار ہے امیدوار بھی پارٹی کو اپنا کہے الیکشن کمیشن کا اس کے بعد کیا اختیار ہے؟چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا بینفشری جماعتوں میں سے کوئی عدالت میں سنی اتحاد کونسل کی حمایت کرتی ہے؟چیف جسٹس نے پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک سے استفسار کیا کہ آپ کی جماعت  پی پی ہے یا پی پی پی پی ہے۔ اس پر فاروق نائک کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینیز ہے۔جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے وکلاء کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کی درخواستوں کی مخالفت کی گئی۔کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کانام جمیعت علماء اسلام پاکستان ہے۔اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ (ف)نکال دیںتوپیچھے کچھ نہیں بچتا۔ اس پر کامران مرتضیٰ کا کہناتھاکہ کسی بھی جماعت کالیڈر پارٹی ہے وہ نکل جائے تو پارٹی کی کوئی حیثیت نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہوا آپ سب اضافی ملی ہوئی نشستیں رکھنا چاہتے ہیں۔فیصل صدیقی کا کہناتھا کہ متاثرین کو نوٹس دیناچاہیئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھا کہ متناسب نمائندگی میںتو پارٹی نمائندگی کرتی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ متاثرین کو الیکشن کمیشن کے زریعہ بھی نوٹس جاری ہوسکتا ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے سوال کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل نے بطور پارٹی انتخاب میںحصہ لیا تھا۔ اس پر فیصل صدیقی کاکہناتھا حصہ نہیں لیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارٹی کی رجسٹریشن دکھادیں۔ چیف جسٹس کا فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ اپنے طریقہ سے دلائل دیں۔اس دوران سپریم کورٹ کی بجلی بند ہوگئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ بجلی کیا جنریٹر پر نہیں ہے، براہ راست سماعت جاری ہے تاہم اے سی بند ہو گیا ہے۔ اس کے بعد لائیو کوریج بھی بند ہوگئی تاہم چند سیکنڈ بعد دوبارہ بحال ہو گئی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ حتمی فہرست سے پتہ چلے گا کہ کتنے امیدوار آزاد کھڑے تھے اورکتنے سیاسی جماعتوں کی جانب سے کھڑے تھے۔فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ 22دسمبر کو الیکشن کمیشن کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف سے انتخابی نشان واپس لینے کافیصلہ آیا۔ جسٹس امین الدین خان کا کہناتھا کہ کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی تاریخ 2دن کے لئے بڑھائی گئی تھی۔ فیصل صدیقی کا کہناتھا کہ جس دفتر میں دستاویزات تھیں وہ سیل کردیا گیا ۔اس پرجسٹس کا فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایسی باتیں نہ کریں جوہمارے سامنے نہیں۔ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ 13جنوری 2024کو سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی سے بلے کانشان واپس لینے کا حکم جاری کیا۔جسٹس اطہر من اللہ نے بھی کہا کہ کیا انتخابی نشان واپس ہونے سے سیاسی جماعت تمام حقوق سے محروم ہوجاتی ہے؟جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا انتخابی نشان واپس ہونے کے بعدآئین کے آرٹیکل 17 کے تحت قائم سیاسی جماعت ختم ہوگئی تھی یا وجود برقرارتھا؟ کیا انتخابی نشان واپس ہونے پر سیاسی جماعت امیدوار کھڑے نہیں کرسکتی تھی؟ پیش ایسے کیا گیا کہ جمہوریت کا جنازہ نکال دیا گیا اورپارٹی ختم ہو گی، کیا یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ پی ٹی آئی بطور جماعت برقرار تھی اور مخصوص نشستوں کی فہرستیں بھی جمع کرائی تھیں؟جسٹس منیب اخترکا کہنا تھا کہ متناسب نمائندگی بنیادی اصول ہے، کوئی سیاسی جماعت اپنی تعداد سے زیادہ نشستیں نہیں لے سکتی،نہ زیادہ دیں اور نہ کم دیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھاکہ کیا اس سے ہم یہ اخذ نہ کریں کہ پی ٹی آئی بدستوربرقرارتھی ، پی ٹی آئی نے بدستوراپنے امیدوارکھڑے کئے تھے، مخصوص نشستوں کی فہرست جمع کروائی تھی۔ اس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی نے فہرستیں جمع کرائیں لیکن الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیں۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کاکیا کردار ہے کیا وہ مخالف پارٹی کے طورپر کردار اداکرسکتی ہے یااس نے تمام جماعتوں کے لیے ایک جیسا کرداراداکرنا ہے۔ چیف جسٹس نے فیصل صدیقی کو ججز کے سوالات کے جواب دینے سے روکتے ہوئے کہا کہ سوالات کو چھوڑیں اپنے طریقے سے جواب دیں۔فیصل صدیقی نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ شکر ہے ابھی آپ نے سوال نہیں پوچھے۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فل کورٹ میں بیٹھنے کا مزہ اور تکلیف یہی ہے۔فیصل صدیقی کاکہناتھاکہ آج میں اپنے فیکٹس مکمل کرلوں گا۔ جسٹس منیب اخترکا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن 218(3)کا حوالہ دیتا ہے ، بادی النظر میں کیا مثبت اور منفی ذمہ داری اداکرسکتے ہیں۔ جسٹس منیب اختر  نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں کوئی نشست نہیں جیتی تھی، الیکشن کمیشن کے احکامات میں کوئی منطق نہیں لگتی، الیکشن کمیشن ایک جانب کہتا ہے سنی اتحاد الیکشن نہیں لڑی ساتھ ہی پارلیمانی جماعت بھی مان رہا، اگر پارلیمانی جماعت قرار دینے کے پیچھے پی ٹی آئی کی شمولیت ہے تو وہ پہلے ہوچکی تھی۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر سنی اتحاد کونسل سے غلطی ہوئی تھی تو الیکشن کمیشن تصحیح کر سکتا تھا، عوام کو کبھی بھی انتخابی عمل سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔جسٹس جمال مندوخیل  نے بھی کہا کہ اگر ایسا ہو جائے تو نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں گی سنی اتحاد کو نہیں، عوام نے کسی آزاد کو نہیں بلکہ سیاسی جماعت کے نامزد افراد کو ووٹ دیے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھاکہ کیا پی ٹی آئی نے چیلنج کیا کہ ہم پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں،پی ٹی آئی امیدوارآزاد ہی نہیں تھے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ آپ نے مخصوص نشستوں کی درخواست کب دائر کی۔اس پر فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ 21فروری کو۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھاکہ کیا جن لوگوں نے ایک پارٹی میں شمولیت اختیار کی وہ دوسری جماعت سے منسلک نہیں تھے، جو پارٹی متاثر ہوئی اور بقول وکیل جن کے امیدوار چرائے گئے انہوں نے کیا کیا؟چیف جسٹس نے ایک بار پھر فیصل صدیقی کو ججز کے سوالات کے جواب دینے سے روکتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے دلائل نہیں دینگے تو مجھے کیا سمجھ آئے گی کہ آپ کی جانب سے کیا لکھنا ہے، میرا خیال ہے فیصل صدیقی صاحب ہم آپ کو سننے بیٹھے ہیں۔چیف جسٹس کا فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے ہمیں کچھ نہیں بتایا، کچھ حقائق بتائیں۔اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا فل کورٹ بیٹھی ہے ہر جج سوال پوچھ سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فیصل صاحب آگے بڑھیں میں نے ہلکے پھلکے انداز میں بات کی تھی۔چیف جسٹس کا فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ دلائل دیں گے کہ نہیں۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا پی ٹی آئی پیچھے تھی اس لئے امیدوار جیتے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سارامعاملہ عوام کاہے، الیکشن کمیشن کوخود غلطی کودرست کرنا چاہیئے تھا،عوام کومتاثر نہیں ہونا چاہیئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ عوام نے امیدواروں کو نہیں بلکہ پارٹی کو ووڈ یا۔ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے منتخب ارکان نے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو کرخود کوزیروکرلیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 51کے تحت یہ لوگ کسی پارٹی میں شامل ہو سکتے تھے اور ان کو مخصوص نشستیں مل سکتی تھیں۔اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے آزاد امیدواروں کو سنی اتحاد کونسل میں شمولیت سے نہیں روکا، کمیشن کہہ سکتا تھا اس جماعت نے تو الیکشن نہیں لڑا، مگر کمیشن نے ایسا نہیں کیا اور لوگوں کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کو تسلیم کیا، جب تین دن کا وقت گزر گیا اس کے بعد الیکشن کمیشن نے کہہ دیا آپ کو تو مخصوص نشستیں نہیں ملنی، اب وہ لوگ کہہ سکتے ہیں آپ نے شمولیت کروائی اب میں اپنا حق مانگنے آیا ہوں، الیکشن کمیشن پہلے شمولیت درست مانتا ہے بعد میں مخصوص نشستیں بھی نہیں دیتا، رکن اسمبلی کہہ سکتا ہے پہلے شمولیت سے روکا نہیں تو اب حق بھی دیں۔فیصل صدیقی کا کہناتھاکہ 22اور23فروری کو الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل میں ارکان کی شمولیت کانوٹیفکیشن جاری کیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہمیں ثبوت دیں کہ کب سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن قانون پر عمل نہیں کرتا توکیا اس فیصلے پر عمل کرنا ہم پر ضروری ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ آئین نے 3دن بتایا تھا چوتھے دن نہیں ہوسکتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والوں اور جن کو مخصوص نشستوں پر رکن بنایا گیا ان کو پارٹی نہیں بنایا گیا، قانون میں تمام افرا د کے حق کا تحفظ کرنا ہم پر فرض ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بلے کے نشان والے فیصلے پر لوگوں کو مس گائیڈ کیا گیا، آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں بھی شامل ہو سکتے تھے کوئی پابندی نہیں تھی۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھا کہ کیا تحریک انصاف کو پارٹی بنایا، یہ عوام کا حق تھا،عوام نے پی ٹی آئی کوووٹ دیا۔جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس کے بعد چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے کہا کہ آپ پی ٹی آئی کی جانب سے نہیں بول سکتے ، میرے قلم نے آدھے گھنٹے سے کچھ نہیں لکھا، آپ نے آدھے گھنٹے سے کچھ بھی نہیں لکھوایا۔فیصل صدیقی نے جوابا کہا کہ میں پہلے حقائق آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں، آپ لکھ لیں کہیں قلم سوکھ نہ جائے۔جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ کیاآزاد امیدوار مخصوص نشستوںکا مطالبہ کرسکتے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ کاکہناتھا کہ الیکشن کمیشن کوووٹرز کے حقوق کے تحفظ کے لئے غلطیاں خود درست کرناچاہیں، لوگوں کوحق رائے دہی سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔جسٹس سید منصور کا کہنا تھا کہ کیا اب ایسا ہوسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن امیدواروں کو پارٹی کے انتخاب کے لئے 3دن کاوقت دے اس سے معاملہ ختم ہوجائے گا بجائے اس کے کہ ہم کسی بھی چیز کی بڑی تشریح کریں۔  جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہم حقیقت کو کیوں نہ دیکھیں، سنی اتحاد کونسل ہمارے سامنے اس لئے ہے کہ اس میں پی ٹی آئی کے جیتے لوگ شامل ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آئین کاآرٹیکل 6 ڈی فیصلہ کرے گا سیٹیں سنی اتحاد کونسل کو مل سکتی ہیں یا نہیں، اس میں دو چیزیں ہیں ایک پارٹی لسٹ پہلے سے ہونی چاہیے، دوسری بات ہیں الیکشن میں سیٹیں حاصل کرنا۔فیصل صدیقی نے دلائل دیے کہ قانون کے مطابق مخصوص نشستوں کیلئے کسی جماعت کا الیکشن لڑنا ضروری نہیں، آزاد امیدوار بھی جماعت میں شامل ہوجائیں تو مخصوص نشستیں دی جانی ہیں، ہم سے پہلے بلا لیا گیا پھر کہا گیا اب بیٹنگ کریں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مجھے وکیل کی بحث سمجھ نہیں آرہی ، اگر الیکشن کمیشن کا کوئی کارندہ آپ کے حق میں یا خلاف خط لکھ دے تو اس سے کچھ نہیں ہوگا، ہم آئین اورقانون دیکھنے کے لئے بیٹھے ہیں،فیکٹس نہیں دے رہے اورصرف کہہ رہے ہیں تاریخ دیکھ لیں۔ چیف جسٹس کا فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کتنا وقت دلائل دینے کے لئے لیں گے۔اس پر فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ دو سے تین گھنٹے لوں گا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں وہاں تک پہنچا ہی نہیں ہوں کہ جہاں پر گزارشات سنوں۔ فیصل صدیقی کا چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ قلم اٹھالیں خشک ہی نہ ہوجائے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیاسنی اتحاد کونسل نے انتخاب لڑا کہ نہیں۔ اس پر فیصل صدیقی کا کہناتھا کہ نہیںلڑا،سارا تنازعہ یہی ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ الیکشن نہیںلڑا اور فہرستیں بھی جمع نہیں کروائیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ کیا پورے پاکستان میں کوئی کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔ اس پر فیصل صدیقی کا کہناتھا نہیں کروائے۔جسٹس محمد علی مظہر کا فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ تحریری دلائل جمع کروادیں فل کورٹ میں بڑا مشکل ہوتا ہے۔جسٹس سید منصور علی شاہ کاکہنا تھا کہ اگر آزادارکان شامل ہوتے ہیں تویہ بھی سیٹیں حاصل کرنا ہی ہوتا ہے۔جسٹس عائشہ اے ملک کا کہنا تھا کہ پارٹی وہی ہو گی جو پہلے رجسٹرڈہو گی۔جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ میں گزشتہ دنوں کینیڈا گیا اور وہاں کی سپریم کورٹ کا دورہ کیا وہاں پر ایک گھنٹے میں وکیل دلائل مکمل کرلیتا ہے اورججز سوال بھی پوچھ لیتے ہیں۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ہمارے ججز کوکچھ عرصہ کے لئے تربیت کے لئے بھجوانا چاہیئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ ہائبرڈسسٹم ہے ویسے ہوگا جیسے لکھا گیا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں نان پارٹی الیکشن ہوئے ہیں، ہم سب جانتے ہیں وہ کون کرواتا ہے۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ ہم نے سیاسی جماعت کی تعریف نہیں پڑھی، جس جماعت نے الیکشن نہیں لڑا وہ سیاسی جماعت کی تعریف میں نہیں آتی، آزاد امیدوار کیسے اس جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں یہ میری ذاتی رائے ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھاکہ ووٹر جو ہمارے سامنے نہیں کھڑا اس کے حق کاتحفظ کرنا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ساری عمارت ووٹر کے حوالہ سے ہے، کیا الیکشن کمیشن کا آئینی حق نہیں کہ وہ ووٹر کے حق کا تحفظ کرے،کیا سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن اس بات کی اجازت دے سکتے ہیں کہ ووٹر کاحق متاثر ہو اوروہ حق رائے دہی سے محروم ہو۔جسٹس منیب اختر کاکہنا تھا کہ پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ بغیر بلے کے ہماری بلے بلے ہو۔چیف جسٹس کا کہناتھا کہ سیاسی اور آئینی مسائل پر پارلیمان میں بحث ہونی چاہیئے،وہاں توبالکل نہیںہوتی اور ہر چیزکے لئے سپریم کورٹ آتے ہیں، وہیں اس کی تھوڑی تشریح ہوجائے، یہاں سے توکوئی خوش جاتا ہے اور کوئی ناراض جاتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہر دور میں کوئی نہ کوئی پارٹی زیر عتاب ہی رہتی ہے، پیپلزپارٹی سے تلوار کا نشان چھینا گیا، ن لیگ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔چیف جسٹس کا فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ابھی ہم ختم نہیں کررہے ابھی وارم اپ کررہے ہیں۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سماعت منگل دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔ZS
#/S