سپریم کورٹ ،جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں زیر سماعت ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس کو ڈی لسٹ کردیا گیا
ڈی لسٹنگ کے بعدآج (بدھ) کو سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت نہیں ہو سکے گی
سپریم کورٹ،ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کو او ایس ڈی بنادیا گیا
نوٹیفکیشن میں ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کو تاحکم ثانی فوری رجسٹرار آفس کو رپورٹ کرنے کی ہدایت
اسلام آباد(ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس عقیل احمد عباسی پرمشتمل 2رکنی بینچ میں زیر سماعت ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس کو ڈی لسٹ کردیا گیا۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کی جانب سے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس ڈی لسٹنگ کا نوٹس جاری کردیا گیا۔ رجسٹرار آفس کی جانب سے ڈی لسٹنگ کے بعدآج (بدھ) کو سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت نہیں ہو سکے گی۔رجسٹرارآفس کی جانب سے پہلے سید منصورعلی شاہ کے بینچ سمیت دیگر بینچوں کی بدھ کے روز کی سپلیمنٹری کاز لسٹ جاری کی گئی تھی تاہم کچھ دیر سپلیمنٹری کاز لسٹ میں شامل کیسز کوڈی لسٹ کرنے کے حوالہ سے نوٹس جاری کردیا گیا۔سپلیمنٹری کاز لسٹ میں جسٹس سید منصورعلی شاہ، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس سردارطارق مسعود کے بینچز کے کیسز شامل تھے۔ واضح رہے کہ جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے آرٹیکل 191-اے سے متعلق کیس حکم کے نامے کے مطابق اسی بینچ میں مقرر نہ کرنے پر20جنوری کو ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کردیا تھا۔ بینچ نے کہا تھا کہ حکم نامے میں کیس اسی بینچ کے سامنے مقرر کرنے کے لیے کہا گیا تھا لیکن کیس کی کاز لسٹ جاری نہیں کی گئی۔ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین ججوں کے بینچ نے کہا تھا کہ 16جنوری کے حکم نامے کی موجودگی میں عدالتی حکم کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ بینچ نے کہا تھا کہ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ اس بینچ کے سامنے ٹیکس سے متعلق تمام مقدمات بھی منسوخ کردئیے گئے ہیں، اب ایک ریسرچ افسر طے کرے گا کہ کون سے مقدمات آئینی بینچ میں جائیں گے اور ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کیا۔ بعدازاں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل دو رکنی بینچ بنایا گیا اور کیس سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا جبکہ سنگین غفلت برتنے پر ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کو عہدے سے برطرف کردیا گیا۔ اسی طرح بینچ میں شامل تینوں ججوں نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو الگ الگ خط بھی لکھا تھا اور جسٹس منصور علی شاہ نے معاملے کو توہین عدالت بھی قرار دیا تھا۔ بینچ کے اراکین نے ججز کمیٹی کے رکن اور سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کو بھی خط لکھا تھا اور بینچ کے اختیارات سے متعلق کیس کا ذکر کیا تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ کے خط میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ انہوں نے 17جنوری کو ہونے والے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اجلاس میں دعوت کے باوجود شرکت سے گریز کیا تھا جبکہ سماعت کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ انہیں اجلاس کے بارے میں علم نہیں تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے خط میں اس حوالے سے لکھا کہ انہیں ججز کمیٹی میں پیش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کمیٹی پہلے والا بینچ تشکیل دے کر 20 جنوری کو سماعت مقرر کرسکتی تھی۔ معاملے کو توہین عدالت قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کیس مقرر نہ کرنا جوڈیشل آرڈر کو نہ ماننے کے مترادف ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی نے سماعت کے دوران ایڈیشل رجسٹرار (جوڈیشل) سپریم کورٹ کے خلاف توہین عدالت کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے سینئر رہنما اور سینیٹرحامد خان اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اور سابق اٹارنی جنرل منیر احمد ملک کو عدالتی معاون مقرر کردیا تھا۔
سپریم کورٹ،ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کو او ایس ڈی بنادیا گیا
نوٹیفکیشن میں ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کو تاحکم ثانی فوری رجسٹرار آفس کو رپورٹ کرنے کی ہدایت
اسلام ا باد (صباح نیوز)عدالتی آرڈر کے باوجود بینچز اختیارات کیس سماعت کے لیے مقرر نہ ہونے کا معاملہ سامنے آنے کے بعد گریڈ 21کے افسر سپریم کورٹ میں تعینات ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذرعباس کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔رپورٹ کے مطابق ایڈیشنل رجسٹرار ایڈمن پرویز اقبال کے دستخط سے نذر عباس او ایس ڈی بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔نوٹیفکیشن رجسٹرار سپریم کورٹ کی منظوری کے بعد جاری کیا گیا، نوٹیفکیشن میں ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کو تاحکم ثانی فوری رجسٹرار آفس کو رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ نذرعباس کو جسٹس منصور علی شاہ کے بینچ نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کر رکھا ہے اور سپریم کورٹ انہیں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم بھی دے چکی ہے۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آئینی ترمیم کے بعد بینچ کے اختیارات سے متعلق کیس کی سماعت مقرر نہ ہونے کے معاملے پر توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔ عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ بتایا جائے مقدمہ سماعت کیلئے آج مقرر کیوں نہ ہوا؟، ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کل صبح ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ کو معاملے کی جانچ پڑتال کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، کسٹم ایکٹ سے متعلق کیس کو آئینی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جانا تھا، غلطی سے سپریم کورٹ کے معمول کے بینچ کے سامنے لگا دیا گیا۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ اس کے نتیجے میں ادارے اور فریقین کے وقت اور وسائل کا ضیاع ہوا، جب اس سنگین غفلت کا ادراک ہوا، تو جوڈیشل برانچ نے ایک نوٹ کے ذریعے پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کے تحت معمول کی کمیٹی سے رجوع کیا۔ بیان کے مطابق غلطی کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے کمیٹی نے 17جنوری 2025 ء کو چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں اجلاس منعقد کیا، کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 191Aکی شق 3اور شق 5 کے مطابق یہ مقدمات آئینی بینچ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور کسی دوسرے کے پاس نہیں۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ کمیٹی نے ان مقدمات کو معمول کے بینچ سے واپس لیکر آئینی بینچ کمیٹی کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی، آئندہ تمام مقدمات جو آئین کے آرٹیکل 191Aکے تحت آتے ہیں، انہیں لازمی طور پر آئینی بینچ کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا، ریگولر ججز کمیٹی نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو ہدایت دی کہ تمام زیر التوا مقدمات کی جانچ پڑتال کے عمل کو تیز کیا جائے۔ اس میں مزید کہا گیا کہ ریگولر ججز کمیٹی نے رجسٹرار آفس کو نئے داخل ہونے والے مقدمات کی مکمل چھان بین کی ہدایت کی تاکہ مستقبل میں ایسی غلطیوں سے بچا جا سکے، یہ بھی قابل ذکر ہے کہ آئینی بینچ کمیٹی نے بھی 17جنوری 2025 کو اجلاس کیا اور 26ویں آئینی ترمیم اور قوانین کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والے تمام مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر کیا۔اعلامیے کے مطابق 8رکنی آئینی بنچ 26ویں ترمیم کیخلاف 27 جنوری کو سماعت کرے گا، جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آج ایڈیشنل رجسٹرار (جوڈیشل)کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی سماعت کی، تاہم ایڈیشنل رجسٹرار (جوڈیشل) کی رخصتِ مرضی کے باعث، سپریم کورٹ کے رجسٹرار، محمد سلیم خان بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔ جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ نے کہا کہ مقدمات کی شیڈولنگ میں غلطی ہوئی تھی جس کی جانچ کی جا رہی ہے، رجسٹرار سپریم کورٹ نے مزید بتایا مقدمات کو معمول کے بینچ سے ہٹانے کا فیصلہ ایڈیشنل رجسٹرار کی بدنیتی پر مبنی نہیں تھا بلکہ یہ معمول کی کمیٹی کی ہدایات کی تعمیل میں لیا گیا تھا۔ اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو ہدایت دی کہ زیر التوا مقدمات کی جانچ پڑتال کے لیے مزید وسائل مختص کیے جائیں، تاکہ فریقین اور قانونی برادری کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔یاد رہے کہ بینچز اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے کے معاملے پر سپریم کورٹ کے جسٹس منصور، جسٹس عائشہ اور جسٹس عقیل عباسی نے چیف جسٹس آفریدی کو خط لکھ دیا جس میں جسٹس منصور نے معاملے کو توہین عدالت بھی قرار دیا تھا۔ذرائع کے مطابق جسٹس امین الدین خان کو بھی تینوں ججز کی جانب سے خط لکھا گیا تھا جس میں بینچ اختیارات سے متعلق کیس کا ذکر کیا گیا تھا۔خط میں کہا گیا جسٹس عقیل عباسی کو 16جنوری کو بینچ میں شامل کیا گیا جو سندھ ہائیکورٹ میں بھی کیس سن چکے ہیں۔ خط میں 20جنوری کو کیس سماعت کے لیے مقرر نہ ہونے کی شکایت کی گئی۔خط کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی 17جنوری اجلاس کا ذکر کیا گیا۔ جسٹس منصور نے کمیٹی کو آگاہ کیا ان کا نقطہ نظر ریکارڈ پر موجود ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کمیٹی اجلاس میں شرکت سے انکار کیا اور جسٹس منصور علی شاہ نے ان کے آرڈر پر عمل کیا۔ جسٹس منصور نے کہا کہ انہیں کمیٹی میں پیش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کمیٹی پہلے والا بینچ تشکیل دیکر 20جنوری کو سماعت فکس کر سکتی تھی۔جسٹس منصور نے خط میں کہا کیس فکس نہ کرنا جوڈیشل آرڈر کو نہ ماننے کے مترادف ہے۔ جسٹس منصور نے معاملے کو توہین عدالت بھی قرار دیا۔