•  آپ کا بیان ریکارڈ کرتے ہیں فرد جرم عائد نہیں کرتے، آپ نے اپنے بیان کی سنگینی کو سمجھا، ہم اس کو سراہتے ہیں،چیف جسٹس اطہر من اللہ
  •  آپ تحریری حلف نامہ جمع کرائیں، بیان حلفی داخل کریں پھر عدالت جائزہ لے گی،چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ
  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو حلف نامہ جمع کرانے کے لیے 29 ستمبر تک کی مہلت دیدی،سماعت3اکتوبر تک ملتوی

اسلام آباد (ویب نیوز)

خاتون جج کو دھمکی دینے پر توہین عدالت کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوکر معافی مانگ لی، جس کے بعد عدالت نے عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی موخر کردی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 5 ججوں پر مشتمل لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی، جس میں عدالت نے عمران خان کی جانب سے معافی کو منظور کرتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی موخر کرنے کا فیصلہ کیا۔ سماعت کا آغاز کرتے ہوئے عدالت نے عمران خان کو روسٹرم پر طلب کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آج ہم صرف چارج پڑھیں گے۔ اس موقع پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ پچھلی سماعت پر عمران خان بات کرنا چاہتے تھے ۔ عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ میری 26 سال کی کوشش رول آف لاء کی ہے۔ میرے سوا جلسوں میں رول آف لا کی کوئی بات نہیں کرتا ۔ عمران خان نے عدالت سے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں خاتون جج کے پاس جائوں ۔ میں معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں ۔جو میں نے کہا جان بوجھ کر نہیں کہا ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دیکھئے عمران خان صاحب، ہمارے لیے توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنا نہیں تھا ۔ کیس زیر التوا تھا اس لیے ہم نے توہین عدالت کی کارروائی شروع کی۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کا بیان ریکارڈ کرتے ہیں فرد جرم عائد نہیں کرتے، آپ نے اپنے بیان کی سنگینی کو سمجھا، ہم اس کو سراہتے ہیں،  آپ تحریری حلف نامہ جمع کرائیں، بیان حلفی داخل کریں پھر عدالت جائزہ لے گی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کا معافی کا بیان سن کر فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی موخر کردی۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو حلف نامہ جمع کرانے کے لیے 29 ستمبر تک کی مہلت دی اور کیس کی سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ قبل ازیں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، شاہ محمود قریشی، شبلی فراز اور عمران خان کے وکیل حامد خان اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے۔ اس موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے اور کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو احاطہ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے اندر حفاظتی انتظامات کی ذمہ داری سکیورٹی ڈویژن کی دی گئی تھی جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اندر ایف سی اور رینجرز کے اہلکار بھی تعینات کئے گئے تھے ۔سکیورٹی آرڈر کے مطابق عدالت کے روف ٹاپ کے علاوہ تمام افسران اور اہلکار غیر مسلح کیے گئے اور ڈیوٹی پر تعینات اہلکاروں کے موبائل فون استعمال کرنے پر بھی پابندی عائد کی گئی جبکہ وائرلیس کے غیر ضروری استعمال پر بھی پابندی عائد کی گئی۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے اطراف خاردار تاریں لگا کر راستہ بند کردیا گیا ۔