چیف جسٹس سپریم کورٹ نے سیاسی لیڈر شپ کو سیاسی مسائل مذاکرات سے حل کرنے کی تجویز دیدی

عدلیہ اکیلے تمام مسائل حل نہیں کرسکتی، تمام آئینی اداروں کو احسن طریقے سے اپنے فرائض ادا کرنا ہوں گے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال

عدلیہ معاشی معاملات میں تحمل سے کام لیتی ہے، ایگزیکٹو کو فیصلوں پر بلاتاخیر عمل کرنا چاہیے،بوگس کیسز کلچر کا خاتمہ ناگزیر ہے

عدلیہ آئین کے تحفظ کیلئے پرعزم ہے، وہ دن دورنہیں جب پاکستان ایک ترقی یافتہ ریاست بنے گا،بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس سے خطاب

اسلام آباد(ویب  نیوز)

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے سیاسی لیڈر شپ کو سیاسی مسائل مذاکرات سے حل کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ اکیلے تمام مسائل کوحل نہیں کر سکتی، سیاسی مسائل کا حل بات چیت سے ہی ممکن ہے، ایگزیکٹو کو فیصلوں پر بلاتاخیر عمل کرنا چاہیے، سیاسی لیڈر شپ کو بات چیت کرنی چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے  9ویں بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔  چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس کے کامیاب انعقاد پرمبارکباد دیتا ہوں، کانفرنس شرکا کا تمام تقاریر کو صبر و تحمل سے سننا قابل ستائش ہے،کانفرنس میں شریک تمام مندوبین کا خیرمقدم کرتا ہوں، کانفرنس سے پاکستان کے عدالتی نظام کومزید بہتربنانے میں مدد ملے گی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال  نے کہا کہ آئین پاکستان عوام کی امنگوں کا ترجمان ہے، آئین پاکستان میں عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا گیا ہے، یوسف رضا گیلانی کیس میں آئین کی پاسداری کی گئی،نعمت اللہ کیس میں آئین کی شق 9 پرعملدرآمد یقینی بنایا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدلیہ نے بلاتعصب قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا ہے، عدلیہ نے معاشرے کے محروم طبقے کے حقوق کے تحفظ کے لیے یاد گار فیصلے دیئے۔ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، عدلیہ نے ٹرانس جینڈر کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا فیصلہ دیا، عدلیہ نے اقلیتوں کے حقوق سمیت سکولوں سے متعلق اہم فیصلے دیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حالیہ سیلاب سے پاکستان میں شدید تباہی آئی ہے،سیلاب متاثرین کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے عدلیہ بھی کردار ادا کر رہی ہے۔ حالیہ سیلاب قانون سازوں کے لیے ویک اپ کال ہے، آئین کی شق 9 کے تحت عوامی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے، جمہوریت کا استحکام آئین وقانون کی بالادستی سے وابستہ ہے، انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سپریم کورٹ نے سوموٹو نوٹسزلیے۔ گڈ گورننس بھی قانون کی بالادستی کا ایک اہم جزوہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ نے سرکاری ملازمین کی تقرری شفاف بنانے سے متعلق متعدد فیصلے دیئے، عدلیہ  اکیلے تمام مسائل کوحل نہیں کر سکتی، تمام آئینی اداروں کو اپنے فرائض بطریق احسن ادا کرنا ہوں گے، عدلیہ میں زیرسماعت مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کی تحلیل اور ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیا، ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی نے آئین سے متصادم رولنگ دی اسے بھی کالعدم قرار دیا، عدلیہ نے بڑھتی آبادی پر از خود نوٹس لیا، تعیناتیاں میرٹ پر ہونی چاہئیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدلیہ معاشی معاملات میں تحمل سے کام لیتی ہے، عدلیہ تنہا چیلنجز سے نہیں نمٹ سکتی، ایگزیکٹو کو فیصلوں پر بلاتاخیر عمل کرنا چاہیے، بوگس کیسز کلچر کا خاتمہ ہونا چاہیے، ویڈیو لنک کے ذریعے بھی کیسز سنے جا رہے ہیں۔عدلیہ نے ایک لمبا سفر طے کیا ہے، جمہوری بالادستی کے لیے اہم فیصلے دیئے ہیں، عدلیہ نے اسمبلیوں کی بحالی کا فیصلہ دیا، سیاسی لیڈر شپ کو بات چیت کرنی چاہیے، سستا اور فوری انصاف ہماری ترجیح ہے، عدلیہ آئین کے دفاع اور قانون کی رکھوالی ہے، قانون کی بالادستی اور بنیادی حقوق کے ضامن ہیں۔