نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف حکومتی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ، نیب کا جمع کردہ جواب مسترد ،نیب سے 10 سالہ بجٹ کا ریکارڈ طلب
 اگر کوئی مزید دستاویزات جمع کروانا چاہتا ہے تو ایک ہفتے میں کرواسکتا ہے،چیف جسٹس
 قانون معطل کرنا پارلیمنٹ کی توہین ہے ۔ نیب ترامیم میں کون ساغیرآئینی کام ہوا ہے وہ بتادیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
 ہمارے اعلیٰ افسران میں ہمت پیدا کرنے کی ضرورت ہے خودبخود کرپشن ختم ہوجائے گی، جسٹس جمال خان مندوخیل ہو
کسی بھی حالت میں پارلیمنٹ کا بنایا گیا قانون معطل نہیں ہوسکتا۔ آج کل عمران خان زیر عتاب ہیں ، اگر ان کو کہہ دیں کہ اپنے سارے اثاثوںکو ثابت کریں تو یہ بہت مشکل ہو گا۔ جسٹس اطہر من اللہ
یہ بات درست ہے مجھے پارلیمنٹ جانا چاہیے تھا، بانی پی ٹی آئی کا چیف جسٹس سے مکالمہ

 اسلام آباد( ویب  نیوز)

سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) قوانین میں ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ قانون معطل کرنا پارلیمنٹ کی توہین ہے۔ آج کل یہ ہورہا ہے کہ تم یہ کہنا میں وہ کہوں گا، یہاں بڑے شیر بنتے ہیں، قانون ،اصول اورآئین سیاست کے ساتھ مکس نہیں ہونا چاہیئے۔انصاف نہ صرف ہونا چاہیئے بلکہ ہوتا ہوانظر بھی آناچاہیئے،کیوں اس درخواست کی سماعت کی جلدی تھی اوردیگر کے حوالہ سے تساہل دکھایا گیا، اسی وجہ سے دنیامیں ہماری عدلیہ کانمبر گرا ہے اچھے خاصے آرڈرکوبلاوجہ دھبہ لگادیتے ہیں۔ نیب ترامیم میں کون ساغیرآئینی کام ہوا ہے وہ بتادیں۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ اگر سیکرٹری اور پرنسپل اکاوئنٹنگ آفیسر انکار کردے توسیاستدان کس طرح کرپشن کرسکتا ہے،اگر سیکرٹری یا متعلقہ افسر سمری آگے بھجواتے ہوئے یہ کہہ دے کہ یہ کام نہیں ہوسکتا توکیا وزیر یہ کام کرسکتا ہے۔ ہمارے اعلیٰ افسران میں ہمت پیدا کرنے کی ضرورت ہے خودبخود کرپشن ختم ہوجائے گی،بنیاد پر رکیں گے توزخم خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔ عدالت کو پارلیمنٹ کو ہدایت نہیں دینی چاہیئے اور مشورہ بھی احتیاط کے ساتھ دینا چاہیئے۔ جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ نیب سے ظالمانہ اور من مانی پر مبنی اختیارات واپس لئے ہیں۔ وکیل، مدعا علیہ نمبر 1اوراس کے سارے خاندان کو ظالمانہ قانون کے سامنے ایکسپوز کروارہے ہیں۔کسی بھی حالت میں پارلیمنٹ کا بنایا گیا قانون معطل نہیں ہوسکتا۔ پرویز مشرف کے دور میں اس قانون کے نفاذ کا مقصد سیاسی انجینئرنگ تھی اس لئے اتنے اختیارات نیب کو یئے گئے۔  آج کل عمران خان زیر عتاب ہیں ، اگر ان کو کہہ دیں کہ اپنے سارے اثاثوںکو ثابت کریں تو یہ بہت مشکل ہو گا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس سید حسن اظہر رضوی پر مشتمل 5رکنی لارجر بینچ نے سپریم کورٹ کی جانب سے نیب ترامیم2022 کو کالعدم قراردینے کے خلاف وفاق پاکستان اوردیگر کی جانب سے دائر 4نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی۔دوران سماعت اٹارنی جنرل آف پاکستان منصورعثمان اعوان، وفاق کے وکیل مخدوم علی خان، سینیٹر فاروق حمید نائیک، خواجہ حارث احمد،ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل اتمانخیل، ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس اوردیگر وکلاء موجود تھے۔مدعا علیہ نمبر1عمران خان اڈیالہ جیل راولپنڈی سے ویڈیو لنک کے زریعہ پیش ہوئے۔ جبکہ پی ٹی آئی رہنما سینیٹر شبلی فراز، فیصل جاوید خان اوردیگر رہنما موجودتھے۔سماعت کے آغاز رپر درخواست گزار زوہر احمد صدیقی کے وکیل سینیٹر فاروق حمید نائیک روسٹر پرآئے۔ چیف جسٹس کا فاروق نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اپنے دلائل جمع کروادیںاگر ضرورت پڑی توہم آپ سے سوال پوچھ لیں گے۔فاروق نائیک کاکہناتھاکہ میں مخدوم علی خان کے دلائل سے متفق ہوںتاہم خود بھی دلائل دوںگا۔چیف جسٹس کا فاروق نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ دونوںکی منزل ایک ہی ہے تاہم منزل تک پہنچنے کے طریقہ کارمیںفرق ہے۔فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ میں جسٹس سید منصور علی شاہ کے اقلیتی فیصلے کی حمایت کرتا ہوں۔فاروق ایچ نائیک کے بعد عدالت کی جانب سے عمران خان کے لئے مقرر کئے گئے سینئر وکیل خواجہ حارث احمد نے دلائل کا آغاز کیا۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا بینچ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023کے مطابق تھا۔چیف جسٹس کا کہناتھا کہ ہم نے نیب ترامیم کو چیلنج کرنے کے حوالہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائرمقدمہ کاریکارڈ منگوایا ہے وہ آگیا ہے۔خواجہ حارث کا کہناتھا کہ عمران خان کی جانب سے 25جون2022کو آئینی درخواست دائر کی گئی تھی۔چیف جسٹس کا کہناتھاکہ نیب ترامیم سے کیا بنیادی حقوق متاثرہوئے ہیںوہ بتادیں۔خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ مرکزی کیس میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تفصیل سے بتا چکا ہوں، نیب ترامیم آئین کے آرٹیکل 9،14،20،25 اور 24 کی خلاف ورزی ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مخدوم علی خان نے کہا کہ اکثریتی فیصلہ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کس طرح یہ آرٹیکلز لاگوہوتے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھاکہ ان آرٹیکلز کوفیصلے میں مناسب انداز میں ڈیل کیا گیا ہے کہ نہیں۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہناتھا کہ ترامیم کون سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے وہ بتادیں۔ چیف جسٹس کا خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہ آپ اس چیز کاحوالہ نہیںدے سکتے جو کسی جگہ اٹھائی نہ گئی ہو۔چیف جسٹس کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ ابھی تک ہم نے کوئی پیش رفت نہیں کی10منٹ گزرچکے ہیں۔خواجہ حارث کا کہناتھا کہ احتساب آئین کااہم جزوہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھا کہ عوام توووٹ کے زریعہ احتساب کرتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بنیادی طور پر کیا جسٹس منصورعلی شاہ کے اقلیتی فیصلہ میںکوئی خامی ہے۔خواجہ حارث کا کہناتھا کہ جو لوگ قانون پر عملدرآمدکرتے ہیں مجھے ان پر اعتماد نہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ کیا ان مئوکل 90دن ریمانڈ اور کرپشن کی رقم کے تعین کے حوالہ سے مطمئن تھے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھا کہ اگر کسی حکومتی عہدیدار کے خلاف کاروائی ہوتی ہے تواس میں عوام شمولیت کس حد تک ہے،پرائیویٹ شخص شکایت درج کرواسکتاہے کیس بنانایا نہ بنانانیب کاکام ہے۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ نیب آرڈیننس کب آیا،نام لیں کس کے دور میں نیب آرڈیننس آیا،وہ کرپٹ سیاستدانوںکونظام سے نکالناچاہتے تھے ،آپ جب اقتدار میں آئے تو احتساب کمیشن کو بحال کردیتے ۔ خواجہ حارث کا کہناتھاکہ نیب آرڈیننس 1999 میںپرویز مشرف حکومت میں آیا تھا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ججز اورکچھ دیگر لوگوں کے احتساب کی آپ کو فکر نہیں تھی اورآپ بھی صرف سیاستدانوں کا احتساب چاہتے تھے اور صورتحال کو جوں کاتوں رکھنا چاہتے تھے۔ چیف جسٹس کا خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے اپنے درخواست کے کس پیراگراف میں لکھا ہے کہ کچھ سیاستدان جیلوں میں تھے اس لئے ترامیم کی گئیں۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ قانونی اسکیم کے تحت کوئی سیاستدان پرنسپل اکائونٹنگ آفیسر نہیں، آڈیٹر جنرل نے کہا ہے کہ اگر کوئی کرپشن ہوتی ہے تواس کا ذمہ دار پرنسپل اکائونٹنگ آفیسر ہے۔جسٹس اطہر من اللہ کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا کسی عوامی نمائندے کے پاس اتھارٹی ہے کہ وہ پبلک فنڈز جاری کرسکتا ہے ، دکھادیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھا کہ اگر سیکرٹری اور پرنسپل اکاوئنٹنگ آفیسر انکار کردے توسیاستدان کس طرح کرپشن کرسکتا ہے،اگر سیکرٹری یا متعلقہ افسر سمری آگے بھجواتے ہوئے یہ کہہ دے کہ یہ کام نہیں ہوسکتا توکیا وزیر یہ کام کرسکتا ہے۔اس پرخواجہ حارث کا کہناتھا کہ نہیں کرسکتا۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہناتھا کہ آئین اورقانون کی اسکیم کے تحت سرکاری افسر ذمہ دارہے سیاستدانوں کا کوئی کام نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھاکہ ہمارے اعلیٰ افسران میں ہمت پیدا کرنے کی ضرورت ہے خودبخود کرپشن ختم ہوجائے گی،بنیاد پر رکیں گے توزخم خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔خواجہ حارث کا کہناتھا کہ سیاستدانوں کی ملی بھگت ہوتی ہے۔چیف جسٹس کا خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ اگر ساری باتیں پڑھنی ہیں تو مار ک کردیں ہم پڑھ لیں گے ، آپ ایک سال دلائل دے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کتنا وقت دلائل دینے میں لیں گے۔اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ وہ 3گھنٹے دلائل دینے کے لئے مزیدوقت لیں گے۔اس پر چیف جسٹس کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ زیر زلتوا مقدمہ بازی کے حوالہ سے رحم کریں، آپ اکثریتی فیصلے کی حمایت کررہے ہیں، ہم عوام کے وقت کے امین ہیں۔ اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ مجھے آدھا گھنٹہ وقت دے دیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مدعا علیہ نمبر 1کی درخواست پر 6جولائی 2022کو چیمبر اپیل پر فیصلہ آیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا یہ بتایا گیا تھا کہ اس حوالہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی ہے۔خواجہ حارث کا کہناتھا کہ جب میں نے اپیل دائر کی اُس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ میں کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں کس درخواست دائر کی۔ اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن نے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شعیب شاہین بار کے صدر تھے اور حامد خان ان کے وکیل تھے اورایک ان کے بھائی وکیل تھے۔چیف جسٹس کا خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ پی ٹی آئی کے کوئی عہدیدار نہیں بلکہ وکیل ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 5جولائی 2022کو پہلی مرتبہ ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی ، اٹارنی جنرل کو معاونت کے حوالہ سے نوٹس بھی جاری ہوا، اُس وقت تک سپریم کورٹ میں درخواست سماعت کے لئے مقرر نہیں ہوئی تھی، بعد میں شعیب شاہین نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کیس زیر سماعت ہے پھر انہوں نے ہاتھ روک لیا۔ خواجہ حارث کا کہناتھا کہ عدالت میں پہلی مرتبہ 19جولائی2022کو درخواست سماعت کے لئے مقرر ہوئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ کہتے کہ میری درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے ، چیمبر عدالت نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایک ادارہ ہے ، اُس کا صدر ہے اوروکیل ہے وہ چاہے گا کہ کیس چلے، ہائی کورٹ والے صاحب کہتے کہ میراکیس اسلام آباد کورٹ میں زیر سماعت ہے، یااِس کو بھی سپریم کورٹ منگوالیتے، شعیب شاہین کبھی سپریم کورٹ نہیں آئے۔چیف جسٹس کا خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں ذاتی طور پرآپ کی عزت کرتا ہوں۔چیف جسٹس کا کہناتھا کہ کیا شعیب شاہین کو کیس چلانے میں دلچسپی نہیں تھی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھا کہ قانون کہتا ہے کہ اگر داد رسی کا فورم دستیا ب ہوتو پہلے نچلے فورم پر جائیں گے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹی وی پر بیٹھ کر سپریم کورٹ اورججز پر تنقید کرتے ہیں ہم تواِس کا جواب نہیں دے سکتے، شعیب شاہین آجائیں آکرجواب دیں، 53سماعتوں میں کیاایک دن بھی ٹہلتے ہوئے آئے کہ میرابھی کیس منگوالیں۔ چیف جسٹس کا خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023پر آجائیں، جسٹس سید منصورعلی شاہ نے دوآرڈرز بھی کئے تھے کہ ہمیں رُک جانا چاہیئے۔ چیف جسٹس کا خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بطور سینئر وکیل میراسوال ہے کہ کیا جسٹس سید منصورعلی شاہ کاآرڈر دست ہے یا دو ججز کاآرڈر دست ہے۔ اس پر خواجہ حارث کا کہناتھا کہ میں جسٹس سید منصورعلی شاہ سے اتفاق نہیں کرتا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل والی درخواست بھی لگادیتے اور چلالیتے، جب حکم امتناع ہوتا ہے تو جلدسماعت کرتے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے استفار کیا کہ کیاوفاق نے جلد سماعت کی کوئی درخواست دی۔جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا فل کورٹ نے حکم امتناع کے حوالہ سے کوئی رائے دی۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہناتھا کہ کوئی رائے نہیں دی۔ چیف جسٹس کاکہناتھاکہانصاف نہ صرف ہونا چاہیئے بلکہ ہوتا ہوانظر بھی آناچاہیئے،کیوں اس درخواست کی سماعت کی جلدی تھی اوردیگر کے حوالہ سے تساہل دکھایا گیا، اسی وجہ سے دنیامیں ہماری عدلیہ کانمبر گرا ہے اچھے خاصے آرڈرکوبلاوجہ دھبہ لگادیتے ہیں۔خواجہ حارث کا کہناتھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ اس مرحلہ پر اس کیس کو لارجر بینچ کے پاس بھجوانا چاہیئے۔چیف جسٹس کا کہناتھا کہ کیا نیب ترامیم معطل کی گئی تھیں۔اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ معطل نہیں ہوئیں۔چیف جسٹس کا کہناتھاکہ میری ذاتی رائے ہے کہ قانون معطل نہیں ہوسکتا، 53سماعتوں کے دوران قانون زندہ رہا اورلوگوں نے فائدہ بھی اٹھایا۔ جسٹس اظہر من اللہ کا کہناتھا کہ کسی بھی حالت میں پارلیمنٹ کا بنایا گیا قانون معطل نہیں ہوسکتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون معطل کرنا پارلیمنٹ کی توہین ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شاید وہ سمجھتے تھے کہ قانون معطل نہیں ہوسکتااس لئے انہوں نے درخواست نہیں کی۔چیف جسٹس کا کہناتھا کہ جب پریکٹس اینڈپروسیجر قانون بنا تومیں نے عدالت بیٹھنا ہی چھوڑ دیا تھا۔چیف جسٹس کاکہناتھا کہ آج کل یہ ہورہا ہے کہ تم یہ کہنا میں وہ کہوں گا، یہاں بڑے شیر بنتے ہیں، قانون ،اصول اورآئین سیاست کے ساتھ مکس نہیں ہونا چاہیئے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ نیب قانون کی کون سی شقوں کو چیلنج کیا تھا وہ لکھوادیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا تھا کہ جوترامیم کی گئیں وہ 70فیصد آرڈینینسز پر مشتمل تھیں جو عمران خان کی حکومت نے جاری کئے تھے، کیا انہیں بھی چیلنج کیا کہ نہیں اوراگر چیلنج نہیں کیا توکیوں نہیں کیا۔جسٹس اطہر من اللہ کاکہناتھا کہ ترمیم شدہ قانون میں بددیانتی اور رقم کی حد مقرر کی گئی ہے اس میں بنیادی انسانی حقوق کی کون سی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہناتھا کہ ایک کیس ہوا جس میں سپریم کورٹ کا مانیٹرنگ جج تعینات ہوا،آپ وکیل تھے اور میں بینچ میں شامل تھا، ایم آئی اورآئی ایس آئی کے افراد بھی جے آئی ٹی میں شامل تھے۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ نیب ترامیم میں نیب کے دائرہ اختیار کو ٹھیک کیا گیاہے اس سے بنیادی انسانی حقوق کی کون سی خلاف ورزی ہوتی ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ میں اپنے مکان کی رسیدیں فراہم نہیں کرسکتا جو کہ میں نے سپریم کورٹ آنے سے پہلے بنایا ہے ، کیا ایسا کسی کوکہنا بلیک میل کرنے کے مترادف نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ نیب کو چلا کون رہا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہناتھا کہ آج کل عمران خان زیر عتاب ہیں ، اگر ان کو کہہ دیں کہ اپنے سارے اثاثوںکو ثابت کریں تو یہ بہت مشکل ہو گا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپنے ٹیکس معافی اسکیم کیوں جاری کی، ٹیکس معافی کی کتنی اسکیمیں آپ نے دیں، ملک کو ٹیکس معافی کے زریہع نقصان پہنچایا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی چار، یاچھ سال جیل میں رہ جائے تواس سے وعوام کافائدہ نہیں، عوام کو توپیسے چاہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھا کہ نیب والے برآمد شدہ رقم سے 25فیصد کاٹ لیتے ہیں۔خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نیب نے پنجاب بینک کیس میں 9ارب روپے میں اڑھائی ارب روپے رکھ لئے تاہم سپریم کورٹ نے آرڈر کیا کہ نہیں رکھ سکتے۔ چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو بات کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ جو کیس ہمارے سامنے نہیں اس حوالہ سے بات نہ کریں۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہناتھا کہ اگر ٹھیک کیا گیا قانون برقرارنہیں رہتا تو پھر آج مدعا علیہ متاثرہ شخص ہوں گے اورآپ ان کے لئے مشکل کھڑی کررہے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھاکہ مین نیب آرڈیننس کا اطلاق ماضی سے ہوا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھاکہ کیا کیسز دوسری عدالتوں کو نہیںبھجوائے گئے، نیب عدالت اوراینٹی کرپشن دونوں عدالتوں میں سیشن جج تعینات ہوتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھا کہ عدالت کو پارلیمنٹ کو ہدایت نہیں دینی چاہیئے اور مشورہ بھی احتیاط کے ساتھ دینا چاہیئے۔جسٹس اطہر من اللہ کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ چاہتے ہیں کہ ایسی قانون سازی ہونی چاہیئے کہ جو اراکین پارلیمنٹ زیر عتاب ہیں انہیں کوزیر عتاب رہنا چاہیئے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے دور میں اس قانون کے نفاذ کا مقصد سیاسی انجینئرنگ تھی اس لئے اتنے اختیارات نیب کو یئے گئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب کہہ رہے ہیں کہ ذرائع آمدن سے زائد اثاثے بنائے تو نیب والے ریونیو اتھارٹی بن رہے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن والے کیوں انکم ٹیکس ریٹرنز نہیں مانگتے، انہوں نے اپنا فارمیٹ بنایا ہوا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے ایک کام کیا ہے شایہ ان کی دانست میں بہتر کام تھا۔ جسٹس اظہر من اللہ کا کہنا تھا کہ نیب سے ظالمانہ اور من مانی پر مبنی اختیارات واپس لئے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اثاثے انکم ٹیکس کا معاملہ ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ کہتے ہیں کہ آپ کا گھر کدھر سے آیا ہے آپ نے ثابت کرنا ہے نیب نے کچھ ثابت نہیں کرنا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا ٹیکس معافی کی اسکیم دینا نیب قانون کی خلاف ورزی ہے کہ نہیں، یہ بھی نیب کاجرم بن جائے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ نیب نے صرف پوچھنا ہے کہ اثاثے کہاں سے آئے اگر ثابت نہ کرسکے تویہ بھی فوجداری جرم ہو گا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نیب ترامیم میں کون ساغیرآئینی کام ہوا ہے وہ بتادیں۔جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے صوابدیدی اختیار کو ٹھیک کردیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 9-a(5)کو پڑھ لیں اس میں کیا ترمیم کی گئی ہے،بار، بار کہہ رہے ہیں اُڑ گیا ہے ، انہوں نے اس کی تشریح کردی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ وکیل مدعا علیہ نمبر 1اوراس کے سارے خاندان کو ظالمانہ قانون کے سامنے ایکسپوز کروارہے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگرایک وکیل 1ارب روپے کی کرپشن کرتا ہے اوروہ وکیل کو 10کروڑروپے فیس دے دیتا ہے تو کیا وکیل کے خلاف کاروائی ہوسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ وہ دلائل میں مزید کتنا وقت لیں گے۔ اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ 2گھنٹے لوں گا۔ اس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ خواجہ حارث نے چیف جسٹس سے استدعا کہ کیس کی سماعت آئندہ ہفتے رکھ لیں۔ اس پر چیف جسٹس کا کہناتھا کہ ہم آدھے گھنٹے کاوقفہ کرکے آرہے ہیں ،آج ہی کیس کو ختم کریں گے،لارجر بینچز کو جمع کرنا بڑامشکل کام ہے۔بعد ازاں عدالت نے کیس میں وقفہ کردیا، وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دوبارہ دلائل کا آغاز کر دیا۔اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے دریافت کیا کہ خواجہ صاحب اور کتنا وقت چاہیے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے دو گھنٹے چاہیے۔جسٹس جمال مندو خیل نے دریافت کیا کہ کیا ترامیم کرنا پارلیمنٹ کا اختیار نہیں تھا؟ وکیل نے بتایا کہ اسفند یارولی کیس میں سپریم کورٹ نیب کی تمام شقوں کا جائزہ لے چکی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر پی سی او نہ ہوتا تو شاید تب پورا نیب قوانین اڑا دیا جاتا، وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے ایک لسٹ جمع کرائی تھی، لسٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2019 میں اس وقت کی حکومت نے نیب ترامیم کی تھیں، مخدوم علی خان کے مطابق وہ ترمیم کریں تو غلط اگر پی ٹی آئی کرے تو ٹھیک۔اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ 2019 کی ترامیم پر بعد میں بات کروں گا، جسٹس جمال مندو خیل نے مزید دریافت کیا کہ جو مقدمات نیب سے نکلیں گے وہ کہاں جائیں گے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ نیب ہمیں ایک فہرست دے کہ کون سے مقدمات کس کس عدالت کو منتقل ہوں گے؟ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کون کون سے جرائم ہیں جن کو ترامیم میں ختم ہی کر دیا گیا ہے؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بتایا کہ ملک میں ایف بی آر پہلے ہی موجود ہے وہاں ایف بی آر کے معاملے پر آپ ایمنسٹی دے دیتے ہیں، الیکشن کمیشن نے اثاثوں کے الگ گوشوارے بنا رکھے ہیں، انکم ٹیکس کی تفصیل کیوں نہیں مانگی جاتی اس طرف کیوں نہیں جاتے؟جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ آپ کو آئین سے بتانا ہوگا ترامیم سے حقوق کیسے متاثر ہوئے؟ ترامیم سے تو نیب سے ڈریکونین اختیارات واپس لیے گئے۔اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آپ نے گولڈ رولیکس پہنی ہو تفیشی آپ سے پوچھے کہاں سے لی تو سارا بوجھ آپ پر آجائے گا، تفتیشی کا کام تو آسان ہو گیا، ایمنسٹی اسکیم دینا کیا نیب قانون کی خلاف ورزی ہے یا نہیں؟جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ آپ کیوں چاہتے ہیں کارروائی ہر معاملے پر نیب ہی کرے نیب پر اتنا اعتبار کیوں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ہمیں دکھانا ہوگا ترامیم میں غیر آئینی کیا تھا؟جسٹس اطہر من اللہ نے رہمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے اثاثوں کے سیکشن کو صرف اسٹرکچر کیا، چاہتی تو اسے حذف بھی کر دیتی، مزید کہا کہ کیا برطانیہ میں نیب جیسا ادارہ ہے؟ پھر نیب پر آپ کو اتنا اعتماد کیوں ہے؟ عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ نیب قانون اور اسے چلانے والوں میں فرق ہے، مجھے نیب پر اعتماد نہیں میں قانون کی بات کررہا ہوں، دوسرے خلیفہ سے ان کے کرتے کا سوال پوچھا گیا تھا۔جسٹس جمال خان نے ریمارکس دیے کہ ہمارے خلیفہ سے عام آدمی نے پوچھا تھا، عام آدمی آج بھی پوچھ سکتا ہے، اس پر وکیل نے کہا کہ عام آدمی تو بیچارہ کمزور ہوتا ہے۔ان کی اس بات پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ عوام کی طاقت، ووٹر کی طاقت کو کمزور کیوں کہہ رہے ہیں؟ بعد ازاں خواجہ حارث نے بتایا کہ 9 اے 5 کو ترمیم کے بعد جرم کی تعریف سے ہی باہر کردیا گیا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جسٹس منصور نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ کیسز دیگر فورمز پر جائیں گے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایمنسٹی پارلیمنٹ نے نہیں دی تھی، وکیل نے بتایا کہ ایمنسٹی سے فوجداری پہلو ختم نہیں ہوا۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ اربوں کی جائیداد کا غبن کرکے کروڑوں روپے کی رضاکارانہ واپسی کا اختیار بھی ایمنسٹی ہے، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ایمنسٹی حکومت کی پالیسی ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے بتایا کہ ایمنسٹی سے حکومت جو کام ختم کرسکتی ہے وہ کام پارلیمنٹ کیوں ختم نہیں کرسکتا؟ اس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ رضاکارانہ رقم واپسی پر عملدرآمد سپریم کورٹ نے روک رکھا ہے، رضاکارانہ رقم واپسی اور پلی بارگین کی رقم کا تعین چیئرمین نیب کرتا ہے۔بعد ازاں وکیل خواجہ حارث کی جانب سے بحریہ ٹاون کراچی کیس کا حوالہ دیا گیا۔انہوں نے دریافت کیا کہ بحریہ ٹاون کیس میں پلی بارگین ہوئی تھی یا رضاکارانہ رقم واپسی؟ 460 ارب روپے کے عوض سپریم کورٹ نے ریفرنس ختم کردیے تھے۔جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اگر تمام مقدمات متعلقہ فورم پر چلے جائیں تو کیا کوئی اعتراض ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ نیب ترامیم کالعدم کیے بغیر مقدمات منتقل نہیں ہوسکتے، جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیب کی 2023 ترامیم مقدمات منتقلی کے حوالے سے تھیں، سپریم کورٹ میں مقدمے کے دوران منتقلی سے متعلق نیب ترمیم کا جائزہ نہیں لیا۔اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ممکن ہے نیب ترامیم کا آپ کے موکل کو فائدہ ہو، خواجہ صاحب آپ کا ریکارڈ ہے، کیس ترپن سماعتوں میں سنا گیا۔وکیل نے مزید کہا کہ ایمنسٹی پروٹیکشن آف اکنامکس ایکٹ کے تحت ہوتی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ایک نیب کا سزا یافتہ شخص پلی بارگین کرکے گورنر بن گیا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ایک بات پر تو قوم کے لیے بیٹھ جائیں، جوائنٹ سیشن میں نیب قانون کو دوبارہ ٹھیک کرلیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ خرابیوں کا مل بیٹھ کر حل نکالنا چاہیے، اس پر عدالتی معاون فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ صدر مملکت نے بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی بات کی لیکن کوئی نہیں بیٹھا، اس موقع پر چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کیا کہ آپ بیٹھ جائیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مائنڈ نا کیجئے گا آپ کو نیب پر بہت اعتماد ہے، کیا اب نیب ٹھیک ہوگیا ہے ؟ چیف جسٹس نے بتایا کہ نہیں اب ٹھیک نہیں ہے، نیب پہلے ٹھیک تھا۔اس کے ساتھ ہی خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد عدالت نے کارروائی میں مختصر وقفہ کردیا۔دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ماضی میں نیب کیس میں ضمانت کا حق نہ دینے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ 2017 سے 2020 تک اس عدالت کا نیب سے متعلق کیا فیصلہ تھا؟ جو حقیقت ہے، وہ حقیقت ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلمنٹ کو کسی نے منع نہیں کیاکہ نیب قوانین کو سخت یا نرم نہ کریں، کل کو کوئی پارلمنٹ نیب قوانین کو سخت بھی کرسکتی ہے، آپ کی بات مان کر ہم ترامیم ختم کریں، کل پارلمنٹ نیب قانون ہی ختم کردے توکیا ہوگا، 1999 میں مارشل لا نہ ہوتاتو نیب قانون کا وجود بھی آج نہ ہوتا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب آرڈیننس 1999 سے پہلے احتساب ایکٹ موجود تھا، ایسا ہی تھا، احتساب ایکٹ کا مقصد بھی سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانا ہی تھا۔سپریم کورٹ نے وکیل خواجہ حارث کو 7 منٹ میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی، خواجہ حارث نے کہا کہ پارلیمنٹ ایسے قوانین نہیں بنا سکتی جو عوامی اعتماد ختم کرے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نیب کے ادارے میں لوگ خود کرپشن کریں کون دیکھے گا ، خواجہ حارث نے کہا کہ ادارے پر ادارہ تو نہیں بٹھایا جا سکتا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی پر تو آپ کو بھروسہ کرنا ہوگا، مدت سے عدالتی فیصلوں نے پارلیمنٹ کے اختیار کی نفی نہیں کی۔اس کے ساتھ ہی خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد عدالت نے کارروائی میں مختصر وقفہ کردیا، وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی سے مکالمہ کیا کہ کیا آپ ہمیں سن سکتے ہیں، کیا آپ کیس سے متعلق کچھ مزید کہنا چاہتے ہیں۔بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں نے گزشتہ سماعت پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی، مجھے تکلیف ہوئی کہا گیا کہ میں غیر ذمہ دارسا کریکٹر ہوں، اس لیے لائیو نشر نہیں کیا جائے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اپنے فیصلے کی وضاحت نہیں کرتی، آپ نظر ثانی اپیل دائر کرسکتے ہیں، عمران خان نے کہا کہ میں ایسا کوئی خطرناک آدمی نہیں ہوں۔جسٹس امین الدین نے کہا کہ خان صاحب آپ کو غیر ضروری ریلیف ملا، آپ صرف کیس پر رہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ججز اپنے فیصلوں کی خود وضاحت نہیں کرتے، آپ صرف کیس پر رہیں،جج اپنے فیصلے کی وضاحت نہیں دیا کرتے، آپ نظر ثانی اپیل دائر کرسکتے ہیں۔بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میں نیب ترامیم کیس میں حکومتی اپیل کی مخالفت کرتاہوں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ترامیم ہوئیں تو میرا نقصان ہوگا، مجھے 14 سال کی قید ہوگئی کہ میں نے توشہ خانہ تحفے کی قیمت کم لگائی، 2 کروڑ روپے کی میری گھڑی تین ارب روپے میں دکھائی گئی۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ میں کہتاہوں نیب کا چیئرمین سپریم کورٹ تعینات کرے، حکومت اور اپوزیشن میں چیئرمین نیب پر اتفاق نہیں ہوتا تو تھرڈ امپائر تعینات کرتاہے، نیب اس کے بعد تھرڈ امپائر کے ماتحت ہی رہتاہے۔انہوں نے کہا کہ نیب ہمارے دور میں بھی ہمارے ماتحت نہیں تھا، برطانیہ میں جمہوری نظام اخلاقیات، قانون کی بالادستی، احتساب پر ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے بانی پی ٹی آئی سے استفسار کیا کہ آپ کیا کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ ترمیم کرسکتی ہے یا نہیں؟ بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ فارم 47 والے ترمیم نہیں کرسکتے جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ پھر اسی طرف جارہے جو کیسز زیر التوا ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عمران خان صاحب ان ترامیم کو کالعدم کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، آپ نے میرا نوٹ نہیں پڑھا شاید، نیب سے متعلق آپ کے بیان کے بعد کیا باقی رہ گیا ہے، عمران خان آپ کا نیب پر کیا اعتبار رہیگا؟ جس پر بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میرے ساتھ 5 روز میں نیب نے جو کیا اس کے بعد کیا اعتبار ہوگا، جیل میں جا کر تو مزید میچورٹی آئی ہے، ستائیس سال قبل بھی نظام کا یہی حال تھا جس کے باعث سیاست میں آیا، غریب ملکوں کے سات ہزار ارب ڈالر باہر پڑھے ہوئے ہیں، اس کو روکنا ہوگا، دبئی لیکس میں بھی نام آچکے، پیسے ملک سے باہر جارہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عمران خان آپ کی باتیں مجھے بھی خوفزدہ کررہی ہیں، حالات اتنے خطرناک ہیں تو ساتھی سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھ کر حل کریں، جب آگ لگی ہو تو نہیں دیکھتے کہ پاک ہے ناپاک, پہلے آپ آگ تو بجھائیں۔عمران خان نے کہا کہ بھارت میں اروند کیجریوال کو آزاد کرکے، سزا معطل کرکے انتخابات لڑنے دیاگیا، مجھے 5 دنوں میں ہی سزائیں دے کر انتخابات سے باہر کردیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ تو سیاسی نظام کس نے بنانا تھا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بدقسمتی سے آپ جیل میں ہیں، آپ سے لوگوں کی امیدیں ہیں۔عمران خان نے کہا کہ میں دل سے بات کروں تو ہم سب آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، پاکستان میں غیر اعلانیہ مارشل لا لگا ہواہے،گفتگو کے دوران جب بانی پی ٹی آئی نے سائفر کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس نے انہیں بات کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ وہ مقدمات جو ہمارے سامنے آنے ہیں ان پر بات نہ کریں، ہمارا پہلے بھی یہی خدشہ تھا۔چیف جسٹس کی بات کو تسلیم کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ یہ بات درست ہے مجھے پارلیمنٹ جانا چاہیے تھا، اس وقت ملک معاشی بحران کا شکار ہے، باہر سے جو ترسیلات زر آتی ہیں اشرافیہ باہر بھیج دیتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ دو چیزوں کو مکس کررہے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بانی پی ٹی آئی سے سوال کیا کہ آپ نے ایمنسٹی کیوں دی، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ایمنسٹی اس لیے دی کہ معیشت بلیک تھی اسے ایک روٹ پر لانا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ مل بیٹھ کر بات کریں، یہ دشمن نہیں ہیں، جائیں جا کر اراکین پارلیمنٹ سے بات کریں، الیکشن کی تاریخ کے معاملے پر ہم نے صدر اور الیکشن کمیشن کو بات کرنے کا کہا، ہم سیاسی بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم آپ کو روکنا بھی نہیں چاہتے، کوئی اعتراض نہ ہو، سیاست دان آپس میں مل بیٹھ کر مسائل حل کریں، پارٹی کی بات ہمارے سامنے نہ کریں۔بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ مجھے جیل میں دی گئی سہولیات اور جو نواز شریف کو سہولیات دی گئی تھیں ان کا موازنہ کروا لیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جوڈیشل افسر سے سرپرائزنگ وزٹ کروا لیں گے۔بانی پی ٹی آئی نے جب اپنے دلائل مکمل کرلیے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایک مرتبہ پھر پوچھا کہ کیا آپ مزید کچھ کہنا چاہتے ہیں اور چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی معاونت کا شکریہ اور بانی پی ٹی آئی نے بھی کہا کہ آپ کا بھی شکریہ،بعد ازاں، عمران خان کے دلائل کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ نیب نے ریکوڈک کیس میں 10 ارب ڈالر کی ریکوری کیسے لکھ دی۔جس پر نیب پراسیکیوٹر روسٹرم پرآگئے اور کہا کہ یہ ہماری ان ڈائریکٹ ریکوری تھی۔چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹرسے مکالمے میں کہا کہ ہم ایسی غلط دستاویز دائر کرنے پر آپ کو توہین عدالت کا نوٹس کریں گے، کدھر ہیں پراسیکیوٹر جنرل، کیسے یہ غلط دستاویز پیش کیں۔عدالت کی جانب سے نیب پراسیکیوٹر کی سرزنش بھی کی گئی۔بعد ازاں عدالت نے  نیب ترمیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا اورکہا کہ اگر کوئی مزید دستاویزات جمع کروانا چاہتا ہے تو ایک ہفتے میں کرواسکتا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوایا جس میں کہا گیا کہ نیب کا 10 ارب ڈالر ریکوری کا کریڈٹ لینا سرپرائزنگ تھا، اداروں کی جانب سے ایسی غلط دستاویزات جمع نہیں ہونی چاہیے، چیئرمین نیب، پراسیکیوٹر جنرل خود ریکوری اور بجٹ کی اصل رپورٹ پیش کریں۔حکمنامے میں کہا گیا کہ نیب کا گزشتہ 10 سال کا سالانہ بجٹ بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے نیب پرایسکیوٹر سے استفسار کیا کہ نیب کی بجٹ سٹیٹمنٹ کہاں ہے؟ ZS
#/S