بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے خلاف پاکستان میں ظلم ہوتا ہے اِن کے اوپر کیسز ہوجاتے ہیں چیف جسٹس
ایک شخص باہر ملک میں ہے اُس کو نوٹس نہیں ہوتا، ہم ٹرائل کورٹ کوکہہ دیتے ہیں کہ وہ جلد ٹرائل مکمل کرے
اوورسیز پاکستانی کہتے ہیں کہ ہمارے نام پر وکیل بھی آجاتاہے اوربیان بھی دے دیتا ہے ، ایسے نہ کریں
اسلام آباد( ویبب نیوز)
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ خان آفریدی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے خلاف پاکستان میں ہونے والی زیادتیوں پر اہم ریمارکس ۔ایک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اِن پر ظلم ہوتا ہے اِن کے اوپر کیسز ہوجاتے ہیں، ایک شخص باہر ملک میں ہے اُس کو نوٹس نہیں ہوتا۔اوورسیز پاکستانی کہتے ہیں کہ ہمارے نام پر وکیل بھی آجاتاہے اوربیان بھی دے دیتا ہے ، ایسے نہ کریں۔ اوورسیز پاکستانیوں کی شکایت ہے کہ ان کی جانب سے وکالت نامہ بھی آجاتا ہے، بیان بھی ریکارڈ کروادیتے ہیں اور پھر کیس واپس بھی لے لیتے ہیں۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 2رکنی بینچ نے جمعرات کے روز کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے شاہدہ پروین کی جانب سے عزیزاں بی بی اوردیگر کے خلاف ہائی کورٹ کے سنگل رکنی بینچ کے یکطرفہ کاروائی اور ڈگری کوکالعدم قراردینے کے فیصلہ کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ کیا آپ اوورسیز ہیں۔ اس پردرخواست گزار کے وکیل محمد اشرف جلال کاکہناتھا کہ مدعا علیہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہے۔چیف جسٹس کاکہناتھا کہ اِن پر ظلم ہوتا ہے اِن کے اوپر کیسز ہوجاتے ہیں، ٹرائل چلنے دو، ایک شخص باہر ملک میں ہے اُس کو نوٹس نہیں ہوتا، ہم ٹرائل کورٹ کوکہہ دیتے ہیں کہ وہ جلد ٹرائل مکمل کرے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اوورسیز پاکستانی کہتے ہیں کہ ہمارے نام پر وکیل بھی آجاتاہے اوربیان بھی دے دیتا ہے ، ایسے نہ کریں، ہم ٹرائل کورٹ کوکہہ دیتے ہیں کہ وہ تیزی کے ساتھ ٹرائل مکمل کرے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی شکایت ہے کہ ان کی جانب سے وکالت نامہ بھی آجاتا ہے، بیان بھی ریکارڈ کروادیتے ہیں اور پھر کیس واپس بھی لے لیتے ہیں۔ چیف جسٹس کا درخواست خارج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ 6ماہ میں کیس کاٹرائل مکمل کرے ۔ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ آفس کوہدایت کی کہ وہ عدالتی حکمنامہ جلد ازجلد ٹرائل کورٹ کو بھجوائے۔ جبکہ بینچ نے عمران حسین کی جانب سے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج ، لاہور اوردیگر کے خلاف جائیداد کی تقسیم اور بولی کے حوالہ سے ہائی کورٹ کے سنگل رکنی بینچ کے عبوری حکم کے خلاف دائردرخواست پرسماعت کی۔ چیف جسٹس کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کمپرومائز ہوا ہے ، تقسیم ہونے دیں ہم سے کیا چاہتے ہیں، اگر باہر سے بولی آئے گی تواورزیادہ قیمت ہوگی، بولی کے وقت آپ کو موقع پر موجود ہونا چاہیئے، جو سب سے زیادہ بولی لگے تویہ رقم دے کرجائیداد خریدنے کاپہلا حق آپ کاہوگا۔ عدالت نے درخواست نمٹادی۔ بینچ نے واپڈا چیئرمین کی جانب سے ایم ایس عارف فلوزملز ، فیروزوالا ، ضلع شیخوپورہ اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔ چیف جسٹس کادرخواست گزار کے وکیل میاں محمد مدثر بودلہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کاعدالت میں کنڈکٹ ٹھیک نہیں، تین سال تک آپ نے پوچھا ہی نہیں، اس کورہنے ہی دیں۔ عدالت نے درخواست خارج کردی۔ بینچ نے میاں افتخار حسین کی جانب سے محمد خرم کے خلاف لاہور ہائی کورٹ آفس کے اعتراض کے خلاف دائر درخوست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ نظرثانی درخواست میں عدالتی فیس جمع نہ کروانے کاکیس ہے، عدالت نے وقت دیا پھر فیس ادانہیں کی ، اب عدالت سے کیا آرڈر چاہتے ہیں، کتنے مواقع عدالت سے چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ قانونی طور پر سپریم کورٹ میںیہ استدعا کرنا درست نہیں۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خار ج کردی۔ بینچ نے مسماة بھاگاں بی بی مرحوم کے لواحقین اوردیگر کی جانب سے محمد یعقوب کے لواحقین اوردیگر کے خلاف جائیداد کے تنازعہ پر عبوری حکم کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کادرخواست گزار کے وکیل ملک نور محمد اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اپنے والدین کی وفات کے بعدآپ کہتے ہیں کہ مجھے اجازت دیں کہ اپنے تحریری بیان میں ترمیم کروں، یہ مناسب بات نہیں، بڑوں نے ایک مئوقف اپنایا ہے اس کے خلاف بات کرنا مناسب نہیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ پہلے اوردونوں درخواستیں آپ نے تحریری کی ہیں۔اس پر وکیل کاکہناتھا کہ مختلف وکلیوںنے تحریری کی ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگروکیل نے اپنی طرف سے درخواسست دی ہے تواس کے خلاف کاروائی ہوسکتی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کمرہ عدالت میں موجود بڑے سینئر وکلاء اس معاملہ پر میری بات بڑے غور سے سن رہے ہیں۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔ جبکہ بینچ نے سول جج علی اصغر نقوی کی جانب سے استعفیٰ دینے کے معاملہ پر لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن چوہدری محمد احسن بھون پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ درخواست 411دن تاخیر سے دائر کی گئی۔ احسن بھون کاکہناتھا کہ یہ ہارڈشپ کاکیس ہے، درخواست گزار دہشت گردوںکی ہٹ لسٹ پر تھا، درخواست گزاراہل تشیع تھا اورکوئی وجہ نہیں تھی۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ درخواست گزار411دن کہاں تھا۔ احسن بھون کاکہنا تھا کہ ایک درخواست گزار، ایک ہائی کورٹ کے جج اور 10،12وکلاء کانام ہٹ لسٹ میں شامل تھا جن میں کوئی بھی نہیں بچا، درخواست گزارنے اپنے آپ کوبچانے کے لئے استعفیٰ دیا، پھر بحالی کی درخواست دی۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم درخواست جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں قائم سروس بینچ کوبھیج دیتے ہیں۔ اس پر احسن بھون کاچیف جسٹس کومخاطب کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ سے زیادہ سروس معاملات کوکون سمجھتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا ہم نے سروس کے معاملات کے لئے الگ بینچ بنایا ہے ہوسکتا ہے میں ریلیف نہ دوں اوروہ ریلیف دے دیں۔ چیف جسٹس نے کیس دوبارہ جلد سماعت کے لئے مقررکرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سروس بینچ کو بھجوادیا۔ ZS