نیب ترامیم سے ملک کو 150 ارب روپے کا سالانہ نقصان ہوگا، بریگیڈیئر (ر) محمد مصدق عباسی
1100ارب کے کیسز ختم ہوجائیں گے،یہ ترامیم بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے
وزیر اعلی خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے انسداد بدعنوانی کی پریس کانفرنس
پشاور(ویب نیوز)
وزیر اعلی خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے انسداد بدعنوانی بریگیڈیئر (ر) محمد مصدق عباسی نے اطلاع سیل سول سیکریٹریٹ پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیب ترامیم سے ملک کو 150 ارب روپے کا سالانہ نقصان ہوگا، 1100ارب کے کیسز ختم ہوجائیں گے، یہ ترامیم بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔نیب کا ادارہ ان ترامیم سے مکمل طور پر غیر فعال ہوگیا ہے جوکہ ملک اور قومی خزانہ کیلئے بہتر نہیں ہے۔دوسری جانب دبئی لیکس پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ اگر پیسہ حق بجانب ہے اور ذریعہ آمدن معلوم ہے لیکن غلط چینل سے ملک سے باہر لے جایا گیا ہے تو ٹیکس ایوژن کے تحت کاروائی ہوگی، اگر ذریعہ آمدن معلوم نہیں اور ملک سے باہر بھی غلط چینل سے لے جایا گیا ہے تو اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2012کے تحت کیس بنتا ہے، ان دو معاملات میں ملوث افراد کیخلاف کاروائی اور شفاف عدالتی تحقیقات ہونی چاہیئے۔انہوں نے کہا کہ قرض میں جھکڑی قوم کو ان شخصیات کے چہروں کی شناسائی ہونی چاہئیے کہ یہ افراد ملک سے پیسہ باہر لے جاتے ہیں اور اپنا پیسہ بھی باہر لگاتے ہیں اور پھر امید کرتے ہیں کہ باہر کے ممالک ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کریں گے، ایف بی آر،ایف آئی اے اور نیب کو چاہئے کہ اس پر وہ ایکشن لیں۔ معاون خصوصی برائے انسداد بدعنوانی نے کہا کہ وائٹ کالر کرائم میں جو پیسہ سامنے آتا ہے وہ ٹپ آف آئس برگ ہے۔انہوں نے کہا کہ 2022 میں جب یہ ترامیم لائی گئیں تو ہمارا موقف تھاکہ اس سے نیب کا ادارہ فعال نہیں بلکہ ختم ہوجائیگا۔اور خزانے کو نقصانات سے نہیں بچا پائے گا، اس پر ہم عدالت گئے۔ بریگیڈیئر (ر) محمد مصدق عباسی نے کہا کہ جن کے کیسز تھے وہ جانتے اور مانتے تھے کہ کیسز بالکل صحیح ہیں۔انہوں نے کہا کہ تین سالہ پی ٹی آئی دور میں 480 ارب روپے نیب نے ریکور کئے اور ہماری ریکوری 160 ارب سالانہ کے حساب سے تھی۔اب ان ترامیم کے بعد یہ ریکوری چند ارب پر آگئی ہے۔ان ترامیم کا اثر 11سو ارب کے کیسز پر ہوگا۔اوریجنل کیسز کی بجائے ڈیفالٹ کیسز اب نیب بنائے گا۔اینٹی منی لانڈرنگ کیسز نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیئے گئے اور سب سے شرمناک بات یہ ہے کہ نیب کے چیئرمین نے اپنے ادارے کے دفاع کی بجائے ان ترامیم کو قبول کرلیا ہے۔انہوں نے کہا کہ نیب ترامیم سے 50 کروڑ روپے تک کرپشن ہوسکے گی جوکہ نیب کے اختیار میں نہیں رہا۔حمزہ شریف،شہباز شریف،راجا پرویز اشرف،احسن اقبال،شاہد خاقان عباسی کے کیسز اس ترمیم سے ختم ہوجا ئیں گے۔ ترامیم سے متعلق تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ترمیم کے تحت بیور کریٹ جب تک اثاثے اپنے نام سے نہیں بنائیگا اس سے سوال نہیں کیا جا سکے گا اور بیوروکریٹس کیساتھ ملکر ٹھیکیدار بھی کرپشن کریگا تو وہ بھی نیب کے اختیار سے ختم کردیا گیا ہے۔سیکشن 97اے کے تحت توشہ خانہ کا کیس بنایا گیا تھا، یوسف رضا گیلانی نے اس سیکشن کے تحت ون ٹائم ریلیکسیشن دی جسے نواز شریف اور زرداری نے استفادہ کیا اور گاڑیاں گھر لیکر گئے اور اب اس سیکشن کا خاتمہ کردیا گیا۔ انہوں نے کہاایک سیکشن جس کو میں خواجہ سعد رفیق سیکشن کہتا ہوں میں تبدیلی کرتے ہوئے مذکورہ شخص کو فائدہ دیا گیا اور سو افراد سے کم متاثر ہ سکییم کی شنوائی نکال دی گئی۔ اسی طرح بینک اثاثوں کے متعلق قانون کو بدلا گیا جس سے زرداری اور بلاول مستفید ہوئے۔ سیکشن 14 کا خاتمہ کرکے ذرائع آمدن بتانے کی شرط ختم کردی گئی جس سے سرے محل،ایون فیلڈ اور پانامہ جیسے کیسز ختم ہوئے جوکہ بین الاقومی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ مذکورہ ترمیم سے یہ اب نیب کی ذمہ داری ہو گئی ہے کہ وہ زرائع آمدن ثابت کرے۔ ایسی ترمیم لائی گئی ہے کہ اگر نیب چھ ماہ کے اندر تحقیق کرکے ثابت نہ کرسکے تو کیس ختم تصور ہوگاجس سے متعدد کیسز متاثر ہو نگے۔ ملک کے باہر سے آنیوالی گواہی غیر موثر کردی گئی ہے جس سے بیرونی ملک سے لائے گئے ثبوت عدالت میں قابل قبول نہیں ہونگے، مذکورہ ترمیم سے نیب ملک میں ہی محدود ہوگیاہے۔ سیکشن 23 میں ترمیم کرکے کیس شروع ہونے کے بعد اثاثے بھیجنے کے عمل کو اجازت مل گئی ہے۔ سیکشن 25 جو پلی بارگین سے متعلق ہے میں ترمیم کرتے ہوئے اوریجنل کیس کو ڈیفالٹ کیسز میں تبدیل کردیا گیا ہے۔۔