آرٹیکل 63-Aکی تشریح کے حوالہ سے نظرثانی درخواست پر سماعت، پارلیمنٹ میں ووٹ ڈالنے کے حوالہ سے امریکہ، برطانیہ،کینڈا، آسٹریلیا، بھارت اور دیگر ممالک کے حوالہ جات طلب،سماعت آج بدھ تک ملتوی
آئین کے آرٹیکل 186کے تحت دائر صدارتی ریفرنس اورآئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت مفاد عامہ کی درخواستوں کو ایک ساتھ کیسے سنا جاسکتا تھا؟ سپریم کورٹ
سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی سمیت کوئی بھی شخص کیس کی سماعت کے دوران پیش ہوکرمعاونت کرنا چاہے توکرسکتا ہے کسی بھی فریق کو نوٹس جاری نہیں کرسکتے
اگر ووٹ گنے نہیں جائیں گے توپھر کبھی وزیر اعظم کوہٹایا نہیں جاسکے گا۔چیف جسٹس آف قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس
سید علی ظفر کا سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نظرثانی درخواست کی پوری شدت کے ساتھ مخالفت کرنے کااعلان
اسلام آباد( ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 63-Aکی تشریح کے حوالہ سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان کی جانب سے دائر نظرثانی درخواست پر پارلیمنٹ میں ووٹ ڈالنے کے حوالہ سے پارلیمانی پارٹی سربراہ کی ہدایت سے متعلق امریکہ، برطانیہ،کینڈا، آسٹریلیا، بھارت اور دیگر ممالک کے حوالہ جات طلب کر لئے۔ عدالت نے قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل 186کے تحت دائر صدارتی ریفرنس اورآئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت مفاد عامہ کی درخواستوں کو ایک ساتھ کیسے سنا جاسکتا تھا؟عدالت نے قراردیا ہے کہ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی سمیت کوئی بھی شخص کیس کی سماعت کے دوران پیش ہوکرمعاونت کرنا چاہے توکرسکتا ہے کسی بھی فریق کو نوٹس جاری نہیں کرسکتے۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ سینیٹر علی ظفر پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے وکیل ہیں وہ جو کہنا چاہیں انہیں سنیں گے۔ جبکہ دوران سماعت سید علی ظفر نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نظرثانی درخواست کی پوری شدت کے ساتھ مخالفت کرنے کااعلان کیا ہے۔ جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیںکہ اگر ووٹ گنے نہیں جائیں گے توپھر کبھی وزیر اعظم کوہٹایا نہیں جاسکے گا۔کسی بھی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کامقصد گننا ہوتا ہے۔ یہ پرکھنے کی کسوٹی کیا ہے کہ کہ کسی نے ضمیر کے مطابق ووٹ دیا کہ نہیں۔ جس ٹیسٹ پر خود پورانہیں اترتے دوسروں کو بھی اس سے نہیں گزارنا چاہیئے۔ قانونی سوال پر سپریم کورٹ اپنی رائے صدر مملکت کو بھجواسکتی ہے جبکہ آئین کے آرٹیکل184-3کے تحت عدالت کو کسی معاملہ پر فیصلہ کرنے کااختیار ہے اورفیصلے عملدرآمد نہ کرنے پر توہین عدالت کی کاروائی ہوسکتی ہے، میں حیران ہوں کہ کیسے دونوں دائرہ اختیار مکس اپ کئے گئے۔ جب آئین میں لکھ دیا گیا کہ نااہل رکن ڈی سیٹ ہوگا تو ڈی سیٹ ہی ہوگا، ایک طرف رائے دی گئی منحرف رکن ڈی سیٹ ہوگا اور دوسری طرف کہا گیا کہ نااہلی کی مدت کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے یہ تو تضاد ہے، لگتا ہے آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ تحریک عدم اعتماد کو غیر موثر بنانے کے لئے تھا۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ووٹ نہ گننا ایسے ہی جیسے خالی بیلٹ لاکر ڈال دیں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج (بدھ)دن ساڑھے 11بجے تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل 5رکنی لارجر بینچ نے منحرف ارکان اسمبلی سے متعلق آرٹیکل63 اے کے حوالہ سے دائر نظرثانی درخواست پر سماعت کی۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز سماعت پر جسٹس منیب اختر نے بنچ میں بیٹھنے سے انکار کیا تھا اس پر ججز کمیٹی نے منگل کے روز نیا بینچ تشکیل دیا جس میں جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس نعیم اختر افغان کو شامل کیا گیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس کی فائل میرے پاس آئی، میں نے جسٹس سید منصور علی شاہ کا نام تجویز کیا، آج کل سب کو معلوم ہے کہ سپریم کورٹ میں کیا چل رہا ہے، آج کل سپریم کورٹ میں کچھ بھی بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہو رہا، جسٹس سید منصورعلی شاہ کے سیکرٹری سے رابطہ کیا گیا تاہم انہوں نے بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ بینچ متاثر ہوں اس لئے میرے بینچ میں شامل سینئر جج جسٹس نعیم اخترافغان کو بینچ میں شامل کیا گیا۔ چیف جسٹس کاصدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بیرسٹر محمد شہزادشوکت سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیس کے مختصر حقائق بتائیں۔ اس موقع پر بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل علی ظفر نے روسٹرم پر آکر کہا کہ میں اعتراض اٹھانا چاہتا ہوں۔اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آپ کو بعد میں سنیں گے ابھی آپ بیٹھ جائیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہمیں بینچ کی تشکیل نو پر اعتراض ہے۔چیف جسٹس نے دوبارہ کہا کہ آپ سے کہا ہے کہ آپ کو بعد میں سنیں گے، ہم چیزوں کو اچھے انداز میں چلانا چاہتے ہیں آپ بیٹھ جائیں، ہم آپ کی عزت کرتے ہیں، شہزا د شوکت آپ کے بھی صدر ہیں۔ شہزاد شوکت نے دلائل شروع کیے اور کہا کہ8مارچ2022کو عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک داخل ہوئی،18 مارچ 2022کو سپریم کورٹ بار نے درخواست دائر کی، 21 مارچ کو چار سوالات پر مبنی صدارتی ریفرنس بھجوایا گیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے 16مارچ2022کو درخواست دائر کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیسے دودائرہ اختیار استعمال ہوسکتے ہیں، صدارتی ریفرنس آئین کے آرٹیکل 186کے تحت دائر ہوتا ہے جبکہ آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت بنیادی انسانی حقوق کے حوالہ سے درخواستیں دائر ہوتی ہیں، کیسے دونوں معاملات کواکٹھے سنا گیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانونی سوال پر سپریم کورٹ اپنی رائے صدر مملکت کو بھجواسکتی ہے جبکہ آئین کے آرٹیکل184-3کے تحت عدالت کو کسی معاملہ پر فیصلہ کرنے کااختیار ہے اورفیصلے عملدرآمد نہ کرنے پر توہین عدالت کی کاروائی ہوسکتی ہے، میں حیران ہوں کہ کیسے دونوں دائرہ اختیار مکس اپ کئے گئے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ریفرنس اور آپ کی درخواستوں کو ایک ساتھ سنا جا سکتا تھا؟ اس پروکیل شہزاد شوکت نے کہا کہ 27 مارچ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے ممکنہ طور پر منحرف ارکان کے خلاف ریلی نکالی۔اس پر چیف جسٹس نے انہیں ٹوک دیا کہ سیاسی معاملات پر بات نہ کریں۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ آئینی درخواست کس نے دائر کی تھی؟ اس وقت صدر مملکت کون تھے؟ صدر سپریم کورٹ بار نے کہاکہ پی ٹی آئی نے درخواست دائر کی اور اس وقت عارف علوی صدر مملکت تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک طرف صدر مملکت ریفرنس بھیج رہے ہیں دوسری طرف حکومتی جماعت آرٹیکل 184کے تحت ریفرنس دائر کرتی ہے، اس حوالہ سے علی ظفر عدالت کی معاونت کریں گے۔ صدر سپریم کورٹ بار نے پوچھا کہ ریفرنس میں یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ کیا منحرف ارکان اسمبلی کا ووٹ شمار ہوگا، سپریم کورٹ نے ریفرنس پر رائے دے کر آئین میں نئے الفاظ شامل کیے۔شہزاد شوکت کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے اپنا مختصر فیصلہ 17مئی 2022کو جاری کیا۔ صدر ریفرنس میں شامل پہلے سوال کے جواب پر چیف جسٹس نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا یہ سوال کاجواب ہے۔ دوسرے سوال پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا یہ جینوئن سوال ہے یا لوڈڈ سوال ہے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ ایک طرف رائے دی گئی کہ منحرف رکن ڈی سیٹ ہوگا اور دوسری طرف کہا گیا کہ نااہلی کی مدت کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے یہ تو تضاد ہے، جب آئین میں لکھ دیا گیا کہ نااہل رکن ڈی سیٹ ہوگا تو ڈی سیٹ ہوگا، چیف جسٹس کی رائے میں کہاں کہا گیا کہ ڈی سیٹ ہوگا؟شہزادشوکت کاکہنا تھا کہ اکثریتی فیصلہ لکھنے والے ججز نے آئین کودوبارہ لکھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا بدی کی آئین میں کوئی تعریف لکھی ہوئی ہے، بدی ایک اخلاقی اصطلاح ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر کینسر کالفظ نکال دیں توکیااس سے سوال کی قوت میں کمی آجائے گی۔چیف جسٹس کاشہزادشوکت سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ اقلیتی یااکثریتی فیصلے کے خلاف دلائل دے دہے ہیں۔ اس پر شہزاد شوکت کاکہناتھا کہ اکثریتی فیصلے کے خلاف۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا سپریم کورٹ نے اپیل کاختیارواپس لے لیا، کہاں ڈی سیٹنگ ہوئی۔ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان نے روسٹرم پر آکر کہا کہ ڈی سیٹ کرنا ہے یا نہیں یہ تو پارلیمانی پارٹی کے ہیڈ کو فیصلہ کرنا ہے،فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ووٹ شمار نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر ووٹ گنے نہیں جائیں گے توپھر کبھی وزیر اعظم کوہٹایا نہیں جاسکے گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاشہزاد شوکت سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر اقلیتی فیصلہ کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں توہم خو ش آمدید کہیں گے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ووٹ نہ گننا ایسے ہی جیسے خالی بیلٹ لاکر ڈال دیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کسی بھی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کامقصد گننا ہوتا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نے کہا کہ عدم اعتماد میں اگر ووٹ گنا ہی نہ جائے تو وزیراعظم ہٹایا ہی نہیں جاسکتا، اس کا مطلب ہے آرٹیکل 95 تو غیر فعال ہوگیا۔ شہزاد شوکت نے کہا کہ اگر ووٹ گنا نہ جائے تو پھر بجٹ پارلیمنٹ سے منظور ہونے کی شرط کیوں ہے؟چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ارکان اپنے پارٹی سربراہ کوتبدیل کرسکتے ہیں، پارٹی کی اکثریت برقراررہتی ہے تاہم وہ اپنے پارٹی سربراہ کو پسند نہیں کرتے، برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی نے تھریسا مئے، بورس جانسن کو ہٹایا اور پھر رشی سوناک کو وزیر اعظم بنایا تاہم پارٹی ایک ہی رہی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ضمیر کے معاملات بہت مشکل ہیں، کیا اس حوالہ سے مقدمہ بازی ہوسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اراکین اسمبلی اگر پارٹی سربراہ یا وزیراعظم یا وزیراعلی کو پسند نہیں کرتے تو کیا ہوگا؟جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اس کا ایک حوالہ اقلیتی فیصلے میں موجود ہے، بلوچستان میں ایک مرتبہ اپنے ہی وزیراعلی کے خلاف اس کے اراکین تحریک عدم اعتماد لائے تھے۔شہزادشوکت کاکہنا تھا کہ یہ ارکان اسمبلی کاحق ہے کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یا توامریکہ میں صدر کے انتخاب کی طرح پاکستان میں وزیر اعظم کوبراہ راست ووٹوں سے منتخب کیا جائے پھر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہیں آئے گی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ پرکھنے کی کسوٹی کیا ہے کہ کہ کسی نے ضمیر کے مطابق ووٹ دیا کہ نہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کسی رکن اسمبلی نے ضمیر کی آواز پر ووٹ دیا اس کا فیصلہ کون اور کیسے کرے گا؟ جو لوگ سیاسی جماعتیں تبدیل کرتے رہتے ہیں کیا ان کا یہ اقدام بھی ضمیر کی آواز ہوتا ہے؟ میں کسی سیاسی جماعت کا نام نہیں لینا چاہتا، جو اصول دوسروں کیلئے طے کیا گیا اس کا اطلاق ہم پربھی ہوتا ہے، آرٹیکل 62 ون ایف کا ازخود اطلاق نہیں ہوسکتا، 62ون ایف سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ موجود ہے، اس فیصلے میں لکھا گیا صادق یا امین ہونے کا تعین براہ راست نہیں کیا جاسکتا، کسی کے ضمیر کا معاملہ طے کرنا مشکل ہے۔شہزاد شوکت کا کہنا تھا کہ فیصلے میں کہا گیا کہ کوئی ایک مثال موجود نہیں جس میں محض ضمیر کی آواز پر انحراف کیا گیا ہو۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سچ میں ایسا لکھا گیا ہے؟اس پر شہزاد شوکت نے متعلقہ پیراگراف پڑھ کر سنادیا اور کہا کہ واقعے کے بعد منحرف اراکین کی تاحیات نااہلی کی درخواست آئی تھی، اس وقت کے وزیراعظم نے احتجاجی ریلی کی کال دے رکھی تھی، اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دلایا تھا کہ رکن کو سیشن میں شرکت سے نہیں روکا جائے گا۔ شہزاد شوکت کی جانب سے دورانِ سماعت سندھ ہاس پر حملے کا بھی تذکرہ کیا گیا۔ شہزاد شوکت نے کہا کہ سندھ ہائوس پر حملہ کردیا گیا تھا اور تاثر دیا گیا کہ منحرف اراکین سندھ ہاس میں موجود ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا سندھ ہاس حملے سے متعلق درخواست سپریم کورٹ میں آئی تھی؟چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ لوگ غائب بھی ہوجاتے ہیں، 63 اے میں طے کردہ اصول تو دودھاری تلوار ہیں، پارلیمانی پارٹی سربراہ کے بغیر ووٹ دینا یا ووٹ دینے کے بجائے خاموش رہنا بھی عدالتی فیصلے کا حصہ ہے، اگر کوئی ناقد ہے تو کیا بوگا؟ میرے خیال میں آپ کہنا چاہتے ہیں ووٹ دیں، اگر خاموش رہیں یا مخالفت کریں گے تو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ ارکان پارلیمنٹ کو اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ دینا چاہیئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جس ٹیسٹ پر خود پورانہیں اترتے دوسروں کو بھی اس سے نہیں گزارنا چاہیئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آج کی حزب اختلاف کی جماعتیں عدم اعتماد کی تحریک لاتی ہیں، حکومتی اراکین بھاگ جاتے ہیں تو پھر بھی اسی فیصلے کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ جن سیاست دانوں نے ایک پارٹی چھوڑ کردوسری پارٹی جوائن کی، کیا ان پر بھی تاحیات پابندی عائد کی گئی؟ کیا صدارتی ریفرنس وزیراعظم اوروفاقی کابینہ کی ایڈوائس پر بھیجا گیا تھا یا خود سے صدر نے دائر کیا۔اس موقع پر اسپیکر قومی اسمبلی کے وکیل بیرسٹر حارث عظمت پیش ہوئے تاہم چیف جسٹس نے انہیں ہدایت کی کہ تشریف رکھیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سابق صدر سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن احسن بھون نے درخواست دائر کی تھی جسے بعد میں آنے والے صدر عابد شاہد زبیری نے بھی واپس نہیں لیا، تمام وکلاء کیمپس کااس مسئلہ پرآپس میں اتفاق ہے،عابد زبیری کوسراہیں وہ بھی نظرثانی درخواست کے ساتھ کھڑے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا اُن لوگوں پر بھی تاحیات پابندی لگائی جائے جو دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیارکرتے ہیں۔چیف جسٹس کاشہزادشوکت سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس کیس کی آرڈر شیٹس پڑھتے جائیں کہ کیسے آئین کے آرٹیکل 186کے تحت دائر ریفرنس اورآئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت دائر درخواستیں اکٹھی سنی گئیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ فریقین کے وکلاء روسٹرم پر آکر بتائیںکہ کون کس کی جانب سے پیش ہورہا ہے اور کون درخواست کی مخالفت کررہا ہے اور کون حمایت کررہا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان نے کہا کہ وفاقی حکومت صدارتی ریفرنس کی مخالف ہے۔پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پیپلزپارٹی بھی صدارتی ریفرنس کی مخالف ہے۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمارا موقف ہے صدارتی ریفرنس فیصلے کے ذریعے آئین میں نئے الفاظ شامل کیے گئے۔اسپیکر قومی اسمبلی کے وکیل کاکہنا تھا کہ وہ نظرثانی درخواست کی حمایت کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی کون نمائندگی کررہا ہے۔ اس پرسید علی ظفر کاکہنا تھا کہ میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کی نمائندگی کررہا ہوں، صرف سپریم کورٹ بار نے فیصلہ چیلنج کیا ہے میں پوری شدت کے ساتھ نظرثانی درخواست کی مخالفت کررہا ہوں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ خود کار اندازمیں منحرف رکن نااہل کیسے ہوسکتا ہے؟صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ منحرف رکن کی نااہلی کے لیے پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کا ڈیکلریشن کا پورا طریقہ کار ہے۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی فیصلے میں ڈیکلریشن کا ذکر کیا آئین میں صرف ڈی سیٹ کا ذکر ہے، ووٹ کونظرانداز کرنے کا لفظ آئین میں شامل نہیں، اگر میراووٹ گنا نہیں گیا تومیں نے کوئی غلطی نہیں کی، اگر ووٹ گنا جائے گایا میں غیر حاضر ہوں گاتو پھر میں غلط کام کامرتکب ہوں گا۔چیف جسٹس کہا تھا کہ دوتین پوائنٹ لکھ لیں امریکہ، برطانیہ، کینڈا، آسٹریلیا، بھارت اور دیگر ممالک میں کیا صورتحال ہے، دونوں دائرہ کیسے اکٹھے استعمال ہوئے، اپیل تین دن تاخیر سے دائر کی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ منحرف اراکین کے بارے میں برطانیہ اور امریکا کے حوالہ جات دئیے جائیں، حال ہی میں لیبر پارٹی کی ایک رکن نے اپنے وزیراعظم کے خلاف تقریر کی، اس کی حیثیت آزاد رکن کے طور پر تبدیل کردی گئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت ویسے بھی اس کیس میں کوئی زندہ سوال موجود نہیں ہے، اس وقت نہ عدم اعتماد کی تحریک زیرالتو ہے اور نہ اعتماد کی تحریک، ریفرنس سابق صدرعارف علوی نے دائر کیا عارف علوی اگر وکیل کے ذریعے پیش ہوکر معاونت کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔بعد ازاںچیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نظر ثانی تین دن تاخیر سے دائر کی گئی، مختصر حکم نامہ 17 کو آیا جبکہ نظرثانی 23 جون کو دائر کی گئی، تفصیلی فیصلہ کب جاری ہوا سپریم کورٹ دفتر جائزہ لے کر بتائے۔سید علی ظفر کی جانب سے تاخیر سے درخواست دائر کرنے کی مخالفت کی گئی۔ سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن نے تاخیر فیصلہ جاری ہونے کی بنیاد پر تاخیر سے درخواست دائر کرنے پر معافی کی درخواست دائر کی۔ عدالت نے پارلیمانی پارٹی سربراہ کی ہدایت سے متعلق امریکہ، برطانیہ،کینڈا، آسٹریلیا ، بھارت اور دیگر ممالک کے حوالہ جات پیش کیے جائیں۔عدالت نے قرار دیا کہ صدارتی ریفرنس اور مفاد عامہ کی درخواستوں کو ایک ساتھ کیسے سنا جاسکتا تھا؟ اس حوالہ سے بھی عدالت کی معاونت کی جائے۔ علی ظفر کاکہنا تھا کہ میرے مئوکل جیل میں ہیں نوٹس جاری کیا جائے تاکہ ان سے ہدایات لے سکوں۔ اس پر چیف جسٹس کاکہناتھا کہ کوئی سماعت میں شریک ہونا چاہتا ہے توآجائے، کسی کو گھر جاکردستک دینے اور نوٹس جاری کرنے کی ضرورت نہیں، ڈاکٹر عارف علوی سماعت میں شرکت کرنا چاہتے ہیں توآجائیں اگر موجودہ صدر وکیل کرنا چاہیں تو انہیں خوش آمدید کہیں گے، کیس میں پی ٹی آئی اور سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن فریق تھے، یہ آئین کی تشریح کا مسئلہ ہے اگرکوئی آکرہماری رہنمائی کریں۔چیف جسٹس کاعلی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی وکالت کریں ہم نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔علی ظفرکاکہنا تھا کہ پی ٹی آئی فریق نہیں میں نے سنجیدہ اعتراضات کرنا ہیںمجھے تیاری کے لئے وقت دیں۔اس پرچیف جسٹس کاسید علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ ہم آپ کو سنیں گے۔بعدازاںعدالت نے کیس کی سماعت آج (بدھ) دنساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔ZS
#/S